چین: پاکستانیوں کی لاپتہ ایغور بیویاں رہا مگر شرائط کے ساتھ

Chinese Wife

Chinese Wife

چین (جیوڈیسک) پاکستانی شوہروں کی وہ ایغور بیویاں جو 2017ء میں لاپتہ ہو گئی تھیں، انہیں اب رہا کر دیا گیا ہے۔ تاہم ان کے شوہروں کا کہنا ہے کہ ان کی یہ رہائی اس قیمت پر ہوئی ہے کہ انہیں چینی معاشرے میں انضمام کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔

چین کے مغربی صوبہ سنکیانگ سے تعلق رکھنے والی 40 کے قریب ایسی خواتین، جن کی شادی ہمسایہ ملک پاکستان سے تعلق رکھنے والے تاجروں سے ہوئی تھی، 2017ء کے دوران چینی حکومت کی طرف سے شدت پسندی کے خلاف آپریشن کے دوران سے لاپتہ تھیں۔ یہ اُن قریب ایک ملین افراد میں شامل تھیں، جنہیں چینی حکومت کی طرف سے قائم کردہ حراستی مراکز میں رکھا گیا ہے۔ ان مراکز پر عالمی سطح پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے تاہم چین کا موقف ہے کہ یہ حراستی مراکز نہیں بلکہ پیشہ ورانہ تربیت کے مراکز ہیں۔

زیر حراست رہنے والے بعض افراد پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ انہیں محض اس وجہ سے ان کیمپوں میں رکھا گیا کیونکہ وہ اسلامی شعار پر عمل کرتے تھے جن میں داڑھی رکھنا یا نقاب کرنا وغیرہ شامل ہیں۔

رہا ہونے والی ان خواتین کے شوہروں کا کہنا ہے کہ انہیں حراست کے دوران اور رہائی کے بعد بھی اس بات پر مجبور کیا گیا کہ وہ ایسے کام کریں جو اسلام میں حرام ہیں۔

سنکیانگ میں اپنے سسرال کے گھر حال ہی میں جانے والے ایسے ہی ایک تاجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا، ’’اس نے (میری بیوی) نے بتایا کہ انہیں سور کا گوشت کھانا پڑتا تھا اور شراب پینی پڑتی تھیں۔ اور یہ سب اُسے اب بھی کرنا پڑتا ہے۔‘‘

اس تاجر کے مطابق اس کی بیوی کو دھمکی دی گئی ہے کہ اگر وہ واپس نہیں جانا چاہتی تو اسے حکام کی تسلی کے لیے یہ سب کام ابھی بھی جاری رکھنا ہوں گے اور اسے مذہبی خیالات ترک کرنا ہوں گے۔ صرف یہی نہیں بلکہ اس کے سسرال میں موجود قرآن کی جگہ اب چین سے متعلق کُتب فراہم کی گئی ہیں۔

چین کی قدیم شاہراہِ ریشم پر واقع شہر کاشغر میں دن میں تین بار الارم بجتا ہے اور دکاندار حکومت کی طرف سے دیے گئے لکڑی کے ڈنڈے تھامے فوراً اپنی دکانوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں منظم کی جانے والی ان انسدادِ دہشت گردی مشقوں کے دوران یہ دکاندار چاقو لہرانے والے فرضی حملہ آوروں کے خلاف لڑتے ہیں۔

پاکستان سے تعلق رکھنے والے بعض تاجروں کا خیال ہے کہ ان کی بیویوں کو پاکستان سے تعلق کی بناء پر ہی حراست میں رکھا گیا۔ زیر حراست رہنے والے بعض افراد پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ انہیں محض اس وجہ سے ان کیمپوں میں رکھا گیا کیونکہ وہ اسلامی شعار پر عمل کرتے تھے جن میں داڑھی رکھنا یا نقاب کرنا وغیرہ شامل ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق سنکیانگ میں بنائے گئے حراستی مراکز کے خلاف بین الاقوامی برادری کے بڑھتی ہوئی تنقید اور چین کے پاکستان کے ساتھ معاشی تعلقات بڑھنے کے بعد چینی حکام نے دو ماہ قبل ایسی خواتین کو رہا کرنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔

پاکستانی علاقے گلگت بلتستان کی حکومت کے ترجمان فیض اللہ فراق نے تصدیق کی ہے کہ پاکستانی تاجروں کی ایغور مسلمان بیویوں کی اکثریت کو رہا کیا جا چکا ہے۔ گلگت بلتستان کا علاقہ چین کی سرحد کے ساتھ واقع ہے۔

اے ایف پی نے ایسے نو شوہروں کا انٹرویو کیا جنہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ ان کی بیویوں کو آئندہ تین ماہ تک سنکیانگ چھوڑنے کی اجازت نہیں، جس دوران ان پر گہری نگاہ رکھی جائے گی۔ قیمتی پتھروں کا کاروبار کرنے والے ایک تاجر کے مطابق اس کی بیوی کی رہائی کی شرط یہ کہ ’’وہ چینی طرز معاشرت اختیار کرنے کے حوالے سے اس کے رویے پر نظر رکھیں گے اور اگر انہیں لگا کہ وہ ان کے معیار پر پورا نہیں اتر رہی تو پھر اسے دوبارہ واپس بھیجا جا سکتا ہے۔‘‘

ایسے خاندانوں کے مطابق انہیں اپنی بیویوں اور ماؤں کی واپسی کی خوشی تو بہت ہوئی لیکن یہ خواتین اب ایک طرح سے ان کے لیے اجنبی بن کر رہ گئی ہیں۔ پتھروں کا کاروبار کرنے والے اس تاجر کے مطابق، ’’میری بیوی نے بتایا کہ اسے رقص پر مجبور کیا جاتا تھا اور اسے جسم کو آشکار کرنے والے کپڑے پہنے اور کیمپ میں شراب پینے پر مجبور کیا جاتا تھا۔‘‘ اس تاجر کے مطابق اس کی بیوی کے پاس رہنمائی کی ایک کتاب ہے جس میں مختلف چی‍زوں کو سبز اور سرخ رنگ سے واضح کیا گیا ہے، مثال کے طور پر مسجد پر سرخ نشان لگایا گیا ہے جبکہ چینی پرچم کو سبز نشان سے واضح کیا گیا ہے۔

اس تاجر کے مطابق، ’’پہلے وہ باقاعدگی سے نماز پڑھتی تھی مگر اب ایسا نہیں ہے جبکہ وہ اب کبھی کبھی ریستوران میں جا کر شراب بھی پیتی ہے۔‘‘