جوتہ صاحب آخری موقعہ ہے

IG Arif Nawaz Khan

IG Arif Nawaz Khan

تحریر : روہیل اکبر

9 ڈویژن اور 36 اضلاع پر مشتمل گیارہ کروڑ سے زائد آبادی والا پنجاب ہمیشہ سے ہی لاقانونیت کا شکار رہا ہے صوبہ میں موجود 712 پولیس تھانوں کو عقوبت خانے کہا جاتا ہے اور ہماری حفاظت پر موجود 1 لاکھ 80 ہزار پولیس فورس عوام میں اس حد تک گرگئی تھی کہ مجبورا پچھلی حکومت کو 2017 میں پولیس وردی جو نفرت کی علامت بن چکی تھی کو تبدیل کرنا پڑا کالے رنگ پر زیتون سبز رنگ کردیا گیااور اب ایک بار پھر اس وردی کو تبدیل کرنے کا سوچا جارہا ہے کیونکہ وردی کے اندر انسان نما بھیڑیے کو بدلنے کی کوشش نہیں کی گئی صرف اسکی کھال کا رنگ بدلا گیا مگر اندر سے وہی سرمایہ دار وں ،جاگیرداروں اور حکمرانوں کی انگلیوں پر ناچنے والا عوام بیزاراور حکم کا غلام موجود تھا جو اپنے آقاؤں کے پرندے اور جانوروں کے شکار کرنے کی نقل کرتے ہوئے کبھی ساہیوال میں کبھی مظفر گڑھ میں کبھی راجن پور میں کبھی کہیں تو کبھی کہیں انسانوں کو اپنی گولیوں سے شکار کے زریعے بھون رہے ہیں اور رہی بات تھانوں کو جہاں ان محافظوں نے اپنی ظلم و بربریت کے لیے الگ سے ہی ایک ریاست قائم کررکھی ہے جہاں پر سوائے ظلم ،تشدد اور بربریت کے نظام کے کچھ اور ہوتا ہی نہیں ہے اور جیسے جیسے دن ڈھلتا جاتا ہے ویسے ویسے وہاں پر موجود گناہ گار اور بے گناہوں کے دل ڈوبنا شروع ہوجاتے ہیں۔

کیونکہ تشدد کے انسانیت سوز واقعات کا ایک نہ رکنے والا سلسلہ جو شروع ہونے والا ہے جو صبح صادق تک قائم رہے گا مگر جب سے عدلیہ کا کچھ نہ کچھ ڈر قائم ہوا ہے تب سے ہمارے شہری علاقوں کے تھانوں میں ایسادیکھ بھال کر ہوتا ہے مگر اسکے متبادل کے طور پر ہمارے جوانوں نے اپنے پرائیوٹ ٹھکانے بنا کر اپنے شکاروں کو وہاں پر رکھنا شروع کردیا ہے رہی بات دیہاتی علاقوں کے تھانوں کی وہاں پر توجانا دور کی بات ہے ان مقامات کے سامنے جہاں پر تھانے کا وجود ہوں کے قریب سے گذرتے ہوئے بھی ایک شریف انسان ڈرتا ہے اور اگر کوئی خاتون بے سمجھی میں اپنی کوئی شکایت لکھوانے ان تھانوں میں چلی جائے تو پھر جو حشر اسکے ساتھ یہ درندے کرتے اسکے بعد تو وہ خود کشی کرنے کا سوچتی ہے آج اگر ہمارے گلی محلوں میں شراب ،چرس ،ہیرؤن ،آئس سمیت دنیا بھر کے نشے سرے عام فروخت ہورہے ہیں تو اس میں بھی ہمارے انہی شیر جوانوں کا کردار ہے جی ہاں یہ وہی شیر جوان ہے جنہوں نے شیر کے نشان پر الیکشن لڑنے والے حمزہ شہباز کی گرفتاری میں بھی روڑے اٹکائے اور نیب کو ناکام واپس لوٹنا پڑا۔

کیونکہ یہ موقعہ تھا اپنی اپنی وفاؤں کے نبھانے کا اور اس موقعہ پر انکے نمک خواروں نے حق نمک ادا بھی کیا جسکے بعد اس وقت کے آئی جی امجد سلیمی کا بھی جانا پڑا کیونکہ ہماری پولیس فورس کے جوان بے گناہوں کو گھروں سے تو کیا پاتال سے بھی ایسے گھسیٹ لاتے ہیں جیسے بلی چوہے کو گھسیٹتی ہے مگر آفرین ہے ہماری پنجاب پولیس پر کہ انہوں نے ملک و قوم کا پیسہ بے دردری سے لوٹنے والے پر اپنی چھاؤں کیے رکھی یہ ہمارے پولیس کلچر کا حسن بھی ہے شان بھی ہے اور اب تو حصہ بھی بن چکا ہے کیونکہ جب تک حکمرانوں کے تلوے نہ چاٹے جائیں اس وقت تک نہ آپ بھرتی ہوسکتے ہیں نہ ٹرانسفر ہوسکتی ہے نہ تعیناتی ہوسکتی ہے اور تو اور نہ ہی اس محکمہ میں ترقی ہوسکتی ہے اسی لیے پولیس دہشت کی علامت بنی ہوئی ہے کیونکہ ظالم لوگ پولیس کو ہی استعمال کرکے عام انسانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑتے رہے ہیں جب دل چاہا جسکو مرضی پولیس مقابلے میں پار کروادیا عابد باکسرابھی بھی پولیس کلچر کی زندہ مثال ہمارے سامنے موجود ہے مگر ایک اکیلا عمران خان کیا کرے وہ چوروں کو پکڑے یا چوروں کی نانیوں کو ہر طرف اور ہر محکمہ کا نظام ایک جیسا ہے مگر پولیس ان سب سے بازی لے گئی پولیس میں ہی محافظ کے نام سے جوان ہماری حفاظت کے لیے گشت کررہے ہوتے ہیں مگر شریف شہری ان کو دیکھ کر سہم جاتا ہے ڈولفن فورس ہماری حفاظت کے لیے بنائی گئی مگرشریف شہریوں کا شکار انکا بھی پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے۔

پولیس میں ان تمام خرابیوں کی وجہ ہمارے سیاستدان ،سرمایہ دار ،جاگیر دار ،منشیات فروش اور جواری لوگ ہیں جنکی پولیس ملازم بنی ہوئی جنکے کہنے پر کام ہوتے ہیں ورنہ تو ڈبل ذلالت والا کام ہوجاتا ہے پولیس میں بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جنکی مثال دی جاسکتی ہو کہ حقیقت میں یہی لوگ ہیں جو اس نظام کا چہرہ ہیں جو حضرت عمر فاروق نے متعارف کروایا تھا اور انہی میں ایک نام سابق ایڈیشنل آئی جی سپیشل برانچ جناب طاہر انور پاشا کا بھی ہے جنہوں اس محکمہ میں رہتے ہوئے بھی اپنے آپ کو پولیس کے رنگ میں نہیں ڈھالا اصل میں انکے اندر ایک ایسا سیروسیاحت کا دلدادہ انسان بیٹھا ہوا تھا جو انسان کی قدر اور عزت بطور انسانیت کرتا ہے وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ آپ پولیس والوں کی بار بار وردی تبدیل کرنے کے بعد آخر میں انہیں احرام بھی باندھ دیں تو وہ تب بھی نہیں بدلیں گے جب تک کہ اس وردی کے اندر موجود انسان کو تبدیل نہ کیا جائے اور ہمارے موجودہ آئی جی عارف نواز خان جوتہ کو دوبارہ پنجاب پولیس کی سربراہی کا موقعہ مل رہا ہے اور آپ کا تعلق ایک پڑھے لکھے اور شریف گھرانے سے ہے اللہ تعالی نے آپکو پنجاب پولیس کی تقدیر بدلنے کا موقعہ دیا ہے توحقیقی چوروں ،ڈاکوؤں اور لٹیروں کو پکڑنے میں موجودہ حکومت کا ساتھ دیکر قرضوں میں جکڑی ہوئی مظلوم قوم کی تقدیر بدلنے میں آپ اپنا بھی حصہ ڈالیں اپنی ٹیم میں سفارشیوں کی بجائے قوم کا درد دل رکھنے والوں کو ترجیح دیں کیونکہ یہ آپکے پاس بھی آخری موقعہ ہے اور حکمرانوں کے لیے بھی اسکے بعد پھر وہی دلدل ہوگی جہاں ہم گردن تک دھنس چکے ہیں۔

Rohail Akbar

Rohail Akbar

تحریر : روہیل اکبر
03004821200