استاد ایک ایسی ہستی جسے اسلام نے ایک ایسے درجے سے سرفراز کیا ہے کہ انبیا ء کرام کے بعد اس کی تکریم کی کف پا کو چھونا بھی کسی کے بس کی بات نہیں خود آقائے دوجہاں ﷺ کو معلم کائنات بنا کر بھیجا گیا تا کہ آپ ﷺ اس قوم کے اخلاقی اور معاشرتی طور پر بذریعہ تعلیم ہدائت فرما کران کی راہنمائی کریں اور انہیں دنیا میں بسنے کے لئے ایسے زیور سے آراستہ کریں جس سے وہ قوم یکسر نابلد تھی استاد کی عزت و توقیر کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت علی ؑ نے فرمایا کہ جس نے مجھے ایک لفظ بھی پڑھایا وہ میرا استاد ہے گویا کہ میں اس کا غلام ہوا یہ مقام ہے ایک لفظ سے آشنا کرنے والے کی کہ ایک لفظ کی تعلیم کے بدلے وہ ہستی آقا کے درجے پر فائز ہو جاتی ہے اب دیکھتے ہیں کہ ہم نام نہاد مسلمانی کا دعویٰ کرنے والے کیا استاد کو اس کے مرتبے کے مطابق عزت دے رہے ہیں یا نہیں ؟ ہمارے معاشرے میں استاد کی تکریم اب تکذیب کرنے کو گردانا جا رہا ہے۔
مثال کے طور پر ابھی حال ہی میں ۱۵ اپریل کو گورنمنٹ ہائر سیکینڈری سکول فاروق آباد میں جو واقعہ رونما ہوا وہ اس قدر قابل مذمت ہے کہ جس کی انتہا نہیں اس ایک واقعے نے دنیا بھر میں تمام باضمیر پاکستانیوں کے سر شرم سے جھکا دیئے ہیں ہوا کچھ یوں کہ مذکورہ سکول میں بیس سالوں سے پاکستانی مستقبل کی تعمیر کے فرض پر مامور ایک استادطاہر محمود آسی جو ہشتم جماعت میں سائنس کا دورانیہ پڑھا رہے تھے وہ بچوں کو سبق دینے کے بعد اپنی کرسی پر بیٹھے تھے ایک جوتا ان کے پاؤں میں تھا اور دوسرا اترا ہوا تھا کہ سامنے بیٹھے ہوئے ایک طالب علم نے ان سے کہا کہ سر آپ کے جوتے پر مٹی پڑی ہوئی ہے اسے صاف کر دوں جس پر آسی صاحب نے اس کو کہا کہ بیٹا رہنے دو میں خود کر لوں گا بچہ کہنے لگا نہیں سر میں کر دیتا ہوں بچے نے ابھی کپڑا پکڑ کر جوتے کو چھوا ہی تھا کہ یکا یک انکے کمرۂ جماعت میں ایک خاتون داخل ہوئیں جو دراصل ڈسٹرکٹ مانیٹرنگ آفیسر سمیرا عنبرین تھیں مذکورہ استاد طاہر محمود آسی چونکہ انہیں پہلے جانتے نہ تھے جس وجہ سے وہ اس خاتون کے احترام میں کھڑے نہیں ہوئے اس بات پر وہ خاتون اس قدر سیخ پا ہوئیں کہ الحفیظ و الاماں پھٹ سے بولیں کہ تم میرے احترام کھڑے کیوں نہیں ہوئے استاد نے جواب میں کہا کہ محترمہ میں آپ کو جانتا نہیں آپ سے متعارف نہیں آپ اپنا تعارف تو کروائیں کہ آپ ہیں کون اسی اثناء میں ڈی ایم او کی نظر جوتا پر پڑ گئی بس پھر کیا تھا وہ ہو گیا جو نہیں ہونا چاہئے تھا وہ خاتون تو ہتھے سے ہی اکھڑ گئیں کہنے لگیں کہ تم بچوں سے جوتے صاف کرواتے ہو تمہیں شرم نہیں آتی اور اب تک کرسی پہ اکڑ کر بیٹھے ہوئے ہو ذرا شرمندگی محسوس نہیں ہو رہی۔
تجھے یہ کہہ کر زبردستی استاد کے پاؤں سے دوسرا جوتا بھی اتروا لیا اور پھر وہی جوتے استاد کی میز پر رکھ دیئے پھر بڑی رعونت سے کہنے لگیں کہ جی کرتا ہے کہ یہی جوتا اٹھا کر تیرے سر پہ دے ماروں قارئین کرام صرف اس پر ہی اکتفا نہیں کیا اس خاتون نے بلکہ جوتے وہاں سے اٹھا کر اپنے ساتھی ملازم کو حکم دیا کہ اٹھاؤ یہ جوتے اور ساتھ لے چلو اب اس بے شرم ماسٹر کو یہ جوتے ڈپٹی کمشنر آفس سے ہی ملیں گے بیچارہ استاد منتیں کرتا رہا کہ میڈم میں شیخوپورہ سے آتا ہوں کیا میں ننگے پاؤں واپس جاؤں گا بزرگ استاد ڈی ایم او سے التجا ہی کرتا رہا مگر اس راسپوتین خاتون نے ایک نہ سنی اور وہاں سے چلی آئیں اب استاد پا برہنہ اپنے فرائض کی ادائیگی پر مجبور ہو گیا لیکن ساتھ ہی ساتھ اس استاد نے یہ بھی تحیہ کر لیا کہ اب ننگے پاؤں ہی اپنے فرائض انجام دیتا رہوں گا لہٰذا اگلے دن وہ ننگے پاؤں ہی سکول گئے اور تدریسی ذمہ داریاں ادا کیں کیونکہ ڈی ایم او کے ناروا سلوک کے بارے میں ہی رات کو ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی تھی لہٰذا اگلے ہی دن قومی اخبارات میں متاثرہ استاد کی ننگے پاؤں پڑھاتے ہو تصاویر اور خبریں پڑھ کر پنجاب بھر میں ایک تر تھلی سی مچ گئی مشیر وزیر اعلیٰ پنجاب ڈاکٹر شہباز گل نے ڈی سی شیخوپورہ سے تین دن کے اندر اندر اس واقعے کی رپورٹ طلب کر لی یہاں سے اب وہ افسوسناک عمل شروع ہوتا ہے کہ جس کی نظیر ملنا مہذب معاشروں میں ممکن نہیں افسر شاہی نے متاثرہ ماسٹر کے خلاف اور ڈی ایم کے دفاع کے لئے کمر کس لی ۱۹ اپریل کو سی ای او ایجوکیشن افتخار احمد خان فاروق آباد اس واقعے کی انکوائری کے سلسلے میں جاتے ہیں اسی دوران میڈیا کے نمائندے بھی وہاں پہنچ جاتے ہیں۔
اب سی ای او نے انکوائری کچھ اس طرح شروع کی کہ متاثرہ سکول ٹیچر سے ایک جملہ بھی پوچھنا ضروری نہیں سمجھا اور نہ ہی میڈیا کو بچوں سے کچھ پوچھنے کی اجازت دیایک خود ساختہ اور یکطرفہ رپورٹ بنائی تا کہ ڈی ایم او کا کامیاب دفاع کر سکیں متعلقہ ہیڈ ماسٹر لطیف الرحمان اور سی ای او نے بچوں کو سختی سے منع کر رکھا تھا کہ کسی کو کچھ نہیں بتانا تمام اساتذہ کو بھی روک دیا کہ اس بابت آپ نے کوئی بات نہیں کرنی مگر جس کا کوئی نہ ہو اس کا خدا تو ہوتا ہے اسی سکول کے ایک استاد مرزا نثار احمد نے بڑے کھلے اور واضح الفاظ میں بتایا کہ متاثرہ استاد طاہر محمود آسی کے ساتھ واقعی زیادتی ہوئی ہے اور اس خاتون افسر نے ان کی دل کھول کر تکذیب کی ہے اب چونکہ یہ سارا بیان مرزا نثار میڈیا کو سی ای او کے سامنے دے رہا تھا جس پر وہ اسقدر برہم ہوئے کہ جوش جذبات میں انہیں بھی کہہ ڈالا کہ اب تم دیکھنا تمہارے ساتھ کیا ہوتا ہے تم اسی سکول کے باہر ریڑھی لگاؤ گے اور پھر سب نے دیکھا کہ جس استاد کی تذلیل کی انتہا ہوئی اسے معطل کر دیا گیا اور اس کے حق میں حق گوئی کرنے والے مرزا نثار احمد کی جواب طلبی کر لی اور جواب طلبی لیٹر میں بر ملا لکھا کہ تم نے ہماری اجازت کے بغیر میڈیا سے بات کر کے سچ کو آشکار کیوں کیا۔
اس یکطرفہ کارروائی کی بابت جب خبر عام ہوئی تو وزیر تعلیم پنجاب مراد راس ایکشن میں آئے اور انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں یہ بات واضح الفاظ میں لکھی کہ اب اس واقعے کی انکوائری وہ خود کریں گے اور کسی کو بھی استاد کی تذلیل و تکذیب کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ وزیر تعلیم بزرگ استاد کی بلک بلک کر روتے بیان کی ویڈیو دیکھ چکے ہیں اور اس کے حق میں بولنے والے استاد کی بھی اب کچھ امید بندھی ہے کہ پا برہنہ استاد کو شائد انصاف مل جائے دوسری طرف ڈی ایم او سمیرا عنبرین کا کہنا ہے کہ استاد اپنے کمرۂ جماعت میں بچے سے بوٹ پالش کروا رہا تھا اور یہی عبارت معطلی کے لیٹر میں بھی لکھی گئی ہے ۔پہلی بات تو یہ کہ کیا ڈی ایم او نے وہا ں پالش کی ڈبیا اور برش دیکھا اگر دیکھا تو جو تصویر اس نے وائرل کی اس میں وہ کیوں نمایاں نہیں کی گئی ؟کیا اس جرم کی سزا یہ بنتی ہے کہ استاد کے جوتے اتروا کر اسے ننگے پاؤں کر دیا جائے ؟کیا ڈی ایم کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ اس انداز میں استاد کی بے حرمتی کر سکے اگر نہیں تو اسنے اختیارات سے تجاوز کیوں کیا ؟ضلعی انتظامیہ نے ڈی ایم او کے خلاف کوئی ایکشن کیوں نہیں لیا ؟اصل میں بات یہ ہے کہ متاثرہ استاد طاہر محمود آسی کی متعلقہ ہیڈ ماسٹر لطیف الرحمان کے ساتھ لٹیگیشن چل رہی ہے اور اس کا بدلہ لینے کے لئے ڈی ایم او کو ساتھ ملا کر یہ تمام کھیل کھیلا گیا اگر یہ بات نہ ہوتی تو موقع پر ہی ہیڈ ماسٹر ڈی ایم او کو کبھی یہ نہ کہتے کہ میڈم اس کی پہلے بھی انکوائری چل رہی ہے آپ اسے معطل کر دیں۔
میں پہلے بھی یہ گزارش کر چکا ہوں کہ اگر استاد کی غلطی تھی بھی تو اسے طلبہ کے سامنے اس طرح ذلیل و رسوا کرنا کس قانون کے مطابق درست ہے اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ضلعی انتظامیہ بھی افسر شاہی کے ساتھ مل گئی اس نے بھی استاد کے حفظ و مراتب کو فراموش کر دیا ہم لوگ بھی اساتذہ سے ہی کسب فیض لے کر یہاں تک پہنچے ہیں اور قسمیہ یہ بات کہتا ہوں کے استاد کی خدمت کرنا اور انکے کام کرنا ہمارے لئے تو باعث فخر ہوتا تھا اور یہ کوئی اتنا بڑا گناہ بھی نہیں اگر ایک بچے نے استاد کا جوتا صاف کر ہی دیا تو کوئی قیامت نہیں آگئی جسے جرم بنا کر استاد کو ایسی سنگین سزا دی جائے کہ ننگے پاؤں کر دیا جائے اور اسے یہ تک کہا جائے کہ یہی جوتا اٹھا کر تیرے سر پہ دے ماروں استاد کا تو یہ مرتبہ ہے کہ جیسے وہ آقا کے درجے پر فائز ہے جسے عصر حاضر میں ہم نے غلاموں سے بھی بد تر سمجھنا شروع کر دیا ہے ایسا سلوک کرنے کی میرا دین تو غلاموں تک سے اجازت نہیں دیتا پھر پیشہء پیغمبری پہ فائز استاد سے ایسا سلوک وائے افسوس ۔استاد کی تذلیل کرنے پر نا صرف ڈی ایم او بلکہ سی ای او اور متعلقہ ہیڈ ماسٹر کو بھی معطل کر کے ضلع بدر کر دینا قرین انصاف ہو گا۔