23 جون 2016 کو ہونے والے برطانوی ریفرنڈم میں برطانویوں کی اکثریت نے یورپ سے علحیدگی کے حق میں ووٹ دیا،جس کی عام طور پر توقع نہیں کی جا رہی تھی، 48 فیصد نے یورپین یونین کیساتھ رہنے جبکہ 52 فیصد نے علیحدگی کے حق میں ووٹ دیا،جس سے برطانیہ میں جنگ عظیم دوم کے بعد سب سے بڑ اسیاسی بحران پیدا ہوا۔حکمران جماعت ٹوری کو پارلیمنٹ سے مسلسل شکست کا سامنا کرنا پڑا،اور یورپی یونین سے علحیدگی کے لئے بل منظور نہیں کرا سکی، عوامی رائے کی اکثریت کو مسلسل پارلیمنٹ میں شکست سے دوچار ہونا پڑا۔عوامی رائے اور پارلیمنٹ کے مابین فکری تضاد کی بہت سی وجوہات ہیں ،جو عام طور پر انتخابات میں نظر نہیں آتی،ایک تو عوامی رائے کی حسب روائیت توثیق جمہوری اقدار کا حصہ ہے،اور برطانیہ اس سلسلے میں جمہوری روایات کا امین چلا آرہا ہے،مگر اس تضاد میں عوامی رائے اور زمینی حقائق،اعداد وشمار اور علمی تصدیقات دو مختلف زاویے ابھر کر سامنے اائے،عوامی رائے کچھ مسائل اور کچھ پروپیگنڈے کی پیداوار تھی،جبکہ پارلیمان کا فیصلہ علمی و معاشی اعداد وشمار وصداقتوں پر مبنی تھا۔عوامی فیصلہ تعصب و جذبات کا آئینہ دار تھا اور پارلیمان حقائق کو دیکھ رہی تھی،مروجہ جمہوری روایات کے پیش نظر بریکزٹ کے اکثریتی ووٹ کی پارلیمنٹ سے منظوری ہو جانی چائیے تھی،مگر نہیں ہو سکی،اس بناپر تجربی بنیادوں پر مترشح ہوا کہ جمہوریت ایک بہترین طرز حکومت ہونے کے با وجود بھی ا پنے اندر بہت سے تضادات رکھتی ہے،اور اس کو علمی تصدیق کا درجہ نہیں دیا جا سکتا، عوام نے ہی عوامی رائے کے ذریعے حکومت کرنی ہوتی ہے،مگر عوامی رائے میں ہمیشہ نقص،غیر علمی پن،دانش و فراست کی کمی کا پہلو بھی موجود رہتا ہے،جس کا ازالہ پارلیمان کرتی ہے،اگر عوامی نمائندے بھی اس معیار پر پورا نہ اترتے ہوں تو باقی اداروں کی بلواسطہ مداخلت کا امکا ن بھی بڑھ جاتا ہے، ]جیسا پاکستان میں سا بقہ جمہوری حکومتیں تسلی بخش کار کردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکی اور کنٹرولڈ جمہوریت کی بحث چل رہی ہے۔ [یہ کسی بھی سماج کی اجتماعی ترقی پر منحصر ہوتا ہے۔ اور بالخصوص برطانیہ جیسے جمہوری روایات کے حامل ملک میں ایسے تضاد کا ابھرنا جمہوریت کی کاملیت پر بہت سے سوالیہ نشان چھوڑتا ہے،جمہور اور ماہرین کی آرا میں ہمیشہ فرق قائم رہتا ہے۔مگر ترقی یافتہ ممالک میں ہنگامی عوامی رائے میں کسی بھی قسم کی کمی وبیشی کی پارلیمان تلافی کر دیتا ہے،کیونکہ پارلیمان ایک مستند قومی و ملکی مفاد کی ترجمانی کرنے والا ادارہ ہوتا ہے،جبکہ بریکزٹ جیسے مخصوس عوامی فیصلے میں روائیت سے ہٹ کر بہت سی قانونی پچیدگیاں پیدا ہوئی ہیں،جس کا حل پارلیمان کے پاس بھی نہیں ہوتا۔جیسے عوام نے بریکزٹ کے حق میں ووٹ دے دیا جبکہ پارلیمنٹ کی اکثریت یور پین یونین میں رہنا چاہتی ہے اور اسی میں ملک کی بہتری دیکھتی ہے۔ اسی بارے میں اقبال نے کہا تھا۔جمہوریت ایک طرز حکومت ہے،جسمیں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔جبکہ برطانوی پارلیمنٹ نے عوامی رائے کو تولنا شروع کر دیا ہے جس کی وجہ سے ایک سیاسی بحران نے جنم لیا ہے۔
برطانوی سرمایہ داری کا انحصار یورپین یونین کیساتھ رہنے میں ہی ہے۔برطانیہ کے یورپ سے نہ صرف صدیوں سے تجارتی تعلقات ہیں،بلکہ تہذیبی وثقافتی بندھنوں میں بھی بندھے ہوئے ہیں،عیسائیت،سوشل ڈیمو کریسی،سوشلزم اور دیگرعلمی و سائنسی نظریات نے برطانیہ سمیت دیگر یورپی ممالک پر ایک جیسے اثرات مرتب کئے ہیں،جسے ایک صنعتی تہذیب پروان چڑھی ہے۔انکی اقدار ایک جیسی ہیں۔موسم ومزاج میں تفاوت نہیں،برطانیہ کے بر عکس یورپ سیاسی انقلابی تحریکوں سے زیادہ متاثر ہوا ہے اسی لئے ان پر سوشلزم کی گہری چھاپ ہے،جبکہ برطانیہ ایک فلاحی ریاست ہونے کے با وجود سرمایہ دارانہ مزاج کا حامل ملک بھی ہے اسی بناپر اس کا ہمیشہ زیادہ تر جھکائو امریکہ کی طرف رہا ہے،مگر یورپ نے اسکو ہمیشہ ہر معاملہ میں خوش آمدید کہا ہے۔یورپی یونین سے اس کا سیمی ڈیٹیچڈ اتحاد اس کے لئے فائدہ مند بھی رہا اور اپنی الگ قومی شناخت و اجارہ داری میں معاون بھی رہا۔برطانیہ کی بقا کراس چینل تجارت میں قائم رہی۔جب یہ دنیا کی بہت بڑی استعماری طاقت تھی تو بغیر محصولات کے تجارت سے فائدہ اٹھاتا رہا،مگر سوشلسٹ انقلاب کے بعد یورپ سے اس کی تجارت پہلے سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر گئی۔
اسکی بڑی وجہ برطانیہ عظمیٰ کا سکڑنا تھا۔یورپی یونین سے الگ ہونے کی کو ششیں بھی ہوتی رہیں،مگر مصلحت ہر جگہ آڑے آئی۔1980 میں جب برطانوی صنعت تباہی کے دہانے پر پہنچی تو اس کو سنبھالا دینے میں مارگریٹ تھیچر نے یورپ کیساتھ مزید تجارتی تعلقات استوار کئے اور معیشت کو سنبھالا دیا،اور یورپی یونین کیساتھ جڑے رہنے میں ہی اپنی عافیت جانی۔برٹش سرمایہ داری کے لئے نہ صرف یورپ سے تجارت ضروری تھی،بلکہ انڈسٹری کو چلانے کے لئے تارکین وطنوں کی برطانیہ آمد بھی لازمی تھی جو مسلسل پوری ہوتی رہی۔1999 میں برطانیہ نے یورپی کرنسی یورو نہ اپنا کر پونڈ کو قائم رکھا جس سے پونڈ کی قدر میں اضافہ ہی ہوتا رہا اور اپنی شناخت بھی قائم رہی۔مگر اس ساری صرتحال کے با وجود برطانیہ کا سب سے بڑا مسئلہ یورپ سے تجارت کا ہے جو محصولات کے بغیر قائم ہے،کیونکی برطانیہ ابھی تک پورپی یونین کا ممبر رہا ہے،برطانیہ کی ساٹھ فیصد بر آمدات یورپ میں ہوتی ہیں۔تین ملین نوکریاں ان بر آمدات سے منسلک ہیں،برطانیہ کا ہر ہاوس ہولڈ سال میں تین ہزار پونڈ کا اس سے فائدہ اٹھاتا ہے۔اس کے بر عکس روزانہ بر طانیہ یورپ سے ہر دن چھیاسٹھ ملین پونڈ کی سرمایہ کاری حاصل کرتا ہے۔۔نیدر لینڈ کی بندرگاہ روٹرڈم سے اشیاخوردو نوش اور دیگر سامان کی 3400 لاریاں روزانہ سامان برطانیہ لاتی ہیں،جو چون ملین ٹن کا سامان بنتا ہے۔
آئرلینڈ کی برطانیہ میں بر آمدات اپنے جی ڈی پی کا پندرہ فیصد ہیں،بلجئم اور نیدر لینڈ کی بالترتیب بر آمدات دس فیصد ہیں۔نیدر لینڈ کی کل برطانیہ میں سرمایہ کاری اپنی ملکی آمدنی کا اسی فیصد ہے جو یورپ میں سب سے زیادہ ہے۔اور امیگریشن بھی ان ہی ممالک میں سے ہی سب سے زیادہ ہوتی ہے،جرمنی کی کار انڈسٹری کی پندرہ ہزار ملازمتیں برطانیہ سے منسلک ہیں،جو اس کے قومی آمدنی کا ایک فیصد ہے۔اسپین بینکنگ،ٹیلی کام اورانشورنس کے حوالے سے برطانیہ سے منسلک ہے۔برطانیہ دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے،جو اٹھاریں صدی میں اپنے صنعتی انقلاب کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت تھی،دنیا کی کل اوسط پیداوار وتجارت میں اس کا تناسب دس فیصد تھا جوبعد ازاں امریکہ و جرمنی میں صنعتی ترقی اور جنگ عظیم اول اور دوم کیوجہ سے گھٹ گیا،اب بھی اسکی معیشت یورپ کی کل معیشت کا چھ فیصد ہے۔لندن دنیا کا بڑا فناشل حب ہے،جو دنیا بھر سے ملک کے لئے ریونیو حاصل کر رہا ہے،1885 بلین پونڈ کی براہ راست کمپنیوں کی یہاںسرمایہ کاری ہے،جو امریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر ہے فناشل سیکٹر پر اسکی کافی معیشت کا انحصار ہے،مگر یورپی یونین سے علحیدگی کی صورت میں برطانیہ کے تمام سیکٹر شدید متاثر ہوں گئے،بیرونی سرمایہ کاری متاثر ہو گی،سرمایہ بیرونی ممالک میں منتقل ہو جائے گا،بڑی اور چھوٹی ملازمتیں ختم ہوں گی۔ریونیو پیں کمی واقع ہو گی،بیروزگاری پھیلے گی،کیونکہ برطانیہ ایک مضبوط معاشی قوت ہونے کے باوجود بیرونی سرمایہ کاری،اور بالخصوص یورپی ممالک کیساتھ تجارت پر انحصار کرتا ہے۔
بعض ماہرین کا خیال ہے یورپی یونین سے علیحیدگی کی شروعات میں ہی برطانیہ سے ایک سو ارب پونڈ کا سرمایہ بیرونی ممالک میں منتقل ہو جائے گا،اس سلسلے میں بعض کمپنیوں نے اپنے دفاتر دوسرے ممالک میں پہلے سے ہی منتقل کر دیے ہیں،اور بعض یورپی یونیں سے ڈیل کا انتظار کر رہی ہیں،تیس اکتوبر تک برطانیہ کو مزید ڈیل کرنے یا الگ ہونے کا وقت مل چکا ہے۔سب سے بڑا مسئلہ کسٹم یونین اور آئرلینڈ کے بیک سٹاپ کا ہے جو تجارت کی راہداری اور روح ہے،مگر بریکزٹ کیصورت میں برطانیہ کو کسی بھی قسم کی رعایت ملنے کے امکانات نہیں،جسے بر طانوی بر آمدات اور در آمدات پر نئے ٹیکس لاگو ہو جائیں گے۔یورپی یونیں سے نیا تجارتی معائدہ نہ ہونے کیصورت میں ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے قوانین کا اطلاق ہو جائے گا،جسے صنعتی اشیا بالخصوس کاروں پر دس فیصد اور اشیائے خورد ونوش پر پینتیس فیصد ڈیوٹی عائد ہو گی۔سالانہ برطانیہ کی پر تعیش اشیا کی بر آمدات کی مد میں اس کو سات ارب پونڈ کا نقصان ہو گا۔کار انڈسٹری تو پہلے ہی بیٹھ چکی ہے۔
نسان نے اپنا دفتر وپلانٹ بند کر دیا ہے جسے 6700 ملازمتیں ختم ہو گئی ہیں ابھی ہنڈا کمپنی اپنے پلانٹ بند کرنے کا سوچ رہی ہے۔بینک آف انگلینڈ کی رپورٹ کے مطابق جو دوسالوں میں ماہرین نے تیار کی ہے کے مطابق یورپی یونین سے الگ ہونے کی صورت میں جی ڈی پی آٹھ فیصد گرے گا۔بیروزگاری کی موجودہ شرح چار فیصد سے بڑھکر ساڑے سات فیصد تک چلی جائے گی۔افراط زر کی موجودہ شرح دو فیصد سے بڑھکر چھ فیصد ہو جائے گی۔اسی طرح سود کی حالیہ شرح0.7 سے بڑھکر ساڑھے چھ فیصد ہو جائے گی۔ہاوسنگ صنعت جو سالانہ ملکی معیشت میں94بلین کا حصہ ڈالتی اور ایک ملین روزگار فراہم کرتی ہے سب سے زیادہ متاثر ہو گی۔مکانات کی قیمتیں تیس فیصد تک گرنے کا امکان ہے جو حالیہ بے یقینی کیوجہ سے پہلے ہی دس فیصد گر چکی ہیں۔یورپ سے تجارتی معائدہ نہ ہونے کی صورت میں ایسی معاشی مندی ہوگی جو گریٹ ڈیپریشن 1930 کی طرح ہو گی۔سالانہ ایک گھر کا اوسط خرچہ تین ہزار پونڈ بڑھ جائے گا جو ریلیف کی صورت میں یورپی یونین سے حاصل ہوتا تھاجسے اشیائے خورد ونوش مہنگی ہو جائیں گی۔مکانات کی قسطوں کی ادائیگی بہت حد تک بڑھ جائے گی۔،سالانہ شرح آمدنی مسلسل گھٹتی جائے گی۔سالانہ اوسط آمدنی دس فیصد تک گھٹ جائے گی۔ معاشی مندی کا یہ دورانیہ تیس سالوں پر محیط رہ سکتا ہے،جو جنگ عظیم دوم کی یاد دلائے گا، یہ وہ بھیانک صورت ہے جو نو ڈیل کیصورت میں واقع ہو گی،اگر تجارتی معائدہ ہو گیا۔یا برطانیہ میں دوسری بار ریفرنڈم ہو گیا تو صورتحال مختلف ہو سکتی ہے۔برطانیہ کے یورپی یونین سے باہر نکلنے کے اثرات یورپی ممالک پر بھی ہوں گے مگر انکا حجم مختلف ہو گا کیونکہ بر طانیہ کیساتھ ہر ملک کی تجارت کا حجم مختلف ہے مگر بر طانیہ سب سے زیادہ متاثر ہو گا۔
بریکزٹ کی جہاں دیگر بہت سی وجوہات ہیں ان میں سب سے بڑی وجہ تعصب اور منفی سیاسی پروپیگنڈہ تھا۔تارکین وطن کی آمد کو روکنے کی مہم کئی سالوں سے چل رہی تھی،جسمیں نسل پرست اور روائیت پرست دایئں بازو کی کنزرویٹو پارٹی کا اہم کردار تھا،دیگر قومیتوں کے افراد کا اقلیتی ووٹ بھی تھا جس کا تناسب بہت کم تھا۔لیبر پارٹی کا منشور تو پرو یورپین تھا مگر ووٹر کی اکثریت بریکزٹ کی حمایتی بھی تھی۔یورپی تارکین وطن جو برطانیہ کے تمام سیکٹرز میں معیاری اور سستی خدمات سر انجام دے رہے تھے،مقامی سفید فام ان سے نالاں تھے،کچھ نسل پرست اپنی شناخت اور قومیت کے چکروں میں الجھے ہوئے تھے۔ہاوسنگ اور صحت عامہ کے مسائل پیدا ہو چکے تھے۔جس کی وجہ سے چھوٹے ایشو کو ابھار کر سیاستدانوں نائجل فراج اور بورس جانسن نے مہم چلائی اور لوگوں کی اکثر یت انکے بہکا وے میں آگئی،غیر متوقع طور پر بریکزٹ کے حق میں چار فیصد زیادہ ووٹ پڑ گیا اور برطانیہ ایک موجود سیاسی اور مستقبل میں معاشی بحران کی لپیٹ میں آگیا۔دوسری بڑی وجہ اہلیت اور نا اہلی، کام چوری اور محنت کرنے والے طبقے کے درمیا ن بھی جنگ تھی،شہروں میں تعلیم وہنر کا معیار بلند تھا،تارکین وطن محنتی اور علوم و فنون سے بہرہ مند تھے،اچھی نوکریوں پر بھی براجمان تھے،جبکہ عام تارکین وطن چھوٹی خدمات محنت ودیانتداری سے سر انجام دیتے تھے،سستے نرخوں پر ہر طرح کی خدمات دستیاب تھیں۔برٹش سرمایہ داری اور سرمایہ دار طبقہ مطمئن تھا،اسی بنا پر ماسوائے چند ایشیائی آبادی کے حامل شہروں کو چھوڑ کر دیگر شہروں میں ووٹ یورپین یونین کے حق میں پڑا ۔
جبکہ مقامی سفید فاموں کی اکثریت تارکین وطنوں کی طرح محنتی نہیں ہے ۔دیہات میں رہنے والے شہروں میں رہنے والوں کے مقابلے میں کم ہنر و علم کے حامل ہیںدیہات اور چھوٹے قصبوں میں رہنے والا سفید فام طبقہ بیروزگار بھی تھا اور مشقت کے لئے سفر رہائش کی صعوبتیں برداشت کرنے کے لئے بھی تیار نہیں تھا،وہ اندر ہی اندر کڑ رہا تھا، کہ تارکین وطن انکے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں جبکہ یہ طبقہ صرف حکومتی مراعات اور بینیفٹ پر گذارہ کر رہا تھا،سستی اور ہڈ حرامی انکی نس نس میں سرائیت کر گئی تھی اسی بناپردیہاتوں اور چھوٹے قصبوں میں ووٹ برکزٹ کے حق میں پڑے،بوڑھے بھی اس میں شامل تھے۔انکا خیال تھا کہ تارکین وطن کے نکلنے سے انکے دن پھر جائیں گے، برمنگھم، سلائو اور لوٹن میں پاکستانیوں کی اکثریت نے بریکزٹ کو ووٹ دیا ان کا خیال بھی یہی تھا کہ یورپین کے نکلنے سے انکو روزگار کے زیادہ مواقع ملیں گے، مگر اس بات کی طرف انکی توجہ نہیں گئی کہ تارکین وطن جو ملکی معیشت میں حصہ ڈالتے ہیں اسی سے یہ گھر بیٹھ کر مفت مراعات حاصل کرتے ہیں۔پرولتاریہ کی کام چوری اور عدم احساس زمہ داری نے ہی تو سویت یونین کو زوال سے دوچار کیا تھا، جبکہ ورکنگ کلاس کی اکثریت نے لندن، برسٹل، مانچسٹر،لیور پول سے یورپی یونین کیسایھ رہنے کے حق میں ووٹ دیا۔مسلمانوں کی ستر فیصد اکثریت نے برکزٹ کے خلاف ووٹ دیا۔۔سڑسٹھ فیصد ایشیائی باشندوں نے یورپی یونین کے حق میں ووٹ دیا ۔لندن اور جنوبی انگلستان میں ووٹروں کی اکثریت بریکزٹ کی مخالف تھی۔کاروباری طبقہ،تعلیم یافتہ لوگ،ملازمین ودیگیر یورپی یونین کیساتھ رہنے میں ہی برطانیہ کی مضبوطی سمجھتے تھے،مگر غریب،کم تعلیم یافتہ اور کام چور طبقہ اس کے خلاف تھا، مگر الیکشن کے بعد اکثریت کی رائے تھی کہ مسائل کے بر عکس یہ سیاستدانوں کے بہکاوے میں آگئے ۔نتائج کی خبر سننے کے بعد برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے استعفیٰ دے دیاتھا،کہ برطانیہ کی معاشی ترقی وبقا یورپ کیساتھ رہنے میں ہی ہے اسکے سوا برطانیہ بہت سے سیاسی و معاشی بحرانوں کا شکار ہو جائے گا۔