بلوچستان کے صوبائی دارالخلافہ کوئٹہ میں گذشتہ دنوں ہونے والی پاکستان کرکٹ بورڈ کے اجلاس میں بورڈ کی طرف سے ڈیپارٹمنٹل ٹیمیں ختم کرنے کے خلاف پی سی بی کے گورننگ بورڈ ممبران نے بھرپور مخالفت کی تھی جبکہ ان کے بعد ڈیپارٹمنٹل ٹیموں کو ختم نہ کرنے کی حمایت میں مختلف قومی کھیلوں کے سابق کپتان لیجنڈ میدان میں آگئے جن میں کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان جاوید میانداد، اسکواش لیجنڈ جہانگیر خان ،ہاکی کے سابق کپتان اصلاح الدین ،اورسابق ٹیسٹ کرکٹر سلیم جعفر شامل ہیں،پاکستان کے عظیم کھلاڑیوں نے کہا ہے کہ ایسے اقدامات سے ملک میں کھیلوں کا شعبہ مزید پستی کا شکار ہوگا۔ملک میں پہلے ہی کھیلیں زوال پذیر ہیں،کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود اور روزگار کو بچانے کے لیے کراچی میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں جہانگیر خان، اصلاح الدین، جاوید میانداد اور سلیم جعفر شریک ہوئے۔
اس موقع پرکرکٹ کے عظیم کھلاڑی سابق کپتان جاوید میانداد نے کہا کہ اگر ڈپارٹمنٹ نہ ہوتے تو آج عظیم کھلاڑیوں میں جہانگیر خان اور جاوید میانداد بھی نہ ہو تے ا نہوں نے کہا کہ جب تک ڈپارٹمنٹ صحیح چل رہے تھے ہمیں اسپورٹس میں کامیابیاں ملتی رہیں۔اور ان سے قومی سطح پر کھلاڑی بھی ملتے رہے جو بین الاقوامی سطح پر ملک کا نام روشن کرتے تھے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی حالات کا خراب ہونا ہے کیوں کہ جب کھلاڑیوں کے پاس کھانے اور گھریلو اخراجات کیلئے روز گار نہ ہوگا تو میڈل کہاں سے لائیں گے، قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان جاوید میاں داد نے کہا کہ ملک کے معاشی حالات پہلے ہی خراب ہیں اور ڈپارٹمنٹ بند کرکے لوگوں کو بے روزگار کر کے پریشانی میں ڈالا جارہا ہے، اداروں کے سپوٹس ڈیپارٹمنٹ کا بند ہونا کھلاڑیوں کامعاشی قتل ہے۔
سابق کپتان جاوید میانداد نے کہاکہ وزیراعظم عمران خان بھی بطور کھلاڑی ڈیپارٹمنٹ اور کاؤنٹی کی طرف سے کرکٹ کھیلتے رہے ہیں جاوید میانداد نے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے اپیل کی کہ وہ خود کھلاڑی ہیں ،ڈیپارٹمنٹ ٹیمیں ختم کر کے ان کو بیروزگار نہ کریںاسکواش کے سابق عالمی چیمپئن لیجنڈ جہانگیر خان کا کہنا تھا کہ وہ ڈپارٹمنٹ کے بند ہونے کے حق میں نہیںکیونکہ مجھے بھی ڈپارٹمنٹ نے سپورٹ کیا تھا، اگر اس وقت مجھے ڈپارٹمنٹل سپورٹ نہ ملتی تو شاید میں عالمی چیمپئن اور اسٹار نہ بن پاتا۔جہانگیر خان نے کہا کہ کھلاڑی کے کھیلنے کے لئے ایک عرصہ ہوتا ہے وہ ساری زندگی اسپورٹس نہیں کھیلتا اس کی ایک خاص عمر ہوتی ہے۔
کھلاڑی کو اس دوران سپورٹ ڈیپارٹمنٹ ہی کرتے ہیںانہوں نے کہا کہ موجودہ دور میں اسپورٹس میں ڈگریاں دیکھی جارہی ہیں تاہم جس کھلاڑی نے ساری زندگی کھیل کے میدان کو دے دی ہووہ ڈگری کہاں سے لائے جہانگیر خان نے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے اپیل کی کہ وہ ڈپارٹمنٹل ٹیمیں ختم نہ کریں بلکہ ان کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کریں۔سابق ٹیسٹ کرکٹر سیلم جعفر کا کہنا تھا کہ ڈپارٹمنٹس بند ہونا کرکٹ کے لیے نقصان دہ ہوگا، جس طرح ہاکی اور اسکواش کا براحال ہوا اب ایسے اقدامات سے کرکٹ کا ہونے جارہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ پہلے یو بی ایل سپورٹس ڈپارٹمنٹ بند ہوا اور اب حبیب بنک نے کھیلوں کا ڈپارٹمنٹ بند کردیاسلیم جعفر نے مزید کہا کہ ہم نے تو جتنی کرکٹ کھیلنی تھی کھیل لی اب نئے آنے والے لڑکوں کو تحفظ چاہیے اورانکو کرکٹ سے دور نہ کریں۔
سابق ہاکی اولمپئن اصلاح الدین نے کہا کہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ کھیلوں کو قومی اور بین الاقوامی کھلاڑی دینے والے اداروں کے سپورٹس ڈپارٹمنٹ بند کرکے سپورٹس کو تباہی کی طرف دھکیلا جارہا ہے اگر ان کو بند کرنا ہے تو اس کا متبادل سامنے لائیں، یہ بند ہوگئے تو کھلاڑی بے روزگار ہو جائیں گے اور ان کے گھروں کے چولہے بھی بند ہوجائیں گے۔انہوں نے مزید کہا کہ میں کسٹم میں بطور کھلاڑی آیا اور ڈپارٹمنٹ نے مجھے باعزت روزگار دیا، جس کی وجہ سے میں آج اس مقام پرپہنچا ہوں۔
اصلاح الدین نے کہا کہ آج جتنے لیجنڈ یہاں موجود ہیں سب کو ڈپارٹمنٹ نے سپورٹ کیا اور اس کی وجہ سے آج اس مقام پر پہنچنے ہیں ،ہم اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں اور ان سے ہماری اپیل ہے اور مطالبہ بھی ہے کہ پی سی بی کو ہدایت کی جائے کہ ڈیپارٹمنٹل ٹیموں کو ختم نہ کرے بلکہ جن ڈیپارٹمنٹوں نے سپورٹس کے شعبے بند کر دئیے ہیں ان کو بھی فوری طور دوبارہ فنکشنل کر کے کھلاڑیوں روزگار فراہم کیا جائے تاکہ وہ فکر معاش سے آزاد ہو اپنی بھر پور توجہ کھیل پر دیکر اپنی کارکردگی کو مزید بہتر کر سکیں۔