شریف خاندان پچھلے چند برسوں سے مشکلات میں گھرا ہوا ہے۔جب سے پانامہ کاانکشاف ہوا اسوقت سے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف پانامہ میں نام آنے پر کیس چلا اور پانامہ سے شروع ہوئے عدالتی کیس اقامہ سے ہوتے ہوئے منی لانڈرنگ اور کرپشن کے چارجز تک جا پہنچے اور میاں نواز شریف جیل جا پہنچے۔جس وقت پانامہ کا کیس چلا اسوقت عمران خان اپوزیشن میں تھے، نواز شریف کو سزا ہونے کے بعد شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم رہے ن لیگ کی ہی حکومت رہی لیکن الیکشن میں تبدیلی آئی اور مسلم لیگ ن کوششوں کے باوجود نہ صرف وفاق بلکہ پنجاب میں بھی حکومت نہ بنا سکی۔پنجاب کا ن لیگ کے ہاتھوں سے نکل جانا ایک بہت بڑا دھچکا تھا جسے ن لیگ ابھی بھی کسی صورت برداشت کرنے کو تیار نہیں۔اب بھی اندرون خانہ کچھ ایسے معاملات چلائے جا رہے ہیں کہ کم از کم پنجاب میں ان ہاوس تبدیلی لائے جائے اور ن اور ق اتحادی بنیں، چوہدری پرویز الہی ابھی تک حکومت کے اتحادی ہیں انہیں پنجاب اسمبلی کا سپیکر بنایا گیا تھا لیکن و ہ وزارت اعلیٰ کے خواہشمند تھے۔ اب اگر ن لیگ کے ساتھ ان کی سیٹنگ ہوتی ہے تو وہ پنجاب میں ممکنہ وزیر اعلیٰ ہوں گے۔ حکومت کے ساتھ ق لیگ کے اختلافات کی خبریں متعدد بار عام ہو چکی ہیں اب یوں لگتا ہے کہ اختلافات کا نتیجہ ایسی تبدیلی نکلے گا جس سے پنجاب میں تبدیلی آئے گی کیونکہ تحریک انصاف نے ابھی تک مونس الہی کو وزیر بنانے کا وعدہ پورا نہیں کیا جس کی وجہ سے ق لیگ کی قیادت پریشان ہے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف جب بھی مشکل میں آتے ہیں تو این آر او کے ذریعے ریلیف لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ مشرف دور میں این آراو کے ذریعے ہی سعودی عرب گئے تھے ۔اب عدالت نے انہیں طبی بنیادوں پر چھ ہفتوں کے لئے رہا کیا ہوا ہے۔نواز شریف کی صحت کو لے کر ن لیگ پریشان ہے لیکن فواد چودھری کہتے ہیں کہ ایسے لگتا ہے کہ نواز شریف آخری ہفتے ہسپتال میں داخل ہوں گے۔ اگرچہ نواز شریف نے شریف میڈیکل سٹی میں کچھ ٹیسٹ بھی کروائے ہیں۔ نواز شریف کی فیملی کے بعد اب شہباز شریف کے خلاف نیب نے تھقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔ نیب لاہور نے اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی شہباز شریف اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی حمزہ شہباز کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کی تحقیقات کا دائرہ کار وسیع کرتے ہوئے شہباز شریف خاندان کے تمام افراد کو شامل تفتیش کر لیا ہے۔
اس سلسلے میں نیب لاہور نے شہباز شریف، ان کی اہلیہ نصرت شہباز، حمزہ شہباز، جویریہ شریف اور رابعہ شریف کو مختلف تاریخوں کے نوٹس طلبی جاری کر دیئے ہیں۔ حمزہ شہباز شریف کو ہفتے میں دو دن کے لئے طلبی کے نوٹس جاری کئے ہیں۔ حمزہ شہباز شریف کو آمدن سے زائد اثاثہ جات اور چنیوٹ کے نالے کی تعمیر کے حوالے سے 15 اپریل اور 16 اپریل کو طلب کیا گیا ہے۔ اسی طرح نیب نے شہباز شریف کی اہلیہ نصرت شہباز کو 17 اپریل جبکہ شہباز شریف کی دونوں صاحبزادیاں جویریہ شہباز کو 19 اپریل اور رابعہ شہباز کو 18 اپریل کو بیان ریکارڈ کروانے کے لئے طلب کیا ہے۔ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز شریف نے الزام عائد کیا ہے کہ ڈائریکٹر جنرل نیب شہزاد سلیم نے ان کی ڈگری کیخلاف پنجاب اسمبلی میں جمع کرائی گئی قرارداد واپس لینے پر رعایت دینے کی پیشکش کی ،یہاں تک کہا گیا کہ میں بہت دبائو میں ہوں آپ حکومت سے بات کر کے کیوںسیٹلمنٹ نہیں کر لیتے معاملہ رفع دفع ہو جائے گا ،نیب کی کارروائیوں کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں ہتک عزت کا دعویٰ کروں گا ، اگر میری بیمار والدہ کو نوٹس بھجوایا جا سکتا ہے تو علیمہ خان کو طلب کر کے کیوں تحقیقات نہیں ہو سکتیں ،صاف پانی اور آشیانہ کی طرح منی لانڈرنگ کے الزامات بھی جھوٹے ثابت ہوں گے۔ گزشتہ دس سے پندرہ روز کی کارروائیوں سے ایسا لگتا ہے کہ نیب کو پورے ملک میں صرف شریف خاندان کے خلاف ہی کارروائی کرنی ہے۔
آمدن سے زائد اثاثہ جات کی تحقیقات گزشتہ کئی ماہ سے چل رہی ہیں ، اس کے بارے میں شہباز شریف سے بھی تحقیقات کی گئیں لیکن اچانک نیب کی تیزی کے پیچھے کیا محرکات ہیں۔میرے خلاف صاف پانی، رمضان شوگر ملز اور آمدن سے زائد اثاثوں کے کیسز کی تحقیقات چل رہی ہیں اور لاہو رہائیکورٹ میں ججز صاحبان نے پوچھا کہ حمزہ شہباز کی گرفتاری کس کیس میں مطلوب ہے تو ریکارڈ پر موجود ہے کہ نیب نے کہا کہ ہمیں حمزہ کی گرفتاری مطلوب نہیں۔ پھر ایسی کیا تیزی آ گئی کہ میری لاہور ہائیکورٹ سے ضمانت ہوتی ہے اور اگلے روز نیب مجھے دوبارہ طلب کر لیتا ہے۔مجھے تین گھنٹے تک بٹھایا گیا اور پوچھ گچھ ہوتی رہی اور واپس آتے ہوئے مجھے نیب والوں نے بتایا کہ آپ کو 16اپریل کو دوبارہ بلا رہے ہیں۔ ابھی مجھے 16کا نوٹس ملا اور اس کے بعد 15اپریل کو بھی طلبی کا نوٹس بھیج دیا گیا ، ان نوٹسز کی سیاہی خشک نہیں ہوتی اور میری والدہ اور دو بہنوں کو بھی نوٹسز بھجوا دئیے گئے۔ نیب اور پولیس نے میری بہن کے گھر کا گھیرائو کیا او رمجھے میری بہن نے فون کر کے بتایا۔کیا مہذب معاشروں میں بیٹیوں کوا س طرح نوٹس جاری کئے جاتے ہیں۔ میری والدہ کو متعدد امراض لا حق ہیں اور انہیں بھی نوٹس بھیج دیا گیا۔ اس لئے میں کہتا ہوں کہ یہ نیب ، نیازی گٹھ جوڑ ہے۔
سب نے اپنی اپنی قبر میں جانا ہے اور کسی نے ہمیشہ یہاں نہیں رہنا۔ ایک روز میری گاڑی ڈائریکٹر جنرل شہزاد سلیم کے دفتر تک گئی او رمجھے پروٹوکول کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ ڈی جی نیب آپ سے ملنا چاہتے ہیں اور پھر کہا گیا کہ میرے لئے دودھ پتی لائی جائے۔گزشتہ دنوں شہبازشریف کے گھر واقع ماڈل ٹائون میں نیب کی ٹیم نے دو دن ڈیرہ جمائے رکھا وجہ حمزہ شہباز کو گرفتار کرنا تھی مگر نیب کی یہ کوشش اس وقت رائیگاں گئی جب لاہور ہائیکورٹ نے حمزہ شہباز کو ضمانت دی اور نیب کو ہدایت دی کہ عدالتی حکم کے بغیر حمزہ شہباز کو گرفتار نہیں کرنا۔ابھی حمزہ شہباز کی جان چھوٹی ہی تھی کہ نیب نے شہباز شریف کی والدہ اور دو بیٹیوں کو بھی 17اپریل کوطلب کر لیا۔اب اس پر حمزہ شہباز نے دھواں دھار پریس کانفرنس کر ڈالی کی ایسا کیوں ہوا۔تاہم نیب کے ایک اعلیٰ افسر نے حمزہ شہباز کی پھرتیوں کا پردہ چاک کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ جب نیب نے حمزہ شہباز کو سوال جواب کے لیے بلایا تو انہوں نے اپنی والدہ سے متعلق سوال پر جواب دینا پسند نہ کیااور کہا کہ میں صرف خود سے متعلق سوال کا جواب دے سکتا ہوں اگر والدہ محترمہ سے کچھ پوچھنا ہے تو وہ نیب ان سے بذات خود پوچھے۔لہٰذا مجبوراً نیب کو ان کی والدہ اور بہنوں کو بھی نوٹس بھیجنا پڑا۔یوں اب نصرت شہباز اور ان کی دو بیٹیوں کو بھی آمدن سے زائد اثاثہ جات کے کیس کا سامنا کرنا پڑے گا۔نصرت شہباز کو ڈنگا گلی اور دوسرے گھر کے ذرائع آمدن کی تفصیلات کے علاوہ اپنے شوہر شہباز شریف کی طرف سے ملنے والے تحائف سے متعلق بھی پوچھ گچھ کی جائے گی۔ شہباز شریف کی فیملی کو نیب نے17اپریل کو طلب کیا ہے۔جبکہ اس سے ایک دن قبل 16اپریل کو حمزہ شہباز نے نیب کے روبرو پیش ہونااور اثاثوں کی تفصیل بیان کرنی ہے۔نیب کا کہنا ہے کہ نصرت شہباز کے اثاثوں سے متعلق انہیں اسٹیٹ بینک کی طرف سے بھی شکایات موصول ہوئی ہین۔ نیب کا کہنا ہے کہ اس کے پاس حمزہ شہباز اور اس کی فیملی سے متعلق ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے جب سے سیاست میں قدم رکھا اس نے ن لیگ سمیت سبھی سیاسی پارٹیوں کو خوب رگیدا۔ آہستہ آہستہ کچھ پارٹیوں کو تو عمران خان نے جزوی طور پر قبول کر لیااور کچھ کے ساتھ اتحاد بنا کر گورنمنٹ میں بھی آ گیا مگر زرداری اور نواز شریف کو وہ شروع سے ہی للکارتا چلا آ رہا ہے۔تاہم اب کافی عرصہ کی اس کھینچا تانی کے بعد کچھ انٹرنیشنل قوتیں اور کچھ اندرونی و بیرانی عناصر نواز شریف کو ریلیف دینے پر تل گئے ہیں تاہم وزیر اعظم پاکستان عمران خان اس ریلیف کے لیے قطعی طور پر تیار نہیں۔اگرچہ عمران خان کو اپنے اس ریلیف نہ دینے والے موقف پر بھی یوٹرن لینا پڑے گا مگر فی الحال وہ میں نہ مانوں کا ورد الاپ رہے ہیں۔اسی حوالے سے ایک تجزیہ کار نے کہا کہ بیرونی طاقتوں کے دبائواور اب تک نواز شریف کے ساتھ جو کچھ ہوا اس کو اسٹیبلشمنٹ اور حکومتی وزرا کے علاوہ بھی کچھ درددل رکھنے والے لوگ چاہتے ہیں کہ نواز شریف کے ساتھ ڈیل کر کے انہیں ملک سے باہر بھیج دیا جائے مگر عمران خان صاحب اس بات کے حق میں قطعی نہیں ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ریلیف کی بات اخلاقی طور پر درست ہے اور نہ ہی سیاسی طور پر۔عمران خان صاحب چاہتے ہیں کہ نواز شریف کا مکمل احتساب ہو جبکہ اسٹیبلشمنٹ اب انہیں رعایت دینے کا واضح اشارہ دے چکی ہے۔لیکن اگر عمران خان صاحب ریلیف دے دیتے ہیں تو انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ لندن یا کسی اور ملک جانے کے بعد نواز شریف صاحب جب واپس آتے ہیں تو وہ معاف نہیں کرتے۔نواز شریف صاحب نے فاروق لغاری صاحب کے ساتھ ڈیل لیکن وطن واپس آنے پر ان کے خلاف جو کیا وہ سب کے سامنے ہے،اسی طرح جنرل مشرف کے ساتھ ڈیل کر کے باہر گئے تو جب واپس آئے تو ان کے خلاف بھی سنگین مقدمات دائر ہوئے۔اب عمران خان کے ساتھ اگر نواز شریف کی ڈیل ہوتی ہے تو اس میں کوئی شک نہیں جب دوبارہ نواز شریف اقتدار میں آئیںگے تو ان کے ساتھ بھی انتقامی کارروائی کرنے سے باز نہیں آئیں گے۔مگر عمران خان کو بھی جھکنا پڑے گا کیونکہ بیرونی طاقتیں اب ایکٹو ہو چکی ہیں اور اسٹیبلشمنٹ بھی تیار ہے۔