انٹلیکچول پراپرٹی رائٹس کے قوانین کی عملداری کے حقائق

IPO

IPO

تحریر : صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ

ابتدائے آفرینش سے انسان انسان کی خوشحالی کو برداشت کرنے کا روادار نہیں۔ اِسی طرح بین الاقوامی کمپنیوں نے بھی ایک دوسرئے کی مارکیٹ کو ڈسٹرب کرنے لیے مختلف حیلے بپانے تراش رکھے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک اور پسماندہ معیشتوں کے حامل ممالک میں تو ٹریڈ مارک کے قانون پر عمل درآمد نہیں پاتا۔ جس کی وجہ سے حکومت پر بھی دباؤ رہتا ہے اور بین الاقوامی منڈی میں ریاست کی جگ ہنسائی ہوتی ہے۔ پاکستان میں ادویات کتب اور سوفٹ ویر کی مصنوعات میں ٹریڈ مارک کے قانون کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔ٹریڈ مارکس ٹربیونلز کی کارکرردگی پہ سست روی کا الزام بھی حقیقت کا حامل ہے۔جس طرح دو نمبر اشیاء بنانے میں چین کا کوئی چانی نہیں اِسی طرح ہمارئے ہاں لالہ موسی گجرات کا بھی جواب نہیں بلکہ اب تو ہر شہر ہر قصبہ ہی لالہ موسی کے نقش قدم پر ہے۔ میرا تعلق شعبہ قانون سے ہے۔ اور عدالتوں میں بطور وکیل پیش ہوتا رہتا ہوں۔ ملک میں وٹامنز کے فوڈ سیپلیمنٹ کے نام پر داکٹروں نے لوٹ مار شروع کر رکھی ہے۔ اور پریشان حال مریضوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ اِس نام نہاد فود سپیلمینٹ کو بطور دوائی فروخت کیا جاتا ہے اور حکومت کے سامنے اُسے بطور فوڈ سپلیمینٹ گردانا جاتا ہے۔ بلند فشارخون اور ذیابیطس کی ماری قوم کو فوڈ سپیلیمنٹ کے نام پر انٹرنیشنل برانڈز کے سے انداز میں پیکینگ سے عوام کو دھوکا دیا جارہا ہے۔ پاکستان میں میڈیا کی آزادی کے باوجود جس طرح قانون کی بالادستی کا جنازہ نکلا ہے۔ اُس پر صرف افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان میں انسانیت کی حرمت کا جنازہ اِس طرح نکلا ہے کہ شیطان بھی توبہ تو بہ کر رہا ہوگا کہ حضرت انسان کو اتنا لالچ کیوں کر۔ ہر شے میں دو نمبری ہر شے میں دھوکہ۔ اِسی وجہ سے تو انسان کا خون بھی سفید ہوچکا ہے۔ اِس بات سے انکار ممکن نہیں کہ عالمی معیشت اِس وقت شدید دباؤ میں ہے۔ امریکہ جیسا ملک اپنے مالیاتی اداروں کو بند کرنے پر مجبور ہو رہا ہے چین کا عالمی معیشت میں بڑھتا ہو بھر پور کردار معاشی طاقت کے توازن میں اب اِس کا پلڑا بھاڑی دیکھائی دیتا ہے۔ عالمی طاقتوں کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ معیشت کو قوانین کے تحت چلایا جائے۔ ترقی پزیر ممالک میں چونکہ بے روزگاری عروج پر ہے۔ خاص طور پر پاکستان ہمارا ملک بیروزگاری کے شدید بحران کا شکار ہے۔ اصل کی نقل تیار کرکے فروخت کرنے کے رجحان کو اصولی طور پرکسی ملک کی بھی آشیر باد حاصل نہیں ہوتی لیکن پھر بھی خاص طور پر ہمارے ملک میں کمپیوٹر کے پارٹس آٹو پارٹس،میڈیکل کے اوزار۔ میڈیکل، لائ، انجینئر نگ کے شعبہ جات کی کتابوں کی پائریسی کی شکایت عام ہے۔ لیکن جب سے IPO پاکستان کی تشکیل ِ نو کی گئی ہے اب چھوٹے کاروبار کے حامل افراد بھی اپنی فرم کے نام کو بطور ٹریڈ مارک رجسٹرڈ کرواتے ہیں بلکہ اپنی مصنوعات کے نام کو بھی ٹریڈ مارک اور کاپی رائٹس کے طو ر پر رجسٹرڈ کرواتے ہیں۔ یہ رویہ خوش آئین ہے کہ پاکستانی معیشت میں نفوذ پزیر چھوٹے اور بڑے کاروبار کے حامل سرمایہ کار IPO کے حوا لے سے کافی حد تک شعور کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔

اِس سے ملکی معیشت کے ساتھ ساتھ عالمی طور پر بھی پاکستانی معیشت کے حوالے جو پیغام جاتا ہے وہ پاکستان کے سافٹ امیج میں اضافہ کا سبب ہے۔ IPO کے پاکستان بھر میں دفاتر خدمات انجام دے ر ہے ہیں۔ اِس حو الے سے فرنٹ ڈیسک پر موجود عملے کا لوگوں سے اچھے انداز میں ڈیل کرنا اور اْن کی رہنمائی کرنا بہت ضروری ہے۔ راقم خود ایک طالب علم ہے اس لیے ذیل میں پاکستان میں آئی پی او کے افعال اور ڈھانچے پر روشنی ڈالی گی ہے تاکہ عام لوگ، کاروباری افراد اور قانون کے طالبعلم اس سے آگاہی پا سکیں۔ انٹلیکچول پراپرٹی (IPO) موجودہ مسابقت کے دور مین مقابلے کی مارکیٹ اکانومی میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔ معاشی افزائش میں مسلسل ترقی کا گراف ہائی ٹیک اور ذہنی اختراع کا مرہون منت ہے۔ انٹلیکچول پراپرٹی کا موجودہ نظریہ ا س وقت فروغ پزیر ہے کیونکہ اِسی کی بناء پر ٹیکنالوجی اِس قابل ہوتی ہے کہ وہ نئی ایجاد ات و اِختراعات کر سکے۔ اِسی ضرورت کے پیش نظر پاکستان میں انٹلیکچول پراپرٹی کو قومی دھا رے میں 2005 میں لایا گیا۔ حکومت کا IP کے قیام کا فیصلہ درحقیقت اداروں میں پائی جانے والی کمزوریوں کا محاسبہ کرنا تھا۔

اِسی بناء پر IP کے قانون کے تحفظ کے لیے پاکستان کسٹم اور ایف آئی اے کو اختیارات سونپے گئے۔ 2005 سے پہلے IPO کی صورتحال بین الاقوامی تناظر کے حوالے سے فرسودگی کی طرف گامزن تھی۔ پاکستان کے اوپر یہ الزام لگایا جا رہا تھا کہ پاکستان جعلی ڈسکس دنیا کے کئی ممالک کو برآمد کر رہا ہے۔ IPO کی پاکستان کے اندر کمزوریاں بھی ظاہر تھیں کیونکہ (١)۔ پاکستان کی معیشت افزائش و نمو کی طرف گامزن تھی۔ (٢) سرمایہ کاری میں اضافے ا ور سرمایہ کاری میں کشش لانے کے لیے ماحول کو سرمایہ کاری سے ہم آ ہنگ بنانا ضروری تھا۔ (٣)۔ پاکستان کی پراڈکٹ کو عالمی سطح پر برآمد کے لیے منظم حکمت عملی کی اہمیت۔ (٤)۔ عالمی معیشیت کے ساتھ تیزی سے ہم آہنگی۔(٥)۔ پاکستان میں فروغ پزیر حقیقی کاروبار۔ (٦)۔ قیمت اور میعار کی بابت صارف کے مفادات کا خیال رکھنا۔ پورے ملک کے کا رو بار کا خیال رکھنا۔ (٧)۔ پورے ملک کے کاروبار کے IMAGE کو بہتر بنانا۔ صورتحال کی بہتری کے لیے تین متوازی متوازی اقدامات: صورتحال کی بہتری کے لیے حکومت پاکستان نے IPO کے مسائل کے حل کے لیے 8 اپریل 2005کو تین متوازی اقدامات اٹھا ئے۔ (١)۔ IPOپاکستان کو قائم کیا کہ یہ ادارہ انٹلیکچول پراپرٹی کے معاملات کو MANAGE کرے گا اور اْس کے قوانین کے لیے دوسرے اداروں سے باہم رابطہ رکھے گا۔ (٢)۔ ایف آئی اے جو کہ وفاقی حکومت کا انوسٹی گیشن ادارہ ہے اور وائٹ کالر جرائم کے روک تھام میں مدد کرتا ہے، کو جعل سازی رو کنے کے بابت ٹریڈ مارک، کاپی رائٹ، پیٹینٹس کے اختیارات تفویض کردیئے گئے۔ (٣)۔ پاکستان کسٹم کو پائریٹڈ آپٹیکل ڈسکس کی امپورٹ اور ایکسپورٹ کے لیے مستعد کیا گیا۔ معاون اقدامات: حکومت پاکستان نے مندرجہ بالا متوازی اقدامات کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل مزید اقدامات بھی کیے۔ (١)۔ وزیر اعظم پاکستان نے اِس نئے ادارے IPO کو براہ راست اپنی نگرانی میں رکھا بجائے اِس کے کہ ماضی کی طرح ٹریڈ مارک رجسٹری، کاپی رائٹس آفس،پیٹینٹس آفس، وزارت پیداوار، وزارت کامرس اور وزارت تعلیم کے تحت تھے۔ (٢)۔ پرائیویٹ شعبے کو فعال انداز میں IPO کے انتظامی ڈھانچے میں پبلک، پرائیویٹ شراکت کے تحت شامل کیا گیا اور IPO کی چئیرمین شپ بھی پرائیویٹ ادارے کو سونپ دی گئی۔ (٣)۔ وزیراعظم پاکستا ن نے IPO کی تشکیل کے فورا بعد IPO کے چیئرمین اور ڈائریکٹر جنرل سے ملاقات کی اور IPO کی کارکردگی کے حوالے سے بھر پور اپنی مکمل سیاسی آشیر باد دی کہ اِس اِدارے کو صحیح معنوں میں قومی ادارے کے طور پر ابھارا جائے گا۔ (٤)۔ یہ نیا ادارہ مکمل طور پر خود مختار IP فنڈ پر مشتمل ہے۔ جس میں ((1 IP رجسٹریز کی طرف سے وصول ہونے والی فیس۔ (ـ(2حکومتی گرانٹ ـ(3) غیر ملکی گرانٹ اور ڈونیشن شامل ہیں۔ (٥)۔ ڈائریکٹر جنرل آئی پی او پاکستان کے عہدے کو اپ گریڈ کرکے فیڈرل سیکرٹری کے برابر کر دیا گیا جو کہ سول ایڈمنسٹریشن میں اعلی ترین رینک ہے۔ (٦)۔ اس ادارے کو 2004 کے مقابلے میں 2005 کافی رقم دی گئی جو کہ 2004میں 22 ملین روپے کی تھی لیکن 2005 میں 113 روپے کر دیے گئے۔ گورننس کا ڈھانچہ:IPO کا پالیسی ساز بورڈ پبلک پرائیویٹ شراکت داری کا مظہر ہے۔

قومی مفاد میں اِس اِدارے میں پرائیویٹ اور پبلک ایڈمنسٹریشن کو اکھٹا کر دیا گیا۔ ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن IPOکے کام سے متعلقہ وزارتوں کے چھ فیڈرل سیکرٹری حکومت کی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ گیارہ ممبران جن میں چیئرمین بھی شامل ہوتا ہے اِن کا تعلق قومی و بین الاقوامی کمپنیوں کے ایگزیکٹیو زسے ہوتا ہے۔ یہ پرائیویٹ اِداروں کے نمائندے ہوتے ہیں۔ پالیسی بورڈ کا چیئرمین کا تعلق نجی شعبہ سے ہوتا ہے۔ اور یہ انتہائی پیشہ وارانہ تجربے کا حامل شخص ہوتا ہے۔ ڈائریکٹر جنرل IPO پاکستان کا چیف ایگزیکٹیو آفیسر ہوتا ہے۔ اور IPO کے پالیسی بورڈ کا سیکرٹری بھی ہوتا ہے۔ 22 و یں سکیل کا سیکرٹری بھی ہوتا ہے جو کہ سول سروس میں سب سے بڑا عہدہ ہے۔ پس ھکومت پاکستان نے IPO پاکستان کی تشکیل میں اپنے بہترین افرادی قوت فراہم کی ہے۔ IPO کے اقدامات: IPO کی نئی تشکیل شدہ تنظیم نے ادارتی ڈھانچے کو اپ گریڈ کرنے کے لیے کئی ادارتی انتظامی اور فنکشنل اقدامات کیے ہیں۔

خدمات کی انجام دہی کرنے والوں کے لیے ترغیبات، ملازمین کے لیے بہتر تنخواہ کا پیکج متعارف کروایا تا کہIPO کی پاکستان میں ازسر نو تعمیر کی جا سکے۔ IPO پاکستان نے اپنے قوانین پر عمل درآمد کے لیے نہ صرف حکومتی سطح پر بہتر روابط استوار کیے بلکہ پرائیویٹ شعبے کی ایجنسیوں کی خدمات بھی IPO کی خلاف ورزی کرنے والوں کا پتہ چلانے کے لیے حاصل کی گئیں۔ نجی اور حکومتی شعبہ جات کا یہ باہمی تعاون بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ جیسے ہی یہ باہمی کاوش اپنے مقصد کے حصول کے لیے مجتمع ہو کر نکالیں گی تو ملک میں با اثر پائریسی کو موثر انداز میں کنٹرول کیا جا سکے گا۔ vision: IPO پاکستان نے اپنے لیے یہ ویژن سیٹ کیا ہوا ہے کہ پاکستان کو دنیا کے IP کے نقشے پر اِس طرح اْبھارئے کے یہ ملک ذمہ دار ہے۔ اْور اِنٹلیکچول پرارپرٹی رائٹس کا نگہبان ہے۔:Mission IPO پاکستان کا یہ مشن ہے کہ IP کے ڈھانچے کو مظبوط اور اپ گریڈ کرنا، عوامی شعور کو بیدار کرنا اور IPO بیسڈ قوم ہونے کے ناطے اِس حوالے سے قوانین کے اطلاق کو یقینی بنانا ہے۔ Core Objectives;٭ IPO کی تنظیم سازی کو متحرک و منظم کرنا۔ ٭ خدمات کی فراہمی کو بہتر کرنا۔٭ عوامی شعور کو بیدار کرنا۔٭ IPO کے قوانین کے عملی نفاذ کے لیے مختلف ادارہ جات سے رابطہ کار بڑھانا۔ابتدائی ترجیحات: نئی تنظیم ہونے کے ناطے سے IPOپاکستان کی بنیادی ترجیحات یہ ہیں کہ (١)۔ اپنے ماضی سے جڑے ہوئے تجربات کو صحیح کرتے ہوئے اْن سے فائدہ اْٹھانا (٢)۔ نئی تنظیم کو ہر حوالے سے مظبوط کرنا (٣)۔ پیشہ وارانہ خدمات انجام دے کر خود کو انتہائی پیشہ وارانہ تنظیم منوانا۔ قوانین کو قابل نفاذ بناکر اہم ترجیحات کا حصول:بہت تھوڑئے سے وقت میں اپریل 2005 سے نئی تنطیم اسلام آبادمیں اپنا ہیڈ کواٹر قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ ٹریڈ مارک رجسٹری کو کمپیو ٹرائزڈ ماحول میں لایا گیا۔

پیٹینٹس کے دفتر اور آئی پی او کے ہیڈ کواٹر کے لیے پر کشش تنخواہوں پر نیا عملہ تعینات کیا گیا۔ اور آ ئی پی او کی لاہور رجسٹری میں ایک عمارت میں سارے کام کے مقاصد کو حاصل کرلیا گیا۔ اِس طرح پورے ملک میں IPO نے اپنے کام کے حوالے سے پورے ملک میں آگاہی مہم شروع کی۔ تاہم مندرجہ ذیل معاملات میں IPO نے کامیابی کے زینے خصوصی طور پر طے کیے۔ (ـ(1 آئی پی او کے قیام کے پہلے ہی ماہ ایف آئی اے نے ملک بھر میں پائریسی میں ملوث اداروں و افراد کے خلا ف کریک ڈاؤن کیا۔ جو اِس بات کی غمازی کرتا تھا۔ کہ حکومت آئی پی کے معاملات میں سنجیدہ ہے۔ (ـ(2 پاکستان کسٹم نے پاکستان کے اہم بین الاقوامی ہوائی اڈوں پر اینٹی پائریسی سیل قائم کیے تاکہ حکومت کی اینٹی پائریسی پالیسی قابل کو عمل بنایا جا سکے۔ (ـ(3 جب ایف آئی اے اور پاکستان کسٹم پا ئریسی کی رسد کی سائیڈ کو کنٹرول کرنے میں مصروف تھی تو اْس وقت IPO نے پائریٹیڈ ڈسک کے حوالے سے اِس کی طلب کو کنٹرول کرنے کے لیے قابل عمل اقدامات کیے۔

ابتدائی کامیابیاں:مندرجہ بالا اقدامات کی بدولت IPO نے اندرونی اور بیرونی طور پر کافی حد تک ابتدائی کامیابیاں حاصل کیں۔ اندرونی طور پر جو پائریسی کا بنیادی ڈھانچہ جو کہ قائم تھا اْس کا خاتمہ کیا مالکان اور اہل کاروں کو عدالتی کٹہرے میں لایا گیا۔ امریکہ نے پاکستانی حکومت کے پائر یسی کے حوالے اقدامات کو سب سے پہلے سراہا اور مندرجہ ذیل اقدامات کیے۔ ـ(A) GSP کی کنسیشن کے حوالے سے امریکہ کی بین الاقوامی انٹلیکچول پراپرٹی کی بابت ایک چار سالہ پٹیشن کو ختم کردیا۔ (ـ(B امریکی حکومت نے پاکستان کو ترجیحی واچ لسٹ سے نکال دیا۔ ـ(C) امریکی کامرس ڈیپارٹمنٹ نے پاکستان کے IP کے انفراسٹرکچر کو اپ گریڈ کرنے کے لیے کمرشل لاء کے ترقیاتی پروگرام کے تحت پاکستان کو پیش کش کی۔ ـ(D) IP فرینڈ لی مما لک نے IPO پاکستان کے ساتھ لمبے عرصے کی شراکت داری میں دلچسپی ظاہر کی۔ ـ(E) WIPO ااور یورپین یونین نے IPO پاکستان کی بھر پور مدد کی۔ بیرونی طور پر ملنے والا ریسپانس IPO پاکستان کے لیے قابل اطمینان ہے۔ اِس طرح IPO پاکستان بین الاقوامی دھارے میں شامل ہونے والا ادارہ بن گیا ہے۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف فوٹوگرافک انڈسٹری (IFPI) اور یو کے بیسڈ انٹرنیشنل واچ ڈاگ آف گلوبل پائریسی نے پاکستان سے پا ئر یٹیڈ آپٹیکل ڈسک کی بر آمد کے مکمل خاتمے کا سرٹیفیکیٹ جاری کردیا۔مندرجہ بالا بیان کرداہ قانون کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کرنے کا مقصد یہ ہی ہے کہ اِس قانون کو اُس کی روح کے مطابق رائج کیا جائے۔

Ashraf Asmi Advocate

Ashraf Asmi Advocate

تحریر : صاحبزادہ میاں محمد اشرف عاصمی ایڈووکیٹ ہائی کورٹ