غلطی کا سرزد ہو جانا اچنبھے کی بات نہیں تاہم غلط فکر و نظر پر اترانا معیوب ہے۔انسان پر لازم ہے کہ وہ غلطی کے ظاہر ہونے کے بعد اس کی تصحیح و درستگی کے لیے فوری اقدامات کرے۔یہ غلطی فکر و نظر کے کسی بھی قبیل سے ظاہر ہو جائے اس کو ٹھیک کرنے میں ہی بہتری و کامیابی ہے۔ بالخصوص یہ غلطی انسانی تہذیب میں انتشار و فساد پھیلانے سے متعلق ہوکہ منافرت و بغض و عداوت کا باعث ہوتو اس کو جلد سے جلد ختم کرنا لازمی امر ہے۔ تاریخ نے اسی قوم کو تاریخ کے اوراق میں زندہ رکھا ہے جنہوں نے غلطی سے عبرت حاصل کرکے اپنی اصلاح کا انتظام کیا ہے۔
اٹلی کے سکالر لورا مکشا فالیری نے کتاب لکھی ہے جس میں اس نے اسلام کے پاکیزہ محاسن پر کلام کیا ہے۔کتاب کے مقدمہ میں لکھتاہے کہ ہم محمدۖ سے متعلق معلومات کا بین ذخیرہ کی موجودگی میں جی رہے ہیں۔جبکہ درمیانی زمانے میں ان کی سیرت پر بے انتہاء جھوٹ و غلط بیانی کا بازار گرم رہاتھا۔لعنت ہے اس زمانے پر جس میں دین اسلام اور پیغمبر اسلام کی شکل و صورت کو مشکوک و مشتبہ بنانے کا کام کیا گیا۔اس نے یہ بھی لکھا ہے کہ معلوم ہونا چاہیے جن مئورخین نے اسلام سے متعلق قلم کو حرکت دی وہ سب کے سب مسلمان نہیں تھے بلکہ بہت سے مئورخ کا تعلق دوسرے مذاہب سے تھا اور اس وجہ سے انہوں نے تاریخ کو اس انداز سے مرتب کیا کہ جس سے اسلام کی شان و مقام میں کمی واقع ہوجائے۔اسی کا نتیجہ ہے کہ بعد کے زمانے میں ان کی نسلوں کی نسلیں اسلام پر غلط اتہامات و افتراء ات عائد کرتے رہے جس کے سبب لوگوں میں مسلمانوں سے متعلق بدشگونی پیدا ہوگئی جب کہ ان الزامات و اکاذیب کا حقیقت سے تعلق نہ تھا۔
مستشرقین میں سے بہت سے علماء ظاہرہوئے جنہوں نے تاریخ پر کلام کیا جن میں جولد تسیہر،نولدکہ، مویر،کاتانی وغیرہ نے اسلام کا مطالعہ کی بیدارمغزی کے ساتھ۔اس میں شک نہیں کہ بعض نے جانبداری کو قریب نہیں بھٹکنے دیا تو بعض نے اسلام کا مطالعہ اس طرح کیا کہ انہوں نے اسلام کی کراہیت و نفرت کی بنیاد ڈال دی۔اس کے باوجود مستشرقین کے مطالعہ اسلام میں ایسی مثالیں بھی ملتی ہیں جن میں جانبداری کا شائبہ بھی نہیں ہوتا۔بلکہ ان کے مطالعہ کا انداز و اسلوب فطرت کے قوانین کے قریب تر نظر آتاہے۔انہوں نے سمجھا کہ اسلام تو عقل کا احترام کرتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ بہت سے مستشرقین نے اسلام کا باریک بینی سے مطالعہ کیا تو وہ اسلامی تہذیب و ثقافت کے حدی خوان بن گئے اور اسلام کی انسانیت کی نفع مندی کی خدمات کا انکار نہیں کرپائے۔
اس کے برعکس ہم ایک جھلک دیکھاتے ہیں کہ اسپانیا میں اندلس کے مسلمان کے خلاف دشمنی کا کس قدر خوفناک کھیل کھیلا گیا کہ انہیں ان کے شہر سے ناصرف نکالا گیا بلکہ مسلمانوں کا ماورائے قانون قتل عام کیا گیا ۔نام نہاد عقوبت خانے محاکم التفتیش کے نام سے قائم تھے میں مسلمانوں کا خون ناحق بہتارہا۔اسی طرح صقلیہ اور جنوبی فرانس میں مسلمانوں کو دردناک شدائد کا سامنا کرنا پڑا۔یہ سب کشت و خون کا بازار صرف اس لیے گرم رہاکہ مسلمانوں کے خلاف اہل کنیسہ نے دشنام طرازی کا بازار گرم کررکھا تھا۔ نفرت پر مبنی افکار و نظریات کی وجہ سے بعد کے زمانے میں مسلمانوںعیسائی و یہودیوں کی اولادوں نے پہلے سے زیادہ نامناصب و سخت رویہ اختیار کیے رکھا۔ان سب مظالم کے بعد اب دعوت دیتے ہیں کہ مسلمان امن و سلامتی اور رواداری کی طرف لوٹ آئیں۔جب کہ حقیقت حال یہ ہے کہ دوسوسال قبل صلیبی جنگ لڑی گئی ، آٹھ سوسالقبل اندلس و جنوبی فرانس میں مسلمانوں کو ستایا گیا اور پھر عالم اسلام کو انگریز و فرانسیوں نے مل کر باہم بندر بانٹ کردیا۔اس کی وجہ سے دنیا بھر میں لاکھوں مسلمان ذبح کیے گئے ایسے میں کوئی بھی غم کے آنسو پہانے والا نہ تھا۔اب اگر کہیں بھی مسلمان حمیت و غیرت کی وجہ سے یا پریشانی کے سبب کوئی سخت قدم اٹھابیٹھے تو اس کو فوراً دہشت گرد قراردیا جاتاہے۔آج مسلمانوں کو انتہاپسند کہا جاتاہے ۔اس سب کے باوجود مسلمان امن و سلامتی کی بات کرتے ہیں مگر مغرب اور اسلام دشمن سلامتی کے طالب ہی نہیں۔
مسلمان تو فطرتی طورپر امن و سلامتی کو پسند کرتے ہیں ان کے اخلاق اسی بات کی تلقین کرتے ہیں۔مسلمان نہیں چاہتاکہ کسی انسان کا خون کسی بھی انتقام و دشمنی کی صورت میں بہے۔لیکن تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ مسلمان تو امن و سلامتی کا پیمبر ہو جب کہ اس کے برخلاف عقائد و افکار و نظریات کے ایسے مسائل سامنے رکھ دیے جائیں جن کی گتھیا سلجھانے مقصود و مطلوب ہی نہ ہو۔مسلمان دہشت گردنہیں بلکہ اسلام میں دہشت گردی کا مقام جرم کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔مسلمان تو اس بات کے خواہشمند ہیں کہ دنیا میں ایسے معاہدات کیے جائیں جن کی بدولت اسلام دشمنی کا خاتمہ ہو تاکہ بنی نوع انسان کے مابین عداوت کا سلسلہ تھم جائے اور یہ سلسلہ غیض و غضب کا نئی نسل میں کشت و خون کے سیل رواں کی طرح نہ بہتا رہے۔اسی سے دیگر جرائم کی بنابھی اٹھتی ہے۔
مسلمانوں کی تو ریت رہی جب ان کی طاقت کا طوطی بولتا تھا تو اس وقت بھی ان کے پیغمبرۖ نے اپنے ازلی و ابدی جانی دشمنوں کو شکست خوردہ ہو چکے تھے کو مطلق معافی دیکر اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ کیا۔نہ ان دشمنوں کے ساتھ جنگ کی گئی اور نہ ہی ان کو جلاوطن کیا گیا۔مغرب نے تو اسلام کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی کہ وہ اسلام کی حقیقت کو پہچان سکے۔مغرب کے اداروں میں طلبا ء کو اسلام دشمنی کی تعلیم برسرعام دی جاتی ہے اور نفرت دلائی جاتی ہے اسلام سے۔یہ کافی نہیں کہ نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم مسلمانوں کے قتل عام پر معافی مانگ کر بری الذمہ ہوجائے۔بلکہ حقیقی معذرت تو یہ ہے کہ وہ اپنے اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کے دلوں سے اسلام و مسلمانوں کی نفرت کی آبیاری کو ترک کردیں۔
مسلم علماء کی تو یہ خواہش رہی ہے کہ نفرت و کراہیت کی چادر کو وا کردی جائے اور مسلمان و عیسائی اور یہودی ایک چھت کے نیچے امن و سکون سے زندگی بسر کریں۔جیساکہ ماضی میں بھی ہوتارہاہے خلافت اسلامیہ کا سورج جب اقبال مند تھا۔ لیکن مغرب کا معاشرہ مسلمانوں کے ساتھ ہمدردی و رواداری کی زندگی گذارنے پر تیار ہی نہیں۔مسلمان تو غیر مسلم (اہل کتاب )سے شادی کرتے ہیں گویا اسلام اس بات سے نہیں روکتا کہ اہل کتاب کے مابین رشتہ داری قائم ہواور ان کی نسل میں اضافہ ہوتارہے۔ لیکن اس کے برعکس کوئی دوسرا مذہب اس کا روادار نہیں کہ وہ دوسرے کا احترام کرے یا ان کو انصاف دے۔ یا پھر ان سے شادی کو درست سمجھے۔ہم سلامتی کی بات سے قبل باہم الفت و محبت کا درس دیتے ہیں۔ اور دوسروں کے ساتھ بغیر کسی حجاب کے زندگی بسر کرتے ہیں کہ جن ممالک میں اسلام داخل ہوا وہاں پر اس کے دشمن محفوظ ہی نہیں ہوا بلکہ طاقتور بھی ہوگیا۔ آج بھی غیر مسلم مسلمان ملکوں میں امن و سکون کی زندگی بسر کررہے ہیں۔اس لیے ضروری ہے کہ غیر مسلم ممالک کے ارباب اقتدار اپنی فکری و نظریاتی تصورات اور مناھج کو تبدیل کرتے ہوئے اسلام دشمنی کو عمل ترک کردیں ورنہ زبانی معذرت خواہی کا کوئی فائدہ نہیں۔
غلطیاں تو انسانی معاشرے سے سرزد ہوتی ہی ہیں انہی غلطیوں میں سے بڑی یہ ہے کہ مئورخ جانبداری کے ساتھ کسی قوم و مذہب کے خلاف طشنام طرازی کا بزار گرم کیا جاتا رہے۔مغرب کے تاریخ دانوں اور سکالر کی اکثریت نے اس کوتاہ نظری سے کام لیا ہے۔اسلام و مسلمانوں کے خلاف تہذیبی و ثقافتی جنگ مسلط کرکے اسلام و مسلمانوں کو بدنام کررہے ہیں ایسے میں چند مخلص مفکر و دانشور ظاہر ضرور ہوئے جنہوں نے کسی قدر حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسلام و مسلمانوں پر عائد تمام تر متعصبانہ الزامات کو حرف غلط قرار دیا ہے۔