اسلام آباد (جیوڈیسک) ترجمان دفتر خارجہ ڈاکٹر محمد فیصل نے دعویٰ کیا ہے کہ حکومت پاکستان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی واپسی کے پہلوؤں کو دیکھ رہی ہے لیکن اطلاعات کے مطابق وہ خود پاکستان نہیں آنا چاہتی ہیں۔
آن لائن برطانوی اخبار دی انڈیپینڈنٹ اردو کو انٹرویو میں ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا تھا کہ اگر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور وزیر اعظم عمران خان کی مستقبل میں ملاقات ہوئی تو عافیہ صدیقی اور شکیل آفریدی کے تبادلے پر بات ہو سکتی ہے تاہم اطلاعات کے مطابق عافیہ خود پاکستان نہیں آنا چاہتیں۔
ڈاکٹر محمد فیصل نے مزید کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اچھی چل رہی ہے اور بھارتی انتخابات کے بعد نئی حکومت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی امید ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کی بات پر ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ کا کہنا ہے کہ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ عافیہ خود پاکستان آنا نہیں چاہتیں تو یہ مکمل طور پر بے بنیاد بات ہے۔
ڈاکٹر فوزیہ نے کہا کہ حکومت کی طرف سے عافیہ کی رہائی سے متعلق مارچ تک خوشخبری کی بات کی گئی تھی لیکن اب پھر خاموشی چھا گئی ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے عافیہ صدیقی کی بہن ڈاکٹر فوزیہ سے ملاقات بھی کی تھی اور انہیں ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کے لیے ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا تھا۔
پاکستان خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی ایک سائنسدان ہیں، جن پر افغانستان میں امریکی فوجیوں پر حملے کا الزام ہے۔
مارچ 2003 میں دہشت گرد تنظیم القاعدہ کے اہم کمانڈر اور نائن الیون حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کی گرفتاری کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں کے ہمراہ کراچی سے لاپتہ ہو گئی تھیں۔
عافیہ صدیقی کی گمشدگی کے معاملے میں نیا موڑ اُس وقت آیا، جب امریکا نے 5 سال بعد یعنی 2008 میں انہیں افغان صوبے غزنی سے گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا۔
عدالتی دستاویزات میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ عافیہ صدیقی کے پاس سے 2 کلو سوڈیم سائینائیڈ، کیمیائی ہتھیاروں کی دستاویزات اور دیگر چیزیں برآمد ہوئی تھیں، جن سے پتہ چلتا تھا کہ وہ امریکی فوجیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہی تھیں۔
عافیہ صدیقی پر مزید الزام ہے کہ امریکی فوجی اور ایف بی آئی افسران نے پوچھ گچھ کی تو انہوں نے مبینہ طور پر ایک رائفل اٹھا کر ان پر فائرنگ کر دی لیکن جوابی فائرنگ میں وہ زخمی ہوگئیں۔
بعدازاں عافیہ صدیقی کو امریکا منتقل کر دیا گیا، ان پر مقدمہ چلا اور 2010 میں ان پر اقدام قتل کی فرد جرم عائد کرنے کے بعد 86 برس قید کی سزا سنا دی گئی۔