لاہور (جیوڈیسک) سڑکوں پر چمچماتی امپورٹڈ گاڑیاں اب نایاب ہو جائیں گی کیونکہ حکومت کی نئی امپورٹ پالیسی کے بعد انھیں درآمد کرنا بند کر دیا گیا ہے۔
نئی امپورٹ پالیسی کی وجہ سے گاڑیوں کو درآمد کرنے کے کاروبار سے منسلک افراد پریشان ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق لاہور میں تقریباً 980 امپورٹڈ گاڑیوں کے شوروم ہیں۔
ہر شوروم پر مالکان کے علاوہ 4 یا 5 ملازمین کام کرتے ہیں اور ان سب کو درآمد کی جانے والی گاڑیوں سے روزگار ملتا ہے۔
ملک میں اس وقت تقریباً 10 لاکھ سالانہ گاڑیوں کی کھپت ہے۔ مقامی مینوفیکچرز 6 لاکھ 20 ہزار سے زائد سالانہ گاڑیاں پروڈیوس کرتے ہیں جبکہ درآمد کی جانے والی گاڑیاں 70 سے 80 ہزار ہیں۔
گزشتہ مالی سال کے دوران کی 70 ہزار سے زائد امپورٹڈ گاڑیاں درآمد گئیں تھیں جس سے قومی خزانے کو 100 ارب سے زائد کا فائدہ ہوا۔ جبکہ لوکل مینوفیکچررز نے 6 لاکھ سے زائد گاڑیوں کی مد میں 66 ارب ٹیکس ادا کیا۔
امپورٹرز اور شوروم مالکان کا کہنا ہے کہ حکومت کو امپورٹ پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے تاکہ یہ کاروبار زندہ رہ سکے۔ مارکیٹ میں گاڑی خریدنے کے لیے آنے والے حضرات کہتے ہیں کہ پاکستانی گاڑی پر امپورٹڈ کو فوقیت دینے کی وجہ اس کا بے شمار فیچرز سے لیس ہونا ہے۔
اس وقت پاکستان کی مختلف بندرگاہوں پر 600 سے زائد گاڑیاں پھنسی ہوئی ہیں۔ اسی طرٖح 5500 سے زائد گاڑیاں چاپان پورٹس پر موجود ہیں جو امپورٹ پالیسی کے باعث پاکستان نہیں پہنچ پا رہی ہیں۔