بلاشبہ موت انسان دھرتی کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے اور ہر نفس نے موت کے پل صراط سے گزرنا ہے ‘ حضرت انسان کو بھی موت کا ذائقہ چکھنا ہے اب وہ چاہے ہزاروں خو شامدیوں کے جھرمٹ میںاقتدار کے کو ٹھے پر براجمان ہو یا کچی گلیوں ‘ پتھریلی راہوں کے بخیل درازوں پر دستک دینے والا گدائے بے نوا ‘ موت جلتے سلگتے بے آب و گیاہ ریگستان میں کسی کھردری چارپائی پر ٹھنڈے ہو تے تڑپتے پیکر بے بسی انسان کی رگوں سے زندگی نچوڑ لیتی ہے دوسری طرف پلک جھپکتے مرمریں دیواروں ریشمی پردوں مہنگے آرام دہ ریشمی بستروں والی خواب گاہ میں جا دھمکتی ہے جہاں دنیا جہاں کے ماہر قابل مسیحائوں کے جھرمٹ میں کروڑوں دلوں کی دھڑکن شہنشاہ وقت کے ماتھے پر اپنا ٹھنڈا ہاتھ تو رکھ دیتی ہے اور پھر طبیبوں عزیزوں کے سامنے چشم زدن میں زندگی کی سرخی چھین کر موت کی زردی دے جاتی ہے اور پھر شام کی زلفیں پھیلنے سے پہلے گدائے بے نوا اور تاجدار عالم اپنے اپنے حصے کی مٹی کی چادر اوڑھ کر پیوند خاک ہو جاتے ہیں۔
مرنے سے پہلے تقریبا ہر انسان موت کے شیشے میں اپنے گزرے وقت کی آب بیتی دیکھ لیتا ہے اگر اُس نے اپنی زندگی ظلم و جبر ‘ جھوٹ ‘ منافقت ‘ ریاکاری ‘ حق تلفی ‘ وعدہ خلافی ‘ حسد ‘ نفاق ‘ ریا کے ساتھ گزاری ہو تو موت یہی تحائف اُس کے سامنے لا کر رکھ دیتی ہے اور اگر مرنے والے نے اپنی زندگی احکام الٰہی ‘ شریعت محمدی ۖ کے ساتھ پیار محبت خلوص خدمت خلق رواداری حقوق العباد کے ساتھ حقیقی خدمت کی شمع جلائی ہو تو اُسے انوار کا گلدستہ پیش کر تی ہے لیکن اگر کو ئی انسان طاقت اقتدار دولت شہرت کے نشے میںزمینی فرعون کا روپ دھار کر زندگی موت کا تماشہ لگا لے ‘ لوگوں کو احشرات الارض کا درجہ دے پائوں تلے کچلنا شروع کر دے تو ایسے لوگوں سے پھر موت بھی روٹھ جاتی ہے اِیسے لوگ پھر موت کو ترستے ہیں لیکن موت انہیں بستر مرگ پر جان کنی کے عذاب میںڈال کر سرہانے کھڑی ہو کر اُس کا تماشہ دیکھتی ہے پھر مرنے والا اُس کے عزیز و اقارب ہر لمحہ موت کی چاپ تو سنتے ہیں لیکن موت وارد نہیں ہو تی ‘ لوگ پھر موت مانگتے ہیں لیکن موت قریب نہیں آتی ‘ موت ایسے لوگوں کو دوسروں کے لیے نشان ِ عبرت بنا دیتی ہے کہ یہ وہی شخص تھا جب اِس کی رگوں میں تازہ طاقتور خون دوڑتا تھا تو یہ سمجھتا تھا کہ اِس کا اقتدار دولت ہمیشہ اِس کے ساتھ رہے گی لیکن قافلہ شب وروز جب حرکت میں آتا ہے تو رگوں میں دوڑتا خون سرد جسم پر گرفت کمزورقدموں میںلرزش پھر بستر مرگ اور موت کا انتظار لیکن موت پھر دیر کرتی ہے عزیز و اقارب موت کی دعائیں مانگتے ہیں لیکن موت سرہانے کھڑی تماشہ دیکھتی ہے ایسا ہی ایک مریض اِس وقت میرے سامنے پڑا تھا زندہ لاش جو ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکی تھی ہڈیوں کو سیاہ پتلی جلد نے پکڑ رکھا تھا نہیں تو ہڈیاں کب کی بکھر چکی ہو تیں جسم کی کمزوری نقاہت کا یہ عالم کہ حرکت بھی نہیں کر سکتی تھی ‘ مریض بے جان ڈھانچے کی صورت میں لیٹا ہوا تھا منہ کھلا ہوا تھا جس میں مکھیاں مچھر آزادانہ آجا رہے تھے۔
سینے کے ارتعاش سے سانس کی آمدورفت کا اندازہ ہو رہا تھا مریض پچھلے دو سال سے شدید بیمار تھا ‘ شروع میںتو گھر والوں نے علاج کرانے کی کو شش کی لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دعا کی ‘ ہر گزرتا دن مریض سے صحت چھین لیتا گیا اور موت کے قریب کر تا گیا تما م ڈاکٹروں مسیحائوں کی کو ششوں کے باوجود مریض کمزور ہو تا گیا آخر کار پراسرار بیماری نے مریض سے ہوش و حواس چھین لیے ‘ مریض ہوش سے غنودگی پھر مستقل بے ہوشی میں ڈوبتا چلا گیا طویل بے ہوشی کے بعد ٹانگوں سے جان نکل گئی اب صرف پھیپھڑو ں میںحرکت جاری تھی باقی جسم لکڑی کا تختی بن چکا تھا طویل بے ہو شی بیماری کی مضبوط گرفت کی وجہ سے خوراک کی فراہمی کا سلسلہ بند ہو ا تو جسم نے اپنی ہی چربی گو شت کو کھانا شروع کر دیا اِس عمل سے جسم ہڈیوں کا ڈھانچہ بنتا چلاگیا اب سانس کی آمدورفت تھی اور ہڈیوں کا ڈھانچہ اور موت کا انتظار بستر مرگ پر پڑا مریض اور لواحقین دن رات موت کی دعائیں مانگ رہے تھے لیکن موت روٹھی ہوئی تھی۔
مریض کی یہ حالت دیکھ کر مجھے یہی مریض دس سال پہلے والا ملک صاحب یاد آگیا جس کے جسم میں طاقت چہرے پر اچھلتے کودتے خون کی حرارت سرخی اقتدار دولت کا نشہ اور دھاڑیں مارتا ہوا بے رحم انسان مجھے دس سال پہلے کا میاں بیوی کا جوڑا یاد آگیا دونوں کی شادی کی ابتدائی سال تھے لڑکی پر الزام لگایا گیا تھا کہ وہ ساس سسر پر جادو کرتی ہے وہ بیچار ی قسمیں قرآن اٹھاتی کہ میں آپ لوگوں پر جادو نہیں کرتی لیکن سسر صاحب اپنے فراڈی جھوٹے پیر صاحب کی باتوں میںآئے ہو ئے تھے کہ تم ہم دونوں میاں بیوی پر جادو کر تی ہو پیر صاحب کے حکم پر بار بار بہو کے کمرے الماری کی تلاشی لی جاچکی تھی جب تلاشی پر بھی تعویز نہ نکلے تو پیر صاحب نے خود آکر تلاشی کی دوران تلاشی خو د ہی تعویز رکھ دئیے تھوڑی دیر بعد نکال کر تماشہ لگا دیا کہ یہ دیکھو تم نے تعویز کئے ہیں کیونکہ جھوٹے پیر نے وہ تعویز خود گھر سے بنا کر لائے تھے وہ کاغذ کے ٹکڑے پر ساس سسر کے نام اور بکواسیات درج تھی بہو کو مجرم ٹہرایا اُس کے ماں باپ کو بلایا گیا کہ تمہاری بیٹی ہم پر جادو ٹونا کر تی ہے ہم نے اِس کو رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ہے بہو کے والدین کو بلا کر خوب بے عزتی کی گئی پھر یہ سلسلہ چل نکلا روز تعویز نکلنے کا ڈرامہ شروع ہو جاتا آخر کار بہو کو پہلی طلاق دے دی گئی سسر نے بیٹے کو مجبور کر دیا کہ تم اپنی بیوی کو ایک طلاق دو۔
بہو بیچاری نے اپنے ماں باپ کو میرے پاس بھیجا کہ خدا کے لیے میری زندگی بچالیں پھر جب ایک دن پھر سسر نے دربار لگایا بہو اِس کے والدین جج بن کر بیٹھ گئے پیر صاحب ملک صاحب کے ساتھ والی کر سی پر براجمان تھے بہو کے والدین اپنی مدد کے لیے مجھے بھی ساتھ لے آئے تھے سسر صاحب کو جب میرے بارے میں بتایا تو انہوں نے مجھے گھورتے ہو ئے کہا آپ پیر صاحب ہیں تو میں نے کہا فقیر ہوں پیر نہیںتو ساتھ بیٹھے پیر صاحب نے مجھ سے سوال جواب شروع کر دئیے دوران گفتگو جھوٹے پیر صاحب نے دعوے شروع کر دئیے کہ مجھے ہر بات کی خبر ہے میں سب کچھ جانتا ہوں میں نے عرض کی جناب میری جیب میں کتنے پیسے ہیں میںآج کیا کھا کہ آیا ہوں تو پیر صاحب کو چپ لگ گئی ان کے پاس کو ئی جواب نہیں تھا اب میں نے سسر صاحب سے کہا جو پیر میری جیب میں پڑے پیسے نہیں بتا سکتا وہ تعویز کیسے بتا تا ہے اب لڑکی کے باپ نے بولنے کی کو شش کی تو سسر دھاڑا او تم لڑکی والے ہو تم بولنے کا حق نہیں رکھتے جب باپ نے پھر بولنے کی کو شش کی تو سسر دھاڑتے ہوا اپنے بیٹے سے بولا اِس کی بیٹی کو تینوں طلاقیں دو اِ س کی جرات کیسے یہ لڑکی والا ہو کر بو لتا ہے تو بیٹی کا باپ اٹھ کر سسر کے پائوں سے لپٹ گیا جناب میں اپنی گستاخی کی مافی مانگتا ہوں مجھے معاف کر دو اب سسر دھاڑنے لگا تم لڑکی والے ہو تم گونگے ہو تم بول نہیں سکتے تم کو کسی نے یہ تمیز نہیں سکھائی سسر دھاڑ رہا تھا بیٹی کا باپ پائوں پکڑ ے معافیاں مانگ رہا تھا مجھ سے برداشت نہ ہوا میں آگے بڑھا سسر کی آنکھوں میں گھورا اور بولا تمہاری موت بہت در د ناک ہو گی خدا تم کو کبھی بھی معاف نہیں کرے گا یہ کہہ کر چلا آیا ‘ سال گزرتے چلے گئے بیٹی اور اُس کے والدین ذلیل ہو تے رہے پھر دوسال پہلے سسر صاحب بیمار ہو ئے تو بستر سے جالگے جب بیماری نے پڑا تو بہو اور اُس کا میاں آج مجھے پھر لے آئے فرعون کو سزا مل رہی تھی وہ بستر مرگ پر پڑ ا تھا بستر مرگ اُسے موت کی طرف بڑھنے نہیں دے رہا تھا اور میں خدا کے انصاف پر حیران کہ خدا کی لاٹھی حرکت میں آتی ضرور ہے چاہے دیر سے ہی میرا دم گھٹ رہا تھا میں کمرے سے باہر نکل آیا۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org