حضرت علی اکبر ابن امام حسین بن علی کرم اﷲ وجھم

Hazrat Ali

Hazrat Ali

تحریر : ڈاکٹر ساجد خاکوانی

حضرت علی اکبر اہل بیت کے نوجوان اور امام حسین علیہ السلام کے نور نظر اور لخت جگر ہیں۔اگرچہ آپ کے تعارف کے لیے اتناہی کافی ہے کہ آپ اہل بیت نبویۖ میں سے ہیں لیکن واقعہ کربلا میں شہادت کا تاج نورانی بھی آپ کے سر پر سجا ہے۔آپ شکل و صورت اور عادات و خصائل میں محسن انسانیت ۖ سے بہت زیادہ مشابہت رکھتے تھے اسی لیے آپ کو ”شبیہ پیغمبر”کے لقب سے بھی ملقب کیا جاتا ہے۔ حضرت علی اکبر 11 شعبان المعظم 33ھ کو مدینہ طیبہ میں پیداہوئے ،والدہ محترمہ کا نام نامی لیلی بنت ابی مرة تھا۔ان کانسب باپ کی طرف سے عرب قبیلہ ثقیف سے ملتاہے،والد محترم کا پورا نام ابی مرة بن عروہ بن مسعود تھا ،ابی مرة نے اپنے بھائی کے ہمراہ آپۖ کے دست مبارک پر اسلام قبول کیاتھا جب کہ عروہ بن مسعود قریش کے مشہوراکابرین میں گنا جاتاہے ۔ماں کی طرف سے لیلی بنت مرة کا تعلق قریش کے خاندان بنوامیہ سے ملتاہے اورآپ کی والدہ محترمہ میمونہ بنت ابوسفیان تھیں اور ام شیبہ کے نام سے معروف تھیں۔حضرت امام حسین نے ان سے شادی کی اور ان کے بطن سے اﷲ تعالی نے حضرت علی اکبرکی تخلیق کی،سلام ہوان ماؤں پر جن کی کوکھ سے شہداجنم لیتے ہیں۔حضرت امام حسین کے ایک اور بیٹے حضرت سجاد بھی تھے،بعض مورخین نے انہیں بڑا بھائی لکھاہے اور بعض نے چھوٹا۔متعدد روایات سے معلوم ہوتاہے کہ حضرت علی اکبر نے شادی بھی کی تھی اورآپ کی اولاد بھی تھی،لیکن جمہورکی رائے ہے کہ حضرت امام حسین کی نسل صرف حضرت علی زین العابدین سے ہی چلی ہے۔

حضرت علی اکبر اگرچہ صرف اٹھارہ سال کی نوجوان عمر میں جام شہادت نوش فرماگئے لیکن اس عمر تک بھی ان کے علمی ذوق کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ انہوں نے اپنے دادا حضرت علی بن ابی طالب کرم اﷲ وجہ سے متعدد احادیث نبویۖ کی روایت کی۔آپ اپنے زمانے کے کم سن راوی ہیں لیکن اہل بیت میں سے ہونے کے باعث محدثین کے ہاں آپ کو ثقہ راوی گرداناجاتاہے۔صحابہ کرام کوجب کبھی آپۖ کی یاد آتی تولوگ حضرت علی اکبر کی زیارت کے لیے حاضرخدمت ہوجایاکرتے تھے،کافی کافی دیر آپ کے گرد حلقے بناکر بیٹھے رہتے اور بوجہ شباہت نبویۖآپ کی طرف دیکھ کر آپۖکی ایمان افروزیادیں تازہ کیاکرتے تھے۔اسی طرح جہاں کہیں بھی آپ تشریف لے جاتے وہاں آپ کی چال و رفتاروگفتارسے لوگوں کے حافظے میں یادرسولۖتازہ ہو جاتی تھی۔آپ کی اسی خوبی کمال کے باعث اہل بیت کے ہاں بھی آپ کو مرکزیت حاصل تھی اورآپ کے دیدارکو نبیۖکی زیارت سمجھ کر تبرک حاصل کرلیاکرتے تھے۔

واقعہ کربلا میں آپ اہل بیت میں سے سب سے پہلے شہید ہیں۔یہ قافلہ سخت جاں ابھی راستہ میں ہی تھا کہ ایک جگہ ”بنی مقاتل”کے مقام پر امام عالی مقام کی آنکھ لگ گئی۔آپ اناللہ واناالیہ راجعون والحمدللہ رب العلمین کی تسبیح کرتے ہوئے بیدارہوئے۔نوجوان حضرت علی اکبرساتھ ہی براجمان تھے،استفسارکیاتوجواب ملا کہ بیٹے میں نے ایک سوارکودیکھاہے جوصدائیں لگارہاتھا کہ موت اس قافلے کے سواروں کا پیچھاکررہی ہے اس پرمیں سمجھ گیاکہ بہت جلد موت ہمیں آلے گی۔شہزادہ علی اکبر نے پوچھاکہ باباجان کیاہم حق پر نہیں ہیں تو جواب ملا یقیناََ ہم حق پر ہی ہیںتونوجوان شہزادے نے جواب دیاتب موت آبھی جائے تو کئی پشیمانی نہیں۔بیٹے کا یہ صبرواستقامت اورعزم و ہمت اور حوصلہ جوانمردی دیکھ کر امام عالی مقام نے اجرعظیم کی دعافرائی۔اگریہ عام افراد ہوتے تو موت کی بازگشت سن کریہیں سے پلٹ جاتے لیکن یہ خانوادہ رسول ۖتھااور اہلبیت اطہارتھے جو شہادت کااعلی ترین مقام حاصل کرنے کے لیے موت کوشکارکرنے جارہے تھے۔انہیں کے لیے قرآن مجید نے کہا کہ اﷲ تعالی کے راستے میں مارتے ہیں اور مارے جاتے ہیں۔

یوم عاشورکے موقع پر بنی ہاشم میں سے سب سے پہلے حضرت علی اکبر نے امام حسین بن علی سے میدان میں اترنے کی اجازت مانگی۔اس پر امام صاحب نے فرمایا ”اللھم اشھدعلی ھولاء فقدبرزعلیھم اشبہ الناس برسولک محمدخلقاََ و خلقاََومنطقاََ”ترجمہ:اے اﷲ تعالی میں تجھے اس قوم پر گواہ بنارہاہوں جس کے مقابلے میں وہ نوجوان جارہاہے جوتمام لوگوں میں سے تخلیق اورحسن خلق وگویائی میں نبیۖکے ساتھ سب سے زیادہ مشابہت رکھتاہے۔اس کے بعد یہ بھی فرمایا کہ ”وکنا اذاشتقناالی روئیة نبیک نظرناالیہ”ترجمہ: ہم جب بھی تیرے رسول کو دیکھنا چاہتے تو اس نوجوان کی طرف دیکھ لیتے تھے۔حضرت علی اکبر میدان میں اترے تو دشمن نے کہاکہ تم نوجوان ہو اور حکمران وقت یزیدبن معاویہ سے رشہ داری رکھتے ہو چنانچہ ہماری طرف چلے آؤہم تمہیں امان دیتے ہیں۔حضرت علی اکبر نے ان کی امان کو پاؤں کی ٹھوکر پر رکھااورفرمایاکہ ”ان قرابتة رسول اﷲ احق ان ترعی”ترجمہ: صرف اﷲ کے رسول ۖ سے قربت کا تعلق ہی صرف رعایت کا مستحق ہے۔یہ نبوی گھرانے میں آنکھ کھولنے کانتیجہ تھا کہ دنیابھرکی قرابتیں،تعلقات اور نسبتیں پاؤں کی جوتی کے نیچے روند دیں اور عین میدان قتال میں جب موت آنکھوں سے آنکھیں ملا رہی تھی اس وقت بھی نبیۖ سے نسبت و تعلق کو تمام نسبتوں اور تعلقات سے فوق تر رکھا۔یہ اس قول رسولۖ کی عملی تصویر تھی کہ تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ میں (محمدۖ) تمہیں تمہارے ماں باپ،تمہاری اولاد اور کل انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔امت نے اس گھرانے سے ہی یہ سبق سیکھاکہ کوئی عصبیت،کوئی خاندانیت،کوئی علاقائیت یا کوئی دیگرنسبت بارالہ میں کام آنے والی نہیں ہے ،یہاں صرف نسبت محمدیۖ کا ہی سکہ چلے گا،خواہ یہ سکہ زمان و مکاں کی کسی اکائی کے کسی فرد کے پاس ہی ہو۔

حضرت علی اکبر کو مورخین نے اہلبیت میں سے کربلا کا سب سے پہلا شہید لکھاہے کیونکہ جب تک امام صاحب کے ساتھی زندہ تھے انہوں نے اہل بیت پر اپنی جانیں نچھاورکیں لیکن ان کے بعد علی اکبر پہلے شہید ہیں۔شہداکے معروف زیارت نامے میں آپ کے بارے میں یہ مقدس و محترم الفاظ درج کیے گئے ہیں”السلام علیک یااول قتیل من نسل خیرسلیل من سلالةابراہیم علیہ السلام”کہ اے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولادمیں سے بہترین نسل انسانی کے قتل ہونے والے پہلے شہید تم پر سلامتیاں ہی سلامتیاں ہوں۔روایات کے مطابق کربلامیں آپ نے پہلے حملے میں کم و بیش ایک سو سے زائد افراد کو گرالیاتھا۔جس طرف جاتے دشمن کی صفوں کو الٹ پلٹ کررکھ دیتے۔جرات و شجاعت کی ایسی مثال اس آسمان نے اس سے ماقبل و بعد شاید مشاہدہ نہ کہ ہوگی۔کوفیوں میں جس طرف سے بھی بڑھتے ان کے چھکے چھوٹ چھوٹ جاتے۔جب اس ہاشمی شہسوارکاحلق سوکھ کر کانٹابنااور اعضائے جسم اطہر نے سیرابی کامطالبہ کیاتومیدان سے نکل کر اپنے والد گرامی کے پاس چلے آئے اور شدت پیاس کی شکایت کی۔یہ اصل میں وہ پیاس تھی جس کا شکار حضرت اسمئیل علیہ السلام ہوئے تھے،انہیں تو زم زم کا بہتاہواآب شیریں میسر آگیاتھالیکن وہ پیاس صدیوں کی مسافت کے بعدآج نسل اسمئیل پرآن ٹوٹی تھی۔امام عالی مقام نے اپنی انگشت مقدس سے انگوٹھی اتاری اور لخت جگرکی زبان پررکھ دی اور حوض کوثر پر ساقی کوثر کے انتظارکی بشارت دی۔اب کی بار حملوں میں وہ شدت نہ رہی تھی جس کے باعث آپ کوفیوں کے گھیرے میں آ گئے اور ایک برچھی جو سینہ مبارک پر لگی اس سے خون کے فوارے بلند ہوئے ،آپ نے اپنے بابا کوآواز دی سلام عرض کیااور کہاکہ جام کوثر لیے رسول خداۖ پہنچ چکے ہیں،یہ آپ کے آخری الفاظ تھے اور پھر آپ داعی اجل کو لبیک کہ گئے۔امام عالی مقام نے اپنے ساتھیوں سے کہااوروہ علی اکبرشہیدکا جسم اطہر اٹھاکر لے آئے اور خیمہ اہل بیت کے سامنے شہداکے درمیان رکھ دیاجہاں خواتین اہل بیت نے بھی اس شہید کے خون آلود جسم کا دیدارکیا۔بوقت شہادت آپ کی عمر مبارک اٹھارہ برس کل تھی۔آپ کی قبر مبارک حضرت امام حسین کی مرقد انور کے ساتھ ہی ہے۔

دنیا بھر کی قیادت والے سب کوقربان کرکے خود کواوراپنے گھروالوں کو بچالیتے ہیںلیکن یہاں کے پیمانے مختلف ہیں۔یہاں خود اور اپنے اہل خانہ کی قربانی دے کر امت کو بچالیا۔حقیقت یہ ہے کہ اس خاندان کومارنے والے مرگئے لیکن یہ خاندان قیامت تک زندہ و تابندہ رہے گا اور قیامت کے بعد بھی اﷲ تعالی اس خاندان سے اپنے وعدے پورے کرے گا۔اس خاندان پر درودپڑھے بغیر مسلمانوں کی نمازبھی مکمل نہیں ہوتی۔نبی سے نسبت اگرچہ اس خاندان کا اثاثہ ہے لیکن اس خاندان کی قربانیاں اس کااصل ترکہ ہیں۔اقامت دین اوراعلائے کلمة الحق کے لیے میدان میں استقامت کے ساتھ کھڑے رہنااورہر آنے والی رکاوٹ سے ٹکراجانااور طاغوت کے سامنے سرجھکانے کی بجائے سر کٹالینا سنت شبیری اور شعائراسلام ہے۔اس خاندان سے عقیدت و محبت و مودت کاتقاضاہے کہ اس دنیاسے ظلم اور ظالم کے خلاف صف آرارہاجائے ،حق کا جھنڈاسربلندرکھنے کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کیاجائے حتی کہ اپنی اولاد اور اہل خانہ کو بھی اس راہ حق میں ہمرکاب رکھاجائے۔باطل نظام کاکل پرزہ بن کر،طاغوت کاآلہ کاربن کر،عالمی سامراج اور علاقائی استعمار کے نظام تعلیم ونظام معاش میں اپنی نسلوں کوجھونک کر ایمان کادعوی کرنا کسی اہل بیت کے چاہنے کو زیب نہیں دیتا،یہ دورنگی ختم کرنی ہوگی تب ہی یہ نسبتیں کارآمد ہو سکیں گی۔

تحریر : ڈاکٹر ساجد خاکوانی
drsajidkhakwani@gmail.com