توں محنت کر،محنت دا صلہ خدا جانے توں ڈیوا بال کے رکھ چا،ہوا جانے خدا جانے اے پوری تھیوے نہ تھوے بیکار نئیں ویندی دعا شاکر،تو منگی رکھ، دعا جانے، خدا جانے
لفافی کا کہنا ہے کہ کوئی انصافین ان کے کان میں کہہ گیا ہے کہ عمران خان کے ہوتے ہوئے اگر پاکستان بچ جاتا ہے تو سمجھئے اس ملک کو اللہ ہی چلا رہا ہے حضرت قائد اعظم کے دور میں بھی پاکستان کو اللہ ہی چلائے گا اور اس دور میں بھی میں وہ واحد آدمی ہوں جو پارٹی جلسوں میں کون بچائے گا پاکستان کا جواب میرا اللہ مہربان۔اس صحافی کی ہر تان ہی دیپک ہوتی ہے۔اسے شروع دن سے پاکستان تحریک انصاف سے نفرت ہے اس جھلے بھائی کو یقین ہے کہ نو ماہ ہو چکے ہیں اور ابھی کچھ ڈیلیور نہیں ہوا کوئی اسے بتائے یہ ڈیلوری ٹائم زچگی کا ہے حکومتوں کا ڈیلیوری ٹائم طے شدہ ہوتا ہے جس طرح اس کے مربی پورے پانچ سال حکومت کر گئے اس سے پہلے زرداری جب عمران خان پانچ سال پورے کر گئے تو ان سے جواب مانگئے گا۔پی ٹی آئی کی حکومت جس نہج پر جا رہی ہے اور جو سمت اس نے اپنا رکھی ہے وہ درست ہے۔
عمران خان کے ساتھ یہ چیز لپٹی رہی ہے کھیل کا شوق ہوا تو کہا جاتا رہا ہے یہ کلاڑی نہیں بن سکتا بن گیا تو ٹیم میں نہیں رہ سکتا ٹیم میں آیا تو کپتانی نہیں کر سکتا اور کپتان بنا تو ورلڈ کپ نہیں جیت سکتا وہ ان لوگوں کے منہ پر کالک ملتا ورلڈ چیمپیئن بنا اور ملک کا پرچم بلند کیا۔ورلڈ کپ جیتنے کے بعد جدہ آیا تو وہاں ہمارے فنکشن میں تقریر کرتے ہوئے اس نے کہا اس ملک کے عظیم پاکستانیو سنو جب میں مایر لوگوں کے پاس چندہ مانگنے گیا تو کہنے لگے ہسپتال نہیں بن سکتا بنائو گے تو چلائو گے کیسے واحد غریب آدمی تھا جس نے کہا یہ لو پیسے ہمیں یہ نہیں پتہ کہ بنے گا یا نہیں لیکن تم سچے آدمی ہو یا 1992کی بات ہے۔اللہ نے کیا کھلاڑی بھی بنا کپتان بھی ہسپتال بھی بن گیا اور چل بھی گیا بلکہ ایک نہیں تین۔بہت سے لوگ برے سڑوس ہوتے ہیں کسی سوکن کی طرح ہر وقت منہ بسورے برا ہی سوچتے رہتے ہیں۔یار جس اللہ نے آپ کو صحافی بنا دیا ہے اور روز ٹی وی پر آ کر اپنا جلا بھنا چہرہ دکھانے کا موقع دیا ہے وہ کچھ بھی کر سکتا ہے۔
اس کا کہنا ہے کہ حفیظ شیخ کے بارے میں محترمہ شرین مزاری نے سخت الفاظ استعمال کئے ہیں با با اختلاف رائے ہر پارٹی میں ہوتا ہے عمران خان کوئی ایوب خان تو نہیں ہے کہ ایبڈو کی پابندیاں لگا دے گا وہ بات کہتا بھی ہے اور سنتا بھی ہے وہ ہمارا لیڈر ہے ہمارا امام تو نہیں کہ اس کے ہر فیصلے کو ہر بندہ بلا چون و چرا مان لے لوگ اپنی رائے دیتے ہیں رائے کے بعد بحث ہوتی ہے اور بحث کے بعد جو فیصلہ ہوتا ہے اسے مانا جاتا ہے۔لگتا ایسا ہے کہ اس قسم کے قل کاروں کو وہی بھاتا ہے جو کھاتا بھی ہے اور کھلاتا بھی ہے۔ان لوگوں نے کبھی عوام کو نہیں بتایا کہ ملک کی اقتصادی حالت کی ابتری کی وجہ نواز شریف اور زرداری ہین ۔دیکھیں جی نو ماہ ہو گئے ہیں با با یہ تین گھنٹے کا پیپر ہے ابھی آدھا گھنٹہ گزرا نہیں پرچہ چھین کر کہہ دیتے ہوئے یہ بھی غلط وہ بھی غلط۔وزیر خزانہ کیا بدلا ٹٹیریوں نے آسمان سر پے اٹھا لیا۔وقت بتائے گا کہ اسد عمر کے فیصلے کیا تھے اور جنہیں ان سے تکلیف تھی جنہوں نے مال پانی دینا تھا ان کی مانی گئی۔ایک اردو اخبار کے ایڈیٹر نے کمال بات کی جنہاں پیسے دینے سن منشی وی اونہاں دا۔جی ایسا ہی ہوا ہے ایک شرین نہیں ہمیں بھی دکھ ہے لیکن حضور کیا کیجئے ماڑے جنے دی رن جنے کنے دی بھابی۔کج یہی ہمارے ساتھ ہوا ہے۔
فیصل واووڈا شدے جذبات میں کچھ کہہ گئے اس لئے کہ میڈیا پر بولنے والے مزاج کچھ اور ہوتے ہیں لیکن میں ایک انجینئر کی حیثیت سے آپ کو بتا دوں آٹو سیکٹر نے انگڑائی لی ہے۔مجھے پورا یقین ہے کہ مڈل ایسٹ میں اس سیکٹر سے وابستہ لوگوں کی واپسی کے دن ہیں بہت سی کمپنیوں کے پلانٹ لگنے والے ہیں اور بہت سوں پر کام جاری ہے۔پاکستان میں لاکھوں کی نوکریاں تو فحص الدوری کی شکل میں آنے والی ہیں۔ہر شہر میں گاڑیوں کی فٹنس جاری کرنے کے سینٹر کھولنے کی تیاری ہو رہی ہے سعودی عرب میں رہنے والے جانتے ہیں کہ یہ سینٹر کس قدر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ان سینٹرز کے قیام کے بعد پاکستانی سڑکوں پر کسی گاڑی گا ٹائی راڈ نہیں کھلے گا اس لئے کہ جرمن ادارے نے سفارش پر رشوت لے کر رپورٹ دینی نہیں جس طرح سعودی عرب اور دیگر ایمبیسیوں نے میڈیکل سینٹر بنائے اور صرف انہیں اجازت دی جو صیح رپورٹس دیتے تھے اسی طرح گاڑیوں کی فٹنس کے ادارے بڑے تگڑے ہوں گے کوئی سات لاکھ لوگ اس پر کام کریں گے فوٹان ہنڈائی واکس ویگن جیسی کمپنیاں پاکستان پہنچ رہی ہیں۔ملائیشیا کی کار کمپنیاں آ رہی ہیں اب ان چیزوں پر وقت تو لگے گا۔پاک چائینہ معاہدوں پر نظر ثانی ہوئی ہے چائینہ اب د یے دے نہیں ل یے لے بھی کرے گا آج کی خبر ہے پانچ سالوں میں سات اربڈالر کی ایکسپورٹ ہوں گی۔
ان قلم گھس پیٹھئے لوگوں کو کیا علم کہ بسنت کی بہار کیا ہوتی ہے۔کچھ لوگوں کو گالی دینے کے پیسے ملتے ہیں۔ پی ٹی آئی کا وہ تھڑ دلا ہو گا جسے کچھ ملا نہیں ہو گا اور اس کی بات کا بتنگڑ بنا لیا کہ اب پی ٹی آئی کے لوگ مایوس ہو گئے ہیں ۔ہمیں اس بات کا احساس ہے کہ عمران خان کی ٹیم میں وہ لوگ بھی شامل ہو گئے ہیں جو الیکشن جیتنے تک ساتھ نہ تھے لیکن کیا ہوا اگر عمران خان کو کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس کی معاشی ٹیم کی کمانڈ ایک حفیظ شیخ کے پاس ہے تو جھلا ہے اقصادی میدان کے ایکسپرٹ مالی معاملات کے تجربہ کاروں کا ایک گروپ بھی موجود ہو گا۔ وزیر اطلاعات کی تبدیلی ناگزیر تھی میدان جنگ میں فواد چودھری نے بڑے کارنامے انجام دئے اس نے دشمنوں کے سینے پر کچوکے لگائے اب دور اقتتدار کا ہے ان کی بات بھی سننی ہے جو جن کی کبھی سنی نہیں گئی اور نہ ہی سننا گوارا تھی وہ فواد کے چہرے کو دیکھ کر ہی اس بچے کی مانند چیخنا شروع کر دیتے تھے کہ وہ دیکھو پھر آ گیا ہے۔لگڑ بگڑوں کا خیال ہے کہ ایک وکیل سائینس اور ٹیکنالوجی کا وزیر کیسے بنا دیا گیا حضور اگر وکیل ملک پاکستان بنا سکتا ہے تو وزارت بھی چلا سکتا ہے۔
جی لفافی کا یہ خیال ہے کہ چین کی حکومت پاکستان سے خوش نہیں ہے اس طرح کا ماحول نہیں ہے جس طرح زرداری اور نواز شریف سے تھا اور سی پیک کا معاملہ سست ہے۔سچی بات یہ ہے کہ ان دونوں نے چین سے کہا آپ وی کھا تے سانوں وی کھوا۔مہاتر محمد نے چین کے ساتھ معاہدوں پر نظر ثانی کی کیا ہمیں نہیں کرنا تھی ایک باوقار اور غیرتمند قوم کی طرح ہم نے معاہدے دیکھے اور اپنی شرائط منوائیں اس سے پہلے ہم صرف ٹائر پنکچر لگا سکتے تھے اور تیل بدل کر سی پیک اسٹیشنوں پر کام کر سکتے تھے اور چینی ایسی قوم ہیں اپنا تیل کا ڈبہ اور فلٹر ساتھ لاتے۔اب آج کی خبر دیکھ لیں کوئی تین سو کے قریب ہمارے چیزیں چائینہ خریدے گا۔یہ اسد عمر کا ہی کام تھا جس نے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پاکستانی اشیاء کی ایکسپورٹ کی بات کی ورنہ احسن اقبال جیسے لوگ اس معاہدے کی شقوں کو غلاف میں لپیٹ کر رکھنا مناسب سمجھتے تھے۔
چائینہ کو ایسٹ انڈیا کمپنی بنا دینے والوں کو یاد رہنا چاہئے چوپڑی روٹی کے لئے قومی غیرت نیلام نہیں کی جاتی۔چائینہ کو گوادر کا گرم پانی ایسے ہی دے دیں انشاء اللہ جلد پاکستان میں ایک خوشگوار تبدیلی آئے گی۔میں گجرانوالہ سیالکوٹ فیصل آباد جسیے کئی ابھرتے شہر دیکھ رہا ہوں جہاں ہماری صنعتیں سر اٹھائیں گی۔لفافی نے ایران میں دورے کی کامیابی کو بڑی غلط نگاہ سے دیکھا ہے سعودی عرب سے معاملات کے بات پڑوس میں بیٹھے ایران کو راضی کرنا اور دوستی کرنا ضروری ہو گیا تھا ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودی عرب کے تحفظات ہیں ۔ان دو ملکوں کی چپقلش سے پورا خطہ پریشان ہے۔لفافی بھائی کو یہ بھی علم نہیں کہ سعودی عرب میں ایک محدود مذہبی سوچ کو بھی خیر باد کہہ دیا گیا ہے جس ملک میں علامہ طاہر القادری کو خوش آمدید کہا جا رہا ہو وہ بدلا ہے۔یمن کی شام الم بھی ختم ہو گی افغانستان بھی پر امن ہو گا۔لیکن آپ تو صبر کیجئے۔انشاء اللہ یہ معاملات غیرت قومی کی واپسی تک چلیں گے۔