ارض پاکستان جسے اب اسلامی جمہوریہ پاکستان لکھتے ہوئے شرم آتی ہے کیونکہ اسلامی ریاست تب ہوگی جب ریاست کے قوانین اسلام کے واضح کردہ ہونگے الا ماشا اللہ ہمارے ملک میں تو اسلامی قوانین کا نفاذ تو بہت دور کی بات ہمارے حکمران طبقہ کو ممکن ہے اسلام کے بنیادی ارکان بھی معلوم نہ ہوں اور جب پارلیمنٹ میں بیٹھ کر قانون سازی کرنے والے ممبران کو سورة اخلاص تک نہ آتی ہو تو قوانین فرشتے تو بنا کر پڑھانے سے رہے دوسرے نمبر پر یہ فرض علماء کرام کا ہے مگر افسوس صد افسوس کہ علماء حق تو سیاست سے باہر نکال دیے گئے اور جو پارلیمنٹ کا حصہ بنے وہ آیةالکرسی کے آخری چاری حرف یاد کرکے اسی کا ورد کرتے ہیں رہی جمہوریت کی بات تو کسی لٹیرے لیڈر کے گرد جب قانون کا سایہ منڈلانے لگے تو سنا ہے کہ جمہوریت کو خطرہ ہوتا ہے اس سے ذیادہ جمہوریت راقم نے اپنی زندگی میں نہیں دیکھی خیر موضوع الگ ہے مگر بنیادی طور پر یہ باتیں اس لیے لازمی ہیں کہ ریاست اپنی رعایا کو جو بنیادی حقوق دیتی ہے ان میں سے تعلیم صحت اور خوراک تین وہ بنیادی حق ہیں جو دیے تو اسلام نے مگر عوام کو میسر یہ یورپی ممالک میں ہیں وطن عزیز کے حکمران اسے اپنی ذمہ داری ہی نہیں سمجھتے اور ان تینوں شعبوں میں بزنس قانونی طور پہ منع ہے۔
اگر قانون ہو اور اس پہ عملددرآمد کروانے والے حکمران ہون تب مگر آج ہمارے ملک میں یہ تین شعبے اے ون کلاس کے بزنس ہیں خوراک پر تاجر ان اسمبلی ممبران کی گرفت ہوتی ہے انکی ملز سے نکلی ہوئی خوراک انکے من مرضی کے نرخوں پر بازار میں مہیا ہوگی روکے کون جب بیچنے والا خود حکمران ہوگا تو رعایا کی کیا مجال جو اف بھی کرے ۔دوسرے نمبر پہ صحت کا معاملہ ہے تو جو سستا اور قانون قدرت کے مطابق طریقہ علاج یعنی طب تھا اسے رول بیک کر دیا گیا اطباء کرام کی تذلیل کی گئی اور طب کو سرکاری سرپرستی میں ترویج و اشاعت کے بجائے طب سے منسلک لاکھوں لوگوں کو بے روزگار کردیا گیا ایک مخصوص مافیا کے ایماء پر ملک بھر میں ایک کالا قانون لاگو کیا گیا جسے ہیلتھ کئیر کمیشن کا نام دیا گیا اور اس پر اربوں روپے کے فنڈز اس غرض سے خرچ کیے گئے کہ عوام کو صحت کی بہترین سہولیات فراہم کی جائیں گی اور ملک سے عطائیت کا خاتمہ کردیا جائیگا مگر اس کمیشن کے اراکین ہی مافیا کے ایجنٹ تھے راقم الحروف نے کمیشن کے سابقہ چئیرمین (جن کے نام سے دنیا واقف ہے ) کو لائیو شو میں طب کی تذلیل کرتے دیکھا ہے ایک ہربل دواساز ادارے کی تیار کردہ دیسی جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ ادویات کو ضائع کیا گیا اور براہ راست عوام کو دکھایا گیا۔
اس دواساز ادارے کے املک پر جو بیتی وہ الگ داستان ہے مگر آج تک کسی مہربان قاری کے علم میں ہو کہ کسی ہربل سیرپ سے کسی مریض کی موت واقع ہوئی ہو تو وہ براہ کرم راقم کو لازمی آگاہ کرے بھانڈ کی نسل سے منسلک میڈیا ٹیم کے اینکر بھی اس وقت وہ ادویات ایسے دکھا رہے تھے جیسے کہیں سے بم برآمد ہو گیا ہو اب اپنے لیڈر کے علاج کے لیے سابقہ چئیرمین ہیلتھ کئی کمیشن سمیت پوری ٹیم کو پورے ملک میں کوئی علاجگاہ ہی نہیں مل رہی لندن سے کم کوئی چوائس ہی نہیں اب انہیں جناح ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر پڑی نمونیہ کی وہ بوڑھی مریضہ کیوں یاد نہیں آتی جسے ایک تو نمونیہ تھا دوسرا اسے ہسپتال میں کوئی بیڈ نہ ملا جلاد نما معالج نے اسے ٹھنڈے فرش پر ہی ڈرپ لگا کر اسکو زندگی سے آزاد کردیا تو اب خواجہ صاحبان اپنے لیڈر کے لیے اتنے واویلا کیوں کررہے ہیں جناح ہسپتال سروسز میو گنگا رام اور افر سرکاری نہیں تو انکے جگری یار ڈاکٹر شہر یار لوگوں کا ڈاکٹرز ہسپتال کیوں نہیں جاتے وہا ں کیا وہاں سب عطائی بیٹھے ہوئے ہیں تو معزز قارئین کرام میاں صاحب کی اور انکے حواریوں کی چیخ و پکار جائز ہے یہاں سب عطائی ہیں ڈگریوں کے عوض پیسے کمانے والے اور جس حکمران نے یہ سارا کھیل خود رچایا ہو وہ بھلا اپنا علاج کروانے انہی کے پاس کیوں جائے گا۔
طب اسلامی انبیاء کرام کے ذریعہ سے الہامی علم ہے جسے آج دنیا کے اکثر ممالک نے اپنا نا شروع کردیا ہے اور باقاعدے اسکی اشاعت و ترویج کاا نتظام کرکے اطباء کرام کی تربیت کی جارہی ہے مگر ہمارے ملک میں ایلو پیتھی رائج کرکے اس میں شامل برٹش فارما کوپیا اور یونیورسل فارما کوپیا کی ادویات کا حلیہ بگاڑ کرکے مریضوں پر تجربات کیے جاتے ہیں ہمارے ساتھ سب سے بڑا المیہ ہے کہ ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں اور ادارے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرجاتے ہیں ادویہ ساز ادارے ملٹی نیشنل ہیں یا ملکی سطح پر انفرادی طور پر ادویہ تیار کررہے ہیں ہر ادارہ نے اپنے من مانی کے نرخ لگارکھے ہیں ایک دوا ملٹی نیشنل کے لیبل سے اگر ڈیڑھ سو روپے کی ہے تو وہی سالٹ ایک لوکل کمپنی تیس روپے میں فروخت کررہی ہے اور ہمارے ڈاکٹرز صاحبان خاص طور پر ینگ ڈاکٹرز جنہیں چلانا ہی کمپنیوں کے سیلز ریپ نے ہوتا ہے وہ انہیں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ادویات بھاری نذرانے لے کر دھڑا دھڑ لکھتے جاتے ہیں اور مریض داعی الااللہ ہوتے جاتے ہیں جن میں ایک زندہ مثال کراچی کے دارالصحت ہسپتال میں داخل ہونے والی معصوم کلی نشوہ ہے جسکے والدین نے اسے معمولی مرض ڈائریا میں مبتلا دیکھ کر اتنے بڑے ہسپتال کا رخ کیا جہاں سے مریض اگر آگے ریفر ہوتو جنت الفردوس میں ریفر کیا جاتا ہے قارئین کرام نشوہ جیسی جانے کتنی کلیاں روزانہ ان دارالصحت جیسے ہسپتالوں میں مرتی ہیں یہ ایک خبر تو میڈیا نے نشر کر دی تب دارلصحت جیسا ادارہ منظر عام پر آیا ملک میں لاکھوں کی تعداد میں ایسے دارلصحت ہیں جو محکمہ صحت کے افسران خود چلا رہے ہیں دوسری طرف حکومت اور سپریم کورٹ نے حکم لاگو کیا کہ عطایئت کے خاتمہ کے لیے تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے عطائیوں کو گرفتار کرکے بند کردیا جائے۔
سابق چیف جسٹس آف پاکستان کے حکم پر گرفتار ہونے والے عطائیوں کی تعداد ہزاروں میں تھی جو سلسلہ بدستور جاری ہے مگر ایک بنیادی بات جسے یکسر نظر نداز کر دیا گیا اور چورچور کی پکار میں سب دوڑ پڑے وہ یہ کہ عطائی ہے کون؟ ایک ایم بی بی ایس ڈاکٹر جس نے نشوہ کا قتل کیا ؟ یا ایسے ہسپتال جہاں مریضوں کو پیٹ درد ہوتو اپنڈکس کہہ کر آپریشن کا کہا جاتا ہے اور ساتھ ہی اسکا ایک گردہ بھی غیر قانونی طور پر نکال لیا جاتا ہے جس کا علم اسے کئی سال بعد ہوتا ہے یا ایسے ڈاکٹرز جو پیسے کے بل بوتے پر ڈگریاں خرید کر ڈاکٹر بنے ہوئے ہیں محکمہ صحت کی نظر میں ان میں سے کوئی بھی عطائی نہیں ہے کیونکہ ایسے ڈاکٹرز اور ہسپتال ماہانہ لاکھوں روپے مقامی ڈی ایچ او اور ڈرگ انسپکٹرز کو گھر بیٹھے پہنچا دیتے ہیں عطائی ٹھہرے وہ میڈیکل ٹیکنشن ڈیٹل ٹیکنشن لیب ٹیکنشن یا کوالیفائیڈ ڈسپنسرز جو بنیادی مراکز صحت میں مریضوں کے لیے مسیحا ہوتے ہیں وہاں انکا عقل شعور فہم و ادراک کام کررہا ہوتا ہے مگر جونہی ہسپتال کا وقت ختم ہوتا ہے انکی عقل بھی ختم ہوجاتی ہے۔
ہسپتال سے باہر آکر وہ عطائی بن جاتے ہیں معزز قارئین ایک سپیشلسٹ ڈاکٹر ایک مریض چیک کرنے کی کم ازکم فیس ایک ہزار روپے وصول کرتا ہے پھر وہ کلینکل ٹیسٹوں کی ایک لمبی فہرست مریض کو تھما دیتا ہے کیونکہ لیب سے بھی اسے کم از کم چالیس سے پچاس فی صد حصہ آتا ہے پھر وہ اس کمپنی کی ادویات لکھے گا جس نے اسے فیملی سمیت عمرہ کا ویزہ دیا ہوتا ہے مریض بچ گیا تو اسکی قسمت تصویر کا دوسرا رخ ایک بنیادی مرکز صحت کا انچارج ڈسپنسر جب ہسپتال سے فارغ ہوکر اپنی بیٹھک میں بیٹھ کر نشوہ جیسی ڈائریا کی مریضہ کو ایک دو سیرپ دے کر سو دو سو روپے وصول کرتا ہے جن میں سے ادویہ کے پیسے نکال کر اسے کوئی پچاس ساٹھ روپے بچ جاتے ہیں اور مریض بھی ٹھیک ہوجاتا ہے کیونکہ اس دوا تجویز کرتے وقت محلہ داری کا سوچنا ہے اپنی حیثیت کا بھی سوچنا ہے کیونکہ اس کے پاس ایم بی بی ایس کی ڈگری تو ہے نہیں کہ مریض مر گیا تو اسے کچھ نہیں کہا جائیگا بلکہ وہ صرف سوری بولے گا اور لواحقین صبر کر جائینگے اس لیے وہ ڈر کر مریض پہ پوری توجہ مرکوز کرے گا جس کے نتیجہ میں مریض ٹھیک ہوجائے گا ۔مگر بد قسمتی سے ایسے مسیحائوں کو عطائی کہہ کر انکے رزق کو بند کیا جارہا ہے اور قانون سازی کرنے کے بجائے اندھا دھند کام کیا جا رہا ہے۔
اگر عطائیت ختم کرنی ہوتو نہ کوئی نیا محکمہ بنانے کی ضرورت ہے اور نہ کمیشن ہر تحصیل کا ڈپٹی ڈی ایچ او اور ڈرگ انسپکٹر اچھی طرح جانتے ہیں کہ انکے علاقہ میں کون کون صحت کے شعبہ سے منسلک ہے مگر وہ اپنی روٹی کو لات کیوں ماریں گے قانون سازی کرکے ہر اس ڈاکٹر کو عطائی قرار دیا جائے جو پیرا میڈئکل سٹاف کے بجائے اپنا تیارکردہ سٹاف رکھ کر ہسپتال چلا رہا ہو جو اپنے نام کے بورڈ بیچ کر لاکھوں روپے کمارہا ہو اور بورڈ کے پیچھے چار جماعت پاس سرجن چھپا ہو اور ہر وہ ڈاکٹر عطائی قرار دیا جائے جس نے اپنی فیس اس قدر رکھی ہو کہ غریب مریض اس کا سوچ بھی نہ سکیں لیبارٹریوں سے کمیشن وصول کرنے والا آپریشن آگے ریفر کرکے کمیشن کھانے والا اور پھیری لگانے والا ہر وہ سرجن بھی عطائی ہے جس نے دائیوں کے گھروں میں آپریشن تھیٹر کھول کر روزانہ کئی نشوہ جیسی کلیوں کو دنیا میں آنے سے پہلے ہی موت کی وادی میں بھیج دینا یوتا ہے اگر یہ قانون سازی ہو جائے تو میرا خیال ہے بہت سارے معاملات خود بخود حل ہوجائیں گے مگر قانون بنائے گا کون؟ ہماری مقننہ تو ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے یا اپنی اپنی کرپشن کی سزا سے بچنے کے لہے مصروف ہے تا وقت ہر روز یہ سلسلہ چلتا رہے گا اور ایک نہیں کئی معصوم نشوہ جیسی جانیں ان ڈگری ہولڈر عطائیوں کی بھینٹ چڑھتی رہینگی آخری بات یہ کہ زندگی کی حفاظت کرنے کا اسلام حکم دیتا ہے اور قاتل کے لیے حکم یہ ہے کہ جس نے ایک انسان کو قتل کیا اس نے انسانیت کو قتل کر دیا اور جس نے ایک جان بچائی اس نے گویا پوری انسانیت کو بچا لیا قاتل لازمی نہیں کہ چور ڈاکو یا کوئی راہزن ہی ہو ہزاروں روپے فیس لے کر ائیر کنڈشنڈ کمرے میں بیٹھا ایک اکٹر بھی ہوتا ہے والسلام۔