جرمن تنظیم ہائنرش بوئل کو پاکستان کیوں چھوڑنا پڑا؟

Heinrich Böll Stiftung

Heinrich Böll Stiftung

اسلام آباد (جیوڈیسک) ہائنرش بوئل فاؤنڈيشن کے مطابق سخت ضوابط کی وجہ سے وہ پاکستان میں موثر انداز میں اپنی سرگرمیاں جاری نہیں رکھ پا رہی تھی۔ تجزیہ کاروں کے مطابق دیگر غیر سرکاری تنظیموں کو بھی پاکستانی حکام کی جانب سے ہراسانی کا سامنا ہے۔

گزشتہ 25 سال سے ہائنرش بوئل فاؤنڈيشن جمہوریت کے فروغ، ماحولیاتی پائیداری، پاکستان میں انسانی حقوق اور آزادی اظہار کے لیے کام کر رہی تھی۔ اس فاؤنڈیشن کا مرکزی دفتر جرمن دارالحکومت برلن میں قائم ہے۔ رواں برس مارچ میں اس فاؤنڈيشن نے پاکستان میں اپنے تمام تر سرگرمیاں معطل کر دی تھیں۔

ہائنرش بوئل فاؤنڈيشن کے تعلقات عامہ کی مینیجر ماورا باری کے مطابق،’’سول سوسائٹی کے حوالے سے عدم اعتماد کی بڑھتی ہوئی فضا کی وجہ سے فاؤنڈيشن کی سرگرمیاں بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ بنیادی ڈھانچے میں حکومتی کی جانب سے متعارف کردہ تبدیلوں کے باعث سول سوسائٹی کا کردار محدود ہو رہا ہے۔‘‘ ان کے بقول پاکستان میں کام جاری رکھنے کے لیے ’ایچ بی ایس‘ کو سازگار ماحول کے ساتھ ساتھ حکومتی اداروں کے اعتماد کی بھی ضرورت ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت کی جانب سے بین الاقوامی تنظیموں کے لیے متعارف کردہ مفاہمت کی یادداشت میں مخصوص شعبوں میں سرگرمیاں محدود کرنے کی بات کی، ’’مثال کے طور پر اب جمہوری، سیاسی شعبے اور سول سوسائٹی کو مضبوط کرنے کے لیے کی جانے والی سرگرمیوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘‘

پاکستانی آبادی کی بڑی تعداد نوجوانوں پر مبنی ہے۔ ساتھ ہی پاکستان کو بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری اور روزگار کے نئے مواقعوں کی بھی ضرورت ہے۔ بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ بین الاقوامی این جی اوز ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوانوں کو روزگار فراہم کر سکتی ہیں۔ جبکہ یہ تنظیمیں ملک کی مثبت ساکھ کو فروغ دیتے ہوئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو پاکستان کی جانب متوجہ کر سکتی ہیں۔

سن 2015 میں ٫سیو دی چلڈرن‘ نامی ایک این جی او کو آپریشن بندکرنے کا کہا گیا اور غیر ملکی کارکنوں کو ملک چھوڑنے کے لیے 15 دن کا وقت دیا گیا تھا۔

پاکستان میں غیر ملکی امدادی گروپ کے دیگر ناقدین نے غیر سرکاری تنظیموں پر پابندیوں کو جائز قرار دیا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ یہ تنظیمیں اکثر اپنے اختیارات یا دیے گئے مینڈیٹ سے تجاوز کر جاتی ہیں۔

پاکستانی فوج کے سابق سینیئر عہدیدار امجد شعیب نے ڈی ڈبلیو ڈی کو بتایا،’’ کچھ غیر سرکاری ادارے ریاستی عناصرکے خلاف سہولت کار ہونے کا کردار ادا کرتے ہیں۔کاغذات کے مطابق ان کا کام شہری علاقوں کی طرف ہے مگر وہ دیہی علاقوں جیسے اندرون سندھ میں کام کرتے نظر آتے ہیں۔ بہت سے غیر سرکاری تنظیمں، جو دستاویزات کی حد تک پناہ گزینوں کی امداد کے لیے بنائی گئی ہیں، نجی پارٹیوں میں حساس معلومات حاصل کرتی دکھائی دیتی ہیں۔‘‘

پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کے نائب چیئرمین اسد اقبال بٹ نے کہا،’’ان کی تنظیم کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔ آزاد خیال یا مسائل پر آواز بلند کرنے والوں کے لیے بے شمار مشکلات ہیں۔ بین الاقوامی تنظیم ہائنرش بوئل فاؤنڈيشن کو ہی نہیں بلکہ پاکستان این جی اوز کو ملکی اداروں کی جانب سے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔‘‘