بھارت (جیوڈیسک) ایک ارب تیس کروڑ آبادی والے ملک بھارت میں 2011ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی تعداد 14.5 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ پارلیمان میں ان کی تعداد محض 3.5 فیصد ہے۔
عام انتخابات کے اس موسم میں یوں تو ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سمیت تمام اہم سیاسی جماعتیں پارلیمان میں زیادہ سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کے لیے مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں تاہم کوئی بھی جماعت، حتٰی کہ مسلمانوں کے ووٹوں پر انحصار کرنے والی علاقائی جماعتیں بھی، پارلیمان میں مسلمانوں کی نمائندگی میں اضافہ کرنے کے تئیں مخلص دکھائی نہیں دیتی ہیں۔
مذکورہ بالا وجوہات کے باعث حالیہ برسوں میں مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی میں مسلسل گراوٹ آئی ہے۔ 543 رکنی پارلیمان کے ایوان زیریں(لوک سبھا) میں اس وقت مسلم قانون سازوں کی تعداد محض 22 یعنی ساڑھے تین فیصد ہے۔ حالانکہ 1980ء میں مسلم ارکان پارلیمان کی تعداد 10 فیصد تھی تاہم بعد میں اس میں گراوٹ آتی گئی اور 1984ء سے 2009ءکے درمیان ان کی تعداد آٹھ سے چھ فیصد کے درمیان ہوگئی۔
مین اسٹریم کی سیاسی جماعتیں بہت کم مسلمانوں کو اپنا امیدوار بناتی ہیں اور اس کے لیے کئی طرح کے دلائل پیش کرتی ہیں۔
اس صورت حال کے حوالے سے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے صدر شعبہ سیاسیات ڈاکٹر پروفیسر افروز عالم نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں گہری تشویش کا اظہار کیا: ’’مسلمانوں کی کم ہوتی سیاسی نمائندگی بھارتی جمہوریت کے لیے بھی نہایت قابل تشویش ہے۔ اس چیلنج کاسامنا کرنے کے لیے سیاسی جماعتوں کو فی الحال دو نکاتی لائحہ عمل پر کام کرنا ہوگا ۔ پہلا یہ کہ انہیں رائے دہندگان سے جوڑنے کا کوئی ایسا طریقہ تلاش کرنا ہوگا جس میں تمام شہریوں کے مفادات کی نمائندگی کی جاسکے اور دوسرا یہ کہ بالخصوص ملک کے 14.5 فیصد مسلم آبادی کے اندر شمولیت کا جمہوری احساس جا گزیں کرنا ہوگا۔ اگر ان چیلنجز کو بروقت حل نہ کیا گیا تو اس بات کا بہت زیادہ خدشہ ہے کہ بھارت کے اقلیتی شہری بے معنی ہوکر رہ جائیں بلکہ ملک کے سیاسی نقشے سے ہی غائب ہوجائیں۔‘‘
ڈاکٹر افروز عالم کا مزید کہنا تھا کہ مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی میں گراوٹ صرف قومی سطح یعنی پارلیمان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ صوبائی اسمبلیوں میں بھی گراوٹ کا یہ رجحان دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کا کہنا تھا، ’’مہاراشٹر، ہریانہ، راجستھان، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور دہلی کی مجموعی طور پر 968 اسمبلی نشستوں کے لیے 2013ء سے 2015ء کے درمیان ہوئے انتخابات کے جائزہ سے پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں کی نمائندگی 35 فیصد سے گھٹ کر محض 20 فیصد رہ گئی ہے۔ 2018ء میں صوبائی اسمبلیوں کے لیے ہوئے انتخابات میں چھتیس گڑھ میں صرف ایک مسلمان، مدھیہ پردیش میں دو، راجستھان اور تلنگانہ میں آٹھ آٹھ مسلمان منتخب ہوئے۔ اتر پردیش اسمبلی میں 2012ء میں مسلمانوں کی نمائندگی 17 فیصد تھی جو2017ء میں گھٹ کر صرف چھ فیصد رہ گئی۔ 20 فیصد مسلم آبادی والے اترپردیش میں 2014ء کے عام انتخابات میں ایک بھی مسلمان امیدوار منتخب نہیں ہوسکا۔‘‘
حکومتی اعدادو شمار کے مطابق بھارت کے مجموعی طور پر 675 اضلاع میں سے 90 میں مسلمانوں کی آبادی 20 فیصد سے زیادہ ہے۔ پچاسی پارلیمانی حلقوں میں مسلمان 20 فیصد سے زیادہ ہیں۔4121 اسمبلی حلقوں میں سے 720 میں مسلمان فیصلہ کن پوزیشن میں ہیں۔ اس کے باوجود پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں میں مسلمانوں کی گرتی ہوئی سیاسی نمائندگی کا بڑا سبب یہ ہے کہ مسلمان متحد ہوکر کسی مسلم امیدوار کو ووٹ نہیں دیتے۔ دوسری طرف مین اسٹریم کی سیاسی جماعتیں بہت کم مسلمانوں کو اپنا امیدوار بناتی ہیں اور اس کے لیے کئی طرح کے دلائل پیش کرتی ہیں۔
مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی میں گراوٹ صرف قومی سطح یعنی پارلیمان تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ صوبائی اسمبلیوں میں بھی گراوٹ کا یہ رجحان دیکھا جاسکتا ہے۔
ماہر سیاسیات پروفیسر افروز عالم کا کہنا ہے، ’’مسلمانوں کو امیدوار بنانے سے جان بوجھ کر انکار کرنا شمولیتی جمہوریت کے وجود کے لیے خطرہ ہوسکتا ہے۔ سیاسی میدان میں مسلمانوں کو نظر انداز کرنا جمہوری بحران کا سبب بن سکتا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ’’مسلمانوں کو ٹکٹ نہیں دینے کے لیے پارٹیاں دو بے بنیاد جواز پیش کرتی ہیں پہلا یہ کہ وہ جیت نہیں سکیں گے اور دوسری یہ کہ رائے دہندگان کی صف بندی ہوجائے گی۔ لیکن یہ دونوں دلائل شہری کی حیثیت سے یکساں حقوق اور نمائندگی کا یکساں موقع فراہم کرنے کے آئینی حق کو جان بوجھ کر نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کی مناسب نمائندگی کے لیے ضروری ہے کہ وہ ملک کی مرکزی یا بڑی جماعتوں کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑیں لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران مین اسٹریم پارٹیاں مسلمانوں کو نظر انداز کرتی رہی ہیں۔ بھارت میں جس طرح ذات پات اور مذہب کے نام پر ووٹوں کی تقسیم ہوتی ہے اسے دیکھتے ہوئے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ آنے والے برسوں میں بھی بھارتی مسلمان اپنے مستقبل کا فیصلہ خود نہیں کرسکیں گے بلکہ پارلیمان اور صوبائی اسمبلیوں میں ان کے سیاسی، سماجی، تعلیمی حتٰی کہ شرعی معاملات میں قانون سازی ملک کی اکثریت کی رائے پر ہی منحصر ہوا کرے گی۔