ملک عزیز پاکستان کا ذکر ہو اور اِس کے محکموں کے ”صاحب کمال”افراد اور اُن کی” شاندار”کارروائیوں کا کہیں تذکرہ نہ ہو،کیسے ہوسکتا ہے،ملک وقوم کے” وسیع تر” مفادات میں اِن کی طرف سے کی گئی محکمانہ کارروائیوں کی بابت بات نہ ہو ،کیسے ممکن ہے،اِن کارروائیوں پر لاعلم رکھنا جہاں عوام کے ساتھ زیادتی ہے ،وہیں اِن کارروائیوں پر دادتحسین نہ دینا اِن صاحب کمال شخصیات سے بہت بڑی ناانصافی ہے، اِس لیے کہ یہ اِن کا حق بھی بنتا اور استحقاق بھی ٹھہرتااوراگر ممکن ہوتو ایک عدد حسن کارکردگی ”ایوارڈ”بھی بنتااور اگر مزید ممکن ہوسکے تو ترقی کے احکامات بھی سنادئیے جائیں،اتنے ”بااختیار” افراد کا آخر اتنا تو حق بنتا،پھر یہ کہ جس طرح سے یہ ہروقت اپنی ”جان جوکھوں ”میں ڈالے رکھتے،سڑکوں پر لوگوں کی مشکلات” کم” کیے ،مختلف قسم کے ”خطرات ”میں گھرے ہوئے، تھانوں میں ملک کی” تعمیرو ترقی ”کے لیے اپنا دن رات کا سکون” برباد” کیے ”عوامی سیوہ اور خدمت خلق ”کے جذبے سے ”بھرپور سرشار” ہوئے جس پوری ”لگن ”اور” دیانت داری” سے کام کرتے،انہی کا ہی ایک” خاصہ” ہے اور خدمت خلق کے آویزاں بورڈ پر ”سنہری حروف” میں لکھے جانے کے قابل ہے،خبر کچھ یوں ہے کہ محکمہ پولیس پنجاب نے پاک پتن دربار میںدورانِ ڈیوٹی رقص کرنے کے جرم میں اپنی دو خاتون کانسٹیبل ثناء تنویر اور امبرین کو نوکریوں سے نکال دیا ہے اور جواز یہ فراہم کیا ہے کہ انہوں نے محکمانہ ڈسپلن کی خلاف ورزی کی ہے اور محکمے کا تشخص مجروع کیا ہے اور یہ بات فرشتہ سیرت ڈی پی اوپاک پتن نے کہی جو خود بھی ایک خاتون ہیں۔
قربان جایئے ڈی پی او صاحبہ پر،کیا کمال کا ایکشن لیا،کیا عمدہ کارنامہ سرانجام دیا،کیا انوکھا مظاہرہ کیاکہ محض رقص کرنے پر دو خاتون کانسٹیبل کو اُن کی نوکریوں سے فارغ کردیا۔ڈی پی او ماریہ صاحبہ !کیا آپ اتنا بھی نہیں جانتی کہ اِس وقت کتنے لاتعداد افسران اور اہلکار ایسے ہیں جن پر جعلی پولیس مقابلوں کے سنگین الزامات ہیںمگروہ پورے طنطنے کے ساتھ نہ صرف حاضر سروس ہیں بلکہ کچھ تو پرکشش عہدوں پر بھی تعینات ہیں،اُن کو اگر بندے مار کر معافی مل سکتی تو ثناء اور امبرین کا جرم تو اِن سے کہیں کم ہے،بیچاری نے دوران ڈیوٹی صرف رقص ہی تو کیا ہے کوئی پولیس مقابلے میں چار بندے تھوڑی مارے ہیں،جو کہ اِن پرانکوائری کمیٹی بٹھاکر چار ماہ کی تحقیقات کے بعد ”مجرم” ڈیکلئیر کرکے گورنمنٹ جاب سے ”پیا گھر”سدھار دیا کہ جن کا فقط اتناجرم ہی اِن کے لیے وجہ عذاب بن گیا کہ دُوران ڈیوٹی وہ ”ناچی”کیوں؟ محترمہ ماریہ صاحبہ میرا آپ سے کہنا ہے کہ کچھ خدا کا خوف کھائیں،اپنے طرزعمل فیصلے پر ہمدردانہ غور فرمائیں،آخر اپنے اِس اقدام پر قیامت کے دن اللہ کے حضور کیا منہ لیکر جائوں گی ،کیا کہوں گی کہ میں نے ”کمال ڈیوٹی” نبھاتے غریب ونادار ،بے بس و لاچار خاتون کانسٹیبل کو”کمال مہارت ”سے فرض شناسی کی۔
اعلیٰ تصویر” بنتے ”عمدہ طریقے ”سے نوکری سے نکال باہر کیاجبکہ آپ کے آس پاس کا ماحول قطعی طور پر اِس بات کا متقاضی نہ ہے کہ آپ اِس طرح کے واقعات پر اِس طرح کے اقدامات اٹھاتی،(جبکہ آپ کے آس پاس کا ماحول پرتعفن،گھٹن زدہ ، لاقانونیت اور قانون سے کھلواڑ سے بھرا پڑا ہے،جن پر ایکشن کم کم نظر آتا)پھر یہ ایک ایسے وقت میں جبکہ حکومت واُس کے ادارے پوری قوم کو اُس کے” ناکردہ گناہوں” کی سزاکے طور پر مختلف معاملات میں ہر آن ہی نچائے ہوئے ہیں،غریب رعایا کو مہنگائی کی” چکی” میں پیسے ،اُن پر مہنگائی کا” کوڑہ ”برسائے اُن کو بری طرح ڈانس کروائے ہوئے ہیں۔
اپوزیشن والے اپنی ”کمال مہارتوں”سے ”قانون و انصاف” کو رقص کروائے ہوئے ہے اوراُن کو پکڑنے جانے والوں کو ”کمال ادائوں ”سے نچائے ہوئے ہے،مگر پکڑ میں نہیں آتے،صرف اور صرف اپنی ہی پروٹیکشن کیے،اپنے ہی مفادات کا تحفظ چاہے،رعایا کو اپنی” بہترین” حکمت عملی اور پالیسیوں سے انگلیوں پر نچائے ہوئے ہے،ایسے میں جبکہ پوری گورنمنٹ آئی ایم ایف کے سامنے اُن کے ایک ”اشارہ ابرو” پر” پیسادے پیسادے ”کرتی اُن کے اردگرد”ذلت و شرمندگی ”کی حد تک ”طواف” کیے پیسے ملنے کی امید کے” نشہ میں دھت” ہوئے ایک لہر اور سوز میں عوام کی مہنگائی پر چیخیں مارتی صورتحال اورادویات کی ہوشربا بڑھتی قیمتوںسے ”بے نیاز” ہوئے ،سارے کاروباری مراکز،دفاتر” تباہ ”کیے عالم مدہوشی میں اچھے دنوں کی امید کالارا دے کر عوامی امنگوں اور احساسات سے کھیلے اپنی مراعات بڑھائے ،اپنے لیے 77 نئی چمکیلی گاڑیاں منگوانے کی سمری پر دستخط کرکے ،غریب مزدورکے لیے کچھ نہیں،آئی ایم ایف کے دوارے پہنچ کر جھلیاں ڈالتے انداز میں پیسے کی ”چمک ”اور روپے کی ”جھنکار” میں دولت والے بیگ میںپڑے ، میںجھولاجھولے،افسران کی تعیناتی کے لیے اپنے ریٹ بڑھائے باٹا اور سروس کیے ،اور کسی برانڈ کا نام مجھے نہیں آتا،ورنہ بیش قیمت برانڈ کا نام لکھتا ،جس سے سیٹ کی تعیناتی کی ”اہمیت و افادیت” اورنئے پاکستان میں اِس کا رتبہ” واضح” ہوتا،کی بنیاد پرنئے پاکستان کا نعرہ لگا کر حالات پہلے سے بھی خراب کرکے ،بدلہ کچھ بھی نہیں،اُس گیت کی طرح زمانے کے انداز بدلے گئے۔
نئے پاکستان والوں کے خیالات بدلے گئے، ایک ”سراب اور دھوکے” کا گھر تعمیر کرکے ،عوام کو ترقی و خوشحالی کے ”سہانے سپنے” اور”سبز باغ” دکھا کر ، ہردر پر متھاں ٹیکے ”دھمالیں” ڈھال رہی ہے عوام کو بھی اِس میں برابر نچائے ہوئے،ایسے میں اگر اِ ن خاتون پولیس والیوں نے دوران ڈیوٹی فرائض سے غفلت برتتے پولیس کی انتہائی چمکتی دھمکتی ،اجلی وردی پر بدنامی کا بدنما ٹیکا لگاتے پورے دیس کو ناچتے دیکھ کر شراری کیفیت میں مبتلا ہوئے خود سے ناچ لیا،دھمال میں حصہ لے لیاتو کون سی قیامت ڈھے گئی،کون سا زلزلہ آگیا۔ اِس ملک کی یہ بڑی بدقسمتی رہی ہے کہ یہاںکی حکومت بمع ادارے فریب و دھوکا دہی کی ڈگڈگی پر ناچنے والوں کو تو گرفتار کرتی ہے مگر نچوانے والوںپر کوئی ایکشن نہیں لیتی،کیا ہی اچھا ہوتا محترمہ جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہاں دربار میں ہونے والا پروگرام ہی ختم کروادیتیںاور ذمہ داران کو کیفرکردار تک پہنچاتی ،مثال عبرت بنادیتیںکہ تاریخ میںمحترمہ کانام ایک ”بہادر خاتون”کے طور پر نقش ہوجاتا،نہ کہ اپنی لاچار ،بے بس لیڈی کانسٹیبل پر قانون کا شکنجہ کستی ۔کیا بطور ڈی پی او نہیں جانتی کہ یہ تو پولیس والوں کا ڈانس کرنے کاایک واقعہ رپورٹ ہوا ہے،(پس پردہ کیا کیا گل کھلائے جاتے ،نہیں سمجھتی کیا،کیا ہی اچھا ہوتا کہ ماضی میں ایک پاک پتن کیس میں شہرت پانے والے ڈی پی او رضوان گوندل کی شہرت اور سوانح عمری کے بارے جان کر ہی سبق پاتی،جس کی شہرت کو ہر اطراف کمال” عزت و شہرت” کے بیج لگے ہوئے تھے ،کیا کریکٹر تھا ،سوچ کر ہی رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، جسے بدقسمتی سے عدالت کی بے پناہ محبت وپیار نے” چھندا” ہونے کی حد تک مغرور کردیا تھا،وہ تو بھلا ہو کہ مسند اقتدار پر وسیم اکرم پلس وزیر اعلیٰ عثمان بزدار تھے اور مرکز میں عمران خان کہ بچ گئے ورنہ جتنے مرضی مسلم لیگی چہیتا ہوتے۔
شہباز کرے پرواز کے دور میں ہوتے تو بھیگی بلی بنے میائوں میائوں کر رہے ہوتے،نہ کہ عدالت کے بنائے ہوئے ”رستم و سلطان” کہلواتے،صریحا غلط مگر مکمل مصنوعی ٹھیک بنے ہوئے،آج سمجھ میں میں آرہاکہ آئی جی پنجاب امجد جاوید سلیمی نے بغیر وجہ بتائے 36 ڈی ایس پیز کیوں معطل کیے،جن کو عدالت میں اِس فیصلے سے اختلاف کرنے کی سانسیں مل گئی تھی، اُن کی ریزن بھی شائد اِس طرح کے ”شاندار فیصلے اور بہترین فرائض منصبی ”تھے،) پس منظر میں پس پردہ تو ساری پولیس فورس ہی امیروں کے گھر کی باندی ،اُن کا ہر حکم سر آنکھوں پر کیے دن رات ایک کیے اُن کے ایک اشارہ ابرو پر ہمہ وقت 24 گھنٹے ناچتی،بلکہ انتہاء کی حدوں کو چھوتی صورتحال میں رقص وسرور میں ڈوبی نظر آتی ہے،جن کے ماتحت افسران مفلس و غریب پر اپنا شکنجہ کسے رکھتے اور امیر سے ایسے ڈرتے ،جیسے کاں غلیلے سے،اِس ملک میں ”بااثر” لوگوں کی شراب بھری گاڑیاں بھی چھوڑ دی جاتی اور” غریب وکم تر ”افراد کو دوران چیکنگ ناکہ ہی پر جیب میں اپنی طرف سے چرس ،ہیروئن ،افیون ڈال کردھر لیا جاتا،غریب کے بچے کو ”آوارہ گردی” میں تھانہ میں بند کردیا جاتا،اور امیر کے بچے کو ”شراب ”کے نشے میں دھت ہوئے گھر چھوڑ آتے،امیروں کی گاڑیوں کو اپنی چمکتی دھمکتی شخصیات اور اُجلی وردی میں سلیوٹ در سلیوٹ مارے جاتے،نہ کاغذ جانچے جاتے ،نہ ہی ڈرائیونگ لائسنس دیکھے جاتے ،نہ ہی گاڑی سے باہر نکلنے کے احکامات دیئے جاتے اورنہ ہی گاڑی سے اور کچھ ملا حظہ کیا جاتااور غریب کو خوداوراُن کی گاڑیوں ،موٹر سائیکلوں تک کو ایسے چیک کرتے ،جیسے کوئی” مجرم” ہواور ملک دشمن کارروائیوں پر نکلا ہو، اِس موقع پر اُمراء کے بچوں کو کچھ نہ کہے،تکلیف دیئے بغیر اپنے وسیع تر مفادات میں ایسے چھوڑ دیتے ،جیسے پائیلٹ ”ابھی نندن” منفرد کام کرکے پاکستانی دورہ” انجوائے ”کرنے آئے ہو، ایسے میں پولیس والوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ اگر اِن کو کچھ دے دیں تو چوری کی گاڑی اور موٹر سائیکل بھی نکلوالو اوراگر کچھ نہ دو تواپنی گاڑی اور موٹر سائیکل بھی نہیں لے جا سکتے۔
محترمہ اِس دیس اور معاشرہ میں رہتی ،نہیں جانتی کہ وہ کیا ”کارہائے نمایاں” سرانجام دے رہی اور اپنا نام بنانے کی کوششوں میں لگی ہوئی ،تھانوں کی صورتحال پر ہی ایک نظر ڈال لیتی،جہاں کی صورتحال انتہائی خراب ہے،تھانوں سے لیکر جیل کے درودیوار تک پیسا مانگتے،کوئی کام بغیر پیسے کے نہیں ہوتا،سزا پوری کرنے والے غریب قیدی دیت کی رقم نہ ہونے پر مدتوں جیل میں سڑتے،بالاخر عدلیہ کے معزز ججزز کو مداخلت کرنا پڑتی اور دیت کی رقم حکومت وقت کو ادا کرنے کا حکم دے کر اُن کو چھوڑنے کا حکم صادر فرمایا جاتا،پیسے کے بل بوتے پر ”مکارو بے ایمان” کامیاب ٹھہرتے اور”بے گناہ ، سچے” مارے جاتے، معمولی جرائم پرتھانہ پورا پورا خاندان اُٹھا لیتا، تھرڈ ڈگری ٹارچر معمول کی بات ہے،عورتوں کو برہنہ کرکے پھرایا جاتا،نابالغ بچوں کے خلاف ایف آئی آر درج ہوتی ہے،معصوموں پر منشیات اور اسلحہ ڈال دیا جاتا،پولیس مقابلے عام ہوتے،ساہیوال سے لیکر منہاج القرآن تک لاشیں بچھی ہوئی ہیں،لڑکیاں کاروکاری ہوجاتی ہیں،بدکاری کے الزام میں جیتے جاگتے انسانوں کو دہکتے انگاروں پر چلایا جاتا ہے،معصوم بچوں اور بچیوں سے جنسی زیادتیاں ہورہی اور اِن کاکوئی پرسان حال نہیں،اِس پر کوئی کنٹرول نہیں،اِس سمت بھی دھیان دے لیا کریں،امیروں کے سامنے پولیس والے دست بستہ رہتے ،کسی کی مجال نہیں کہ چوں بھی کرے اور غریب پر سمیت جوتیوںہی چڑجاتے ہیں،افیون ،چرس ،ہیرئون کا دھندہ عروج پرہے ،شراب نکالی اور بیچی جارہی ہے ،پولیس والوں کے ہوتے ہوئے لوگوں کی زمینوں،جائیدادوں ، پلاٹوں،دفاتر پرقبضہ گروپ بزور اسلحہ ناجائزقبضے کیے جارہے ہیں۔
جواب میں انصاف دینے کی بجائے اُلٹا پولیس اپنا ”پیٹ بھرے” انہی ستم مارے مظلومین بیچاروں پرہی جھوٹے مقدمے درج کرکے بے گناہ افراد کو اندر کر دیتیںمگر اعلیٰ حکام میں سے پوچھنے والا کوئی نہیں اور وزیراعلیٰ تک پہنچنے والی ہر چٹھی ،فریاد،درخواست ردی کی زینت بن جاتی یا جھوٹ کی نذر ہوجاتیں، اِس سسٹم کے ہاتھوں لپٹے پُٹے مجبور ومقہور لوگ انصاف کی دہائیاں دے رہے مگرتحریک انصاف کی چھتری تلے بھی انصاف فراہم نہیں کیا جارہا، معمولی کاموں میں انصاف کی فراہمی میں تاخیری حربے استعمال کیے جاتے ہیں، انصاف کا حصول ممکن نہیں ہوپا رہا،انصاف ناپید ہے ،حق مل نہیں رہا،پورا ملکی سسٹم کرپٹ ہے،یہاں کوئی بھی سراہے جانے کے قابل نہیں،بہتر ہوا کچھ بھی نہیںبلکہ صورتحال پہلے سے بھی خراب ہے،لوگ پچھلی حکومت سے ”نالاں” تھے اور اِ س موجودہ گورنمنٹ سے ”پریشان” ہیں ، حکومت بھی عوام کو نچا رہی اور محکمے بھی ڈانس کروا رہے، ایسے میں اگر کوئی تفریح طبع کے لیے فارغ وقت اور سہولت دیکھ کر ایک عجیب سی ”شراری کیفیت ”میں اِس ”کرپٹ ”معاشرے میںدنیا کے تمام ”غموں ”سے ”بے نیاز”ہوکر گھڑی دو پل کے لیے ہلکا پھلکا” ناچ ”بھی لے تو کیا ہرج ہے۔آخر میں ایک سوال ،جب اِس ملک میںافیون ،چرس ،ہیرئوئن ،شراب والے،پلاٹوں پر ناجائز قبضے کرنے والے،ملک لوٹنے والے چھوڑے جاسکتے ہیں تو ناچ والے کیوں نہیں؟ سوچئیے گا ضرور،اس لیے کہ بوسیدہ نظام کی” غلاضتوں” اور” مکروہ دھندوں” میں پڑے رہنے والی” کثافتوں” کی وجہ سے دماغ ”مائوف” ہوا پڑا ہوتا،تنہائی میں سوچنے اور ضمیر میں جھانکنے سے اکثر اِس کی گرہیں چاروں وناچار ،ناچاہتے ہوئے بھی کُھل ہی جاتی ہیں،چاہے ایک لمحے کے لیے ہی سہی ، اور پھر یہ کہ اگر توفیقِ خدا کا سہارا بھی مل جائے تودرست فیصلوںکی اور اصل کام کون سا،جہاں کام کرنے کی ضرورت ،کا بھی پتا چل ہی جاتا،اِس کے بعد کوئی اپنا کام کرے یا نہ کرے ،وہ اُس کی اپنی مرضی پر منحصر ہے۔