لندن (جیوڈیسک) امریکا کی طرف سے ایران سے تیل کی خریداری پر آٹھ ملکوں کو دی گئی مہلت ختم ہونے اور اس میں مزید توسیع نہ کرنے کے فیصلے پر ایرانی قیادت میں شدید اختلافات سامنے آئے ہیں۔ ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے سپاہ پاسداران انقلاب کو امریکا کی طرف غیرملکی دہشت گرد تنظیم قرار دینے اور ایرانی تیل کی برآمدات پر پابندی کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ایران کے خبر رساں ادارے ‘ارنا’ کے مطابق بدھ کو ایک اعلیٰ سطحی وفد سے بات کرتے ہوئے آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا کہ “امریکی دشمنی پرخاموش نہیں رہیں گے بلکہ اسے جواب دیا جائے گا”۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی انتقامی حربوں کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوگا۔ ہم جب تک چاہیں اور جتنا چاہیں تیل برآمد کرتے رہیںگے۔
ایرانی لیڈر کا کہنا تھا کہ امریکیوں کا خیال ہے کہ انہوں نے ہمارے راستے بند کردیے ہیں۔ ایرانی قوم امریکیوں اور اس کے حامیوں کی کھڑی کی گئی ایک ایک رکاوٹ کو توڑتے ہوئے آگے بڑھتے رہیں گے۔
درایں اثناء ایرانی صدر حسن روحانی نے سپریم لیڈر کے موقف سے مختلف موقف اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکا کے ساتھ بات چیت ممکن ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی حکومت دبائو ڈالنے کی پالیسی ترک کرکے تو اس کے ساتھ بات چیت کےلیے تیار ہیں۔
ایرانی صدر اور سپریم لیڈر کے امریکا کے حوالے سے الگ الگ موقف سے واضح ہوتا ہے کہ ایرانی رجیم کی چوٹی کی قیادت میں بھی شدید اختلافات موجود ہیں۔
ایرانی ایوان صدر کی ویب سائیٹ کے مطابق امریکا مذاکرات کی آڑ میں جھوٹ کو فروغ دینے کی ناکام کوشش کررہا ہے۔ اگر امریکا بات چیت میں سنجیدہ ہے تو اسے ایران پر دبائو ڈالنے کی پالیسی ترک کرکے ایران سے معافی مانگنا ہوگی جس کے بعد امریکیوں سے مذاکرات ممکن ہیں۔
مبصرین ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف کے حالیہ دوہ نیویارک کو بھی ایرانی قیادت میں اختلافات کے مترادف قرار دیتے ہیں۔
ایرانی قیادت میں یہ اختلافات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب امریکا نے ایران کی طاقت ور فورس سپاہ پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے ساتھ ساتھ ایران سے تیل کی خریداری پر دی گئی چھوٹ دو مئی سے ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔