جرمنی اور جاپان، وزیراعظم خان کی کم علمی یا پھر زبان پھسل گئی؟

Imran Khan

Imran Khan

اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے حالیہ ایران کے دورے پر ایک تقریب سے تقریر کرتے ہوئے جرمنی اور جاپان کو ہمسایہ ممالک قرار دے دیا، جس کے بعد سوشل میڈیا پر وزیراعظم کی جغرافیائی معلومات پر تبصرے جاری ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے اپنے دو روزہ دورہ ایران کے موقع پر پیر کے روز تہران میں ایک وفد سے ملاقات کے دوران یورپی ملک جرمنی اور ایشیائی ملک جاپان کو ہمسایہ قرار دے دیا تھا۔ اب یہ غلطی تھی یا پھر کم علمی؟ یہ تو وزیراعظم خود ہی بتا سکتے ہیں لیکن وزیراعظم کی تقریر کا ایک ویڈیو کلپ سوشل میڈیا پر ضرور وائرل ہو گیا ہے جس پر سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے تبصرے کیے جا رہے ہیں۔

اس ویڈیو کلپ میں وزیراعظم عمران خان نے تقریب کے شرکا سے مخاطب ہو کر کہا کہ تجارت کی وجہ سے ہمسایہ ممالک کے درمیان اقتصادی تعلقات مضبوط ہوتے ہیں۔ وزیراعظم کے بقول، ’’جرمنی اور جاپان نے لاکھوں شہریوں کو ہلاک کردیا لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد انہوں نے اپنی سرحدوں پر مشترکہ صنعتیں لگانے کا فیصلہ کیا۔‘‘ واضح رہے دوسری عالمی جنگ میں جرمنی اور جاپان ایک دوسرے کے اتحادی تھے اور یہ دونوں ممالک ایک دوسرے سے ہزاروں میل دور واقع ہیں۔

علاوہ ازیں یہ ویڈیو کلپ دیکھ کر یہ اندازہ لگیا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم عمران خان ہمسایہ ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کی وضاحت میں دوسری جنگ عظیم کے بعد جرمنی اور فرانس کے درمیان اقتصادی تعلقات کی مثال دینا چاہتے تھے لیکن شاید ان کی زبان پھسل گئی اور فرانس کی جگہ جاپان کا ذکر کر دیا۔

پاکستان پیپلز پار‌ٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ایک ٹوئیٹ میں اس بات کو باعث شرم قرار دیا۔ انہوں ٹوئیٹ میں لکھا، ’’ہمارے وزیراعظم سمجھتے ہیں کہ جرمنی اور جاپان کی مشترکہ سرحد ہے۔ کتنی شرمناک بات ہے، جب آکسفرڈ یونیورسٹی لوگوں کو صرف کرکٹ کھیلنے پر داخلہ دیگا، تو یہی ہو گا۔‘‘

بلاول بھٹو زرداری کے جواب میں وزیراعظم کے معاون خصوصی افتخار درانی نے ایک ٹوئیٹ میں لکھا کہ، ’’جناب حادثاتی چیئرمین، وزیراعظم نے جاپان کو جرمنی کا ہمسایہ ملک نہیں بلکہ جاپان اور جرمنی کے سرحدی علاقوں میں مشترکہ صنعت کاری کا ذکر کیا ہےجو کہ آپ سمیت دیگر دانشور سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ‘‘

وزیراعظم عمران خان کے ’سلپ آف ٹنگ‘ یعنی زبان کے پھسلنے کے بعد سیاسی مبصرین سمیت سوشل میڈیا کے عام صارفین بھی ان کی جغرافیائی معلومات پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔