اللہ نے عطاء کردہ نعمت واپس لے لی

Allah

Allah

تحریر: عتیق الرحمن

اللہ تعالیٰ نے کائنات کو تخلیق فرمانے کے بعد اس میں انسان کو بطور اپنا نائب و خلیفہ مبعوث کیا۔اور انسان کو اپنی تما م ترمخلوقات پر فضیلت و برتری بھی عطا کر دی۔رب کریم نے دنیا میں انسان کو اشرف المخلوق کا درجہ دیا اس کا بدیہی قصد یہ تھا اور ہے کہ انسان زندگی کے تمام مراحل میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کے سامنے سرتسلیم خم کرلے۔اللہ جل شانہ نے انسان اور جن کو اپنی عبادت اور رضاکے حصول کے لیے پیدا کیا اور اس کے سبب انسان اور جن دونوں کو زندگی کے ذرہ برابرلمحہ کے متعلق حساب و کتاب دینا پڑے گا جس کے سبب وہ ہمیشہ کی کامیابی سمیٹ لے گا یا پھر شقاوت کا مستحق ٹھہرجائے گا۔انسان کی زندگی آزمائشوں سے معمور ہے جہاں اس کو جہاں بھر کی رحمت و برکت اور نعمتیں ملتی ہیں وہیں پر اس پر بطورامتحان تکلیف و مصیبت اور آزمائش سے بھی گزرنا پڑجاتاہے۔کامیاب وہی انسان ہوتا ہے جو اللہ کی رضا میں راضی ہوجائے اور خوشی و مسرت کے موقع پر شکرگذاری کو فراموش نہ کرے اور تکلیف و مصیبت کے وقت اللہ تعالیٰ کی رضا پر صبر کرے۔کیونکہ اللہ کا شکر اداکرنے پر نعمتوں میں اضافہ ہوتاہے تو صبر اور نمازکے اختیار کرنے میں اللہ کی مدد میسر آ جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مبعوث ہوئے ہر انسان کو اس کی حیثیت کے مطابق امتحان سے گزارا ہے۔ انبیاء علیہم السلام خود سرکار دوعالمۖ وجہ تخلیق کائنات ۖ پیغمبرآخرالزمانۖ بھی امتحانات میں سے گزرے تو آپۖ نے فرمایا کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی آزمائشیں اور ابتلائیں ایک طرف اور مجھ پر آنے والی تکالیف کا پلڑابھاری ہے۔اللہ تعالیٰ کا منفرد اسلوب ہے کہ کبھی وہ انسان کو سب کچھ عطاکرکے آزماتا ہے اور کبھی انسان سے سب کچھ چھین کر آزماتاہے مقصد اس آزمائش کا یہ ہوتاہے کہ آیا کونسا خوش قسمت انسان ہے جو رب کریم کی رضا پر راضی رہتاہے اور کون طاغی و ناشکرا اور نافرمان ہوجاتاہے۔دونوں صورتوں میں انعامات الٰہی کے اضافہ اور قہرخداوندی سے سابقہ پڑجاتاہے۔ نبی اکرمۖ نے فرمایا ہے کہ اللہ نے دنیاکو مئومن کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت بنایا ہے۔یعنی کافر کو تمام سہولت و آسانی اور راحت البالی دنیا میں عطاکردی جائے گی جبکہ مئومن بظاہر دنیا کی زندگی میں شدائد و تکالیف سے گزررہاہوگا مگر آخرت میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا بے حساب مستحق ٹھہرے گا۔

اللہ جل شانہ کی جانب سے امتحانات میں سے کبھی رزق کی تنگی ہے، تو کبھی رشتوں میں کدورتیں،توکبھی امن و سکون کا چھن جانا،تو کبھی معاشرتی و سماجی الجھنوں سے سابقہ پڑتاہے تو کبھی حق گوئی کے سبب ظالم و طاغی سردار و جاگیردار اور حاکم کے مظالم سے گزرنا جیسے شدائد شامل ہیں۔ان تمام ابتلاء ات سے انبیاکریم علیہم السلام بھی گزرے ہیں اور اللہ کے محبوب و قرب ترین پیغمبرۖ حضرت محمد مصطفیۖ بھی گزرے۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اور اہل بیت عظام و اولیاء کرام بھی ان مصائب دنیا سے گزرے۔ ان ہی آزمائشوں میں سے ایک اصل تکلیف اولاد کے عطاء کیے جانے کے بعد چھن جانا بھی ہے۔ اس امتحان سے آپۖ کو تین مرتبہ گزرنا پڑا کہ آپۖ کے تین لخت جگر عہد طفولیت میں ہی اللہ کے حضور واپس لوٹ گئے۔اس منظر کو دیکھ کر کفار مکہ فرحان و شاداں ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی غیرت کو جوش آیا اور آپۖ کو فرمایا کہ نسل تو آپۖ کے دشمن کی ختم ہوجائے گی۔

اللہ تعالیٰ نے شادی کے ایک سال ایک ماہ بعد بندہ ناچیز کو بھی 14 اپریل 2019بمطابق 9شعبان المعظم بروز اتواراولاد نرینہ سے نوازا تاہم تین روز تکلیف و آزمائش میں گزرنے کے بعد17اپریل2019 بمطابق 12شعبان المعظم کو اس معصوم فرزند ارجمند محمد حسن بن عتیق الرحمن گورچانی کو قربت الٰہی کا پروانہ مل گیا۔انسان کی زندگی میں سب سے بڑی خوشی و مسرت کا وقت یہی ہوتاہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور سے اس کو اولاد نرینہ عنایت ہوجائے۔والدین و اعزء و اقارب اس پر مسرت لمحہ کو احسن انداز سے نبھانے کی سعی و کوشش کرتے ہیں ۔البتہ رب تعالیٰ کو جومنظور و مقصود ہوتاہے وہی امر بہر صورت متحقق ہوکر رہتاہے ۔ماں کے پیٹ میں بچہ تندرست و صحت مند تھا لیکن دنیامیں آنکھ کھولتے ساتھ ہی اس کو سانس کی تکلیف کا عارضہ پیش آیا اور سی ایم ایچ اوکاڑہ میں متواتر علاج کیے جانے کے بعد بھی افاقہ نہ ہوا۔اور اپنی والدہ کے ہاتھوں میں لخت جگر نے اپنی جان جان آفریں کیے حوالے کر دی۔

اللہ تعالیٰ کی رضا پر کوئی بھی انسان بہتیرے جتن کرنے کے باوجود بھی غالب نہیں آسکتا۔اہلیہ محترمہ اور راقم نے اپنے اعزء و اقارب اور ملک و بیرون ملک کے خیرخواہوں سے دعائوں کی درخواست کی تھی کہ علاج کے ساتھ دعائوں کی بھی اشد ضرورت تھی۔مجھے خوشی ہوئی کے تمام بہی خواہوں نے نیک تمنائوں اور پرخلوص دعائوں کا اظہار و اہتمام کیا۔لیکن تقدیر باری تعالیٰ پر کوئی غالب نہیں ہوسکتا۔ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ اللہ تعالیٰ عہد طفولیت میں اگر والدین سے ان کی اولاد چھین لے تو وہ روز محشر ان کے نجات کا ذریعہ بن جاتی ہے۔اسی طرح دعائوں کی قبولیت کے بھی تین مدارج ثابت ہیں کہ جس مقصد کے لیے دعاء کی جاررہی ہو اس کے حق میں قبول ہوجائے یا نعم البدل مل جائے یا پھر اللہ تعالیٰ حساب و کتاب کے دن ان دعائوں کا انعام عطاکردیں۔احادیث صحیحہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے اور انبیاء کرام اور نبی آخرالزمانۖ اور اللہ کے مخلص ترین و مقرب ترین صحابہ و اہل بیت اور اولیاء اللہ کے امتحانات سے گزرنے کو دیکھ کر خود کا غم ہلکا و کم معلوم ہوتاہے۔بس اللہ جل شانہ سے دعاکرتاہوں کہ اس ماں کو صبر جمیل عطاکرے جس نے دوران حمل اور دوران پیدائش اور بعد از ولادت تکلیف الیم کا سامنا کیا ۔اور اللہ تعالیٰ ہمیں نیک صالح اولاد سے نوازے اور محمد حسن گورچانی کو ہمارے لیے ذریعہ نجات بنائے۔آمین

Atiq ur Rehman

Atiq ur Rehman

تحریر: عتیق الرحمن