آصف شاہ ڈوہوڈیال مانسہرہ سے تعلق رکھنے والے ایک مخلص اور شفیق انسان دوست شاعر ہیں، آپ ایک سچے، پکے اور سلجھے ہوئے شاعر ہیں، آپ کی شاعری میں سلاست، روانی اور پاکیزگی ہے،منفرد لہجے اور اپنی شاعری میں انسانی رویوں اور انسانی نفسیات کو اجاگر کرنے والے آصف شاہ 20 مارچ 1993 کو پیدا ہوئے،آپ نے 2009 میں میٹرک امتحان پاس کیا،ایم اے اردو ادب اور اس میں بھی گولڈ میڈلسٹ آصف شاہ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں،پاکستان سکائوٹ کیڈٹ کالج بٹراسی میں لیکچرار اردو ہیں، آپ انسانی رویوں اور فلسفہ کے ساتھ شاعری کی کتاب”طلسم زار”کے خالق ہیں اور آپ کی کتاب کی بہت جلد رونمائی ہونے والی ہے۔
طلسم زار میں آصف شاہ کی شاعری جدید رجحانِ طبع کی عکاس ہے آپ کی شاعری درد کی دوا کی حیثیت رکھتی ہے جس کو پڑھنے کے بعد کوئی بھی داد و تحسین دیے بغیر نہیں رہ سکتا،آصف شاہ کا منفرد اور اپنا لہجہ ہے جس میں سستی اور کاہلی نہیں اور نہ ہی اکتاہٹ اور تھکاوٹ پائی جاتی ہے ، آپ زندگی کی تمام تلخی کو بڑی خندہ پیشانی سے قبول کرتے ہیں بلکہ ہر وقت اس کے لیے تیار رہتے ہیں، انہوں نے اپنے کلام کی مقدار و معیار دونوں لحاظ سے جدید غزل اور نظم میں انفرادیت قائم کی ہے، سیدھے سادھے الفاظ میں غزل کے ساتھ اپنی نظموں کو شعری جامہ پہنانا آصف شاہ کا وصفِ خاص ہے، طلسم زار میں بحیثیت مجموعی آپ کی تمام غزلیں اور نظمیں جدید امکانات، رجحانات، اظہارات و احساسات اور مشاہدات سے قاری کو روشناس کراتی ہیں۔
آصف شاہ نوجوان نسل کے نمائندہ شاعر اور اردو شعر و ادب کے بے لوث خادم ہیں، شہرت اور ستائش سے بے نیاز، تازہ تصورات کی پزیرائی اور حسن عمل کا مظاہرہ کرنے والے ایک طبع شخصیت کے مالک ہیں،آصف شاہ بلا شبہ بظاہر ایک عام آدمی مگر ایک غیر معمولی منظم، متوکل، مرتب، دیدہ ور اور مستقل مزاج انسان ہیں،یادوں کے نہاں خانوں میں ہر وقت ہزاروں نام تہ در تہ رکھے ہوتے ہیں۔ انسان کسی بھی شعبے میں ترقی کی منازل طے کرنے کے لئے ماضی کی یاد، حال کا عمل اور مستقبل کی سوچ ایک ساتھ لے کر چلتا ہے۔ جو مشاہیر اپنی زندگی میں کارہائے نمایاں انجام دے چکے ہیں، اُن کو یاد رکھنا بھی ایک ذمہ داری کی ادائیگی کے زمرے میں آتا ہے۔
دنیائے ادب میں آصف شاہ شاہ کا نام ہمیشہ تابناک رہے گا،انہوں نے اپنے لفظوں کو موتیوں کا روپ دیا ہے،طلسم زار کے آسیب زدہ ماحول سے ان کی شاعری میں وہ روانی اور درد سے آشنائی ہے جس کی شاید ہی کہیں کوئی مثال مل سکے،طلسم زار میں آصف شاہ نے اپنے اسلوب سے شاعری کو ایک نئی جہت عطا کی ہے،سادہ انداز میں ایسی گہر ی باتیں کہی ہیں کہ قاری دنگ رہ جاتا ہے،آصف شاہ کے طلسم زار کے کلام میں انفرادیت ہے،جنہوں نے اپنے اشعار میں دریا کو کوزے میں بند کیا ہے۔
منفرد لہجے کے اسلوب گر شاعر آصف شاہ کا پہلا شعری مجموعہ ” طلسم زار” اشاعت کے مراحل میں ہے ، اپنے اس مجموعے میں انسان کے رویے اور ان رویوں کے پس پردہ نفسیاتی محرکات کو شاعر آصف شاہ نے الفاظ کا جامہ پہنانے کے علاوہ مابعد از نفسیات، میٹا فزکس، فلسفہ تصوف اور ہمہ موضوعات کو بھی اپنی شاعری کا حصہ بنایا ہے،آصف کی شاعری میں نیم تیرگی سائے، خوف، خون، سحر اور چونکا دینے والی کیفیات سے ایسی فضا بندھ جاتی ہے کہ قاری جا بجا رکتا ہے اور گھنٹوں کسی اور ہی دنیا میں اپنے آپ کو محسوس کرتا ہے تا ہم آصف شاہ کی شاعری کا بنیادی موضوع انسان اور انسان ہی کی نفسیات ہے،آصف شاہ مشاعرے کا شاعر نہیں بلکہ گہری فکر اور فن کا شاعر ہے اس لیے آصف شاہ کی شاعری اپنے قاری کا انتخاب خود کرتی ہے،سنجیدہ قارئین ادب کے لیے بڑی خوشخبری یہی ہے کہ آصف شاہ کی شاعری جلد ہی کتاب کی صورت میں ان کے ہاتھوں میں ہو گی۔