اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ شعبان المعظم ایک بابرکت مہینہ ہے جس میں رمضان المبارک کے لیے تیاری کا موقع ملتا ہے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے کے اکثر حصے میں روزے رکھتے تھے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں” میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (پورے اہتمام کے ساتھ) رمضان المبارک کے علاوہ کسی اور پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں، اور میں نے نہیں دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھتے ہوں”(صحیح بخاری)۔ اسی طرح حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ” میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان اور رمضان کے سوا لگاتار دومہینے روزے رکھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا” (ترمذی شریف) ۔ یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے پورے مہینے کے ساتھ شعبان کے بھی تقریباً پورے مہینے کے روزے رکھتے تھے اور بہت کم دن ناغہ فرماتے تھے۔ ماہ شعبان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیادہ نفلی روزے رکھنے کے کئی اسباب اور کئی حکمتیں بیان کی گئی ہیں، حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیاگیا کہ ” رمضان المبارک کے بعد افضل روزہ کون سا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا” رمضان کی تعظیم کے لیے شعبان کا روزہ (ترمذی )۔ یعنی رمضان المبارک کی عظمت، اس کی روحانی تیاری، اس کا قرب اور اس کے خاص انواروبرکات کے حصول اور ان سے مزید مناسبت پیدا کرنے کا شوق اور داعیہ ماہ شعبان میں کثرت کے ساتھ نفلی روزے رکھنے کا سبب بنتا ہے اور شعبان کے ان روزوں کو رمضان کے روزوں سے وہی نسبت ہے جو فرض نمازوں سے پہلے پڑھے جانے والے نوافل کو فرضوں سے ہوتی ہے۔
حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا” شعبان کا مہینہ رجب اور رمضان کے درمیان کا مہینہ ہے، لوگ اس کی فضیلت سے غافل ہیں،حالانکہ اس مہینے میں بندوں کے اعمال پروردگار عالم کی جانب اٹھائے جاتے ہیں، لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتاہوں کہ میرا عمل بارگاہ الٰہی میں اس حال میں پیش ہو کہ میں روزہ دار ہوں۔ ایک دوسری حدیث میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ماہ شعبان میں اس کثرت سے روزے کیوں رکھتے ہیں؟ ارشاد فرمایا” اس مہینے میں ہر اس شخص کا نام ملک الموت کے حوالے کردیا جاتا ہے جن کی روحیں اس سال میں قبض کی جائیں گی، لہٰذا میں اس بات کو پسند کرتاہوں کہ میرا نام اس حال میں حوالے کیا جائے کہ میں روزے سے ہوں۔
ماہ شعبان المعظم کی پندرہویں شب ”شب برات” کہلاتی ہے، برات کے معنی ”رستگاری وچھٹکارا” کے ہیں، احادیث مبارکہ اور روایات میں اس رات کی بہت زیادہ اہمیت و فضیلت بیان کی گئی ہے، اس مبارک رات میں اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے، بخشش و مغفرت اور رحمت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، انعام و اکرام کی بارش ہوتی ہے توبہ اور دعائیں قبول ہوتی ہیں، اس رات میں آئندہ سال کی اموات و پیدائش لکھی جاتی ہیں، اس رات میں رزقوں کی بھی تقسیم کردی جاتی ہے ،اس رات میں بندوں کے اعمال و افعال آسمان پر لیجائے جاتے ہیں اور اس رات میں اللہ تعالیٰ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابر بندوں کو دوزخ کی آگ سے نجات عطا فرماتے ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، فرماتی ہیں، میں نے ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر نہ پایا، تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلاش میں نکلی، میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع (مدینہ طیبہ کا قبرستان) میں ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھے دیکھ کر) ارشاد فرمایاکیا تو یہ اندیشہ رکھتی ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیرے ساتھ بے انصافی کریں گے؟ (یعنی ان کی باری میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کسی دوسری بیوی کے پاس چلے جائیں گے) میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! مجھے یہ خیال ہوا کہ آپ اپنی کسی دوسری بیوی کے پاس تشریف لے گئے ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایااللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب میں آسمان دنیا پر نزول فرماتے ہیں اور قبیلہ بنوکلب کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتے ہیں۔ (بنوکلب عرب کا ایک قبیلہ تھا۔
عرب کے تمام قبائل سے زیادہ اس کے پاس بکریاں ہوتی تھیں)۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرہویں شب مخلوق کی طرف نزول اجلال فرماتے ہیں اور مشرک اور کینہ پرور کے علاوہ سب کی بخشش فرما دیتے ہیں”۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں اس رات ”اللہ تعالیٰ ہر مومن کی بخشش فرما دیتے ہیں، سوائے والدین کے نافرمان ،بے ادب اور ذاتی دشمنی رکھنے والے کے”۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے” جب نصف شعبان کی رات آجائے تو تم اس رات میں قیام کرو اور اس کے دن (پندرہویں شعبان) کا روزہ رکھا کرو۔
اس لیے کہ اس رات میں اللہ تعالیٰ سورج غروب ہونے سے طلوعِ فجر تک قریب کے آسمان پر نزول فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں کہ کیا ہے کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا میں جس کی مغفرت کروں؟، کیا ہے کوئی مجھ سے رزق کا طالب کہ میں اس کو رزق عطا ء کروں؟ کیا ہے کوئی کسی مصیبت یا بیماری میں مبتلا کہ میں اس کو عافیت عطا کروں؟ اللہ تعالیٰ برابر یہ آواز دیتے رہتے ہیں یہاں تک کہ سورج طلوع ہوجاتا ہے۔ ان احادیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ شب برات ایک فضیلت اور عظمت والی رات ہے، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس رات میںہمارے گناہوں کی مغفرت فرماکر ہمیں جہنم سے آزادی نصیب فرمائیں ، آمین۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان
ای میل:ranaaijazmul@gmail.com رابطہ نمبر:03009230033