یکم مئی مزدوروں کے دن کے حوالے سے جانا جاتا ہے۔اسی مناسبت سے اس دن کو ”یوم مزدور ڈے“ کہتے ہیں۔اس روز پوری دنیا میں یوم مزدور ڈے کے نام پر مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے مختلف سیمینار،کانفرنسز،تقریبات منعقد کی جاتی ہیں،جس میں تقاریراور مباحثے ہوتے ہیں۔مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے سیر حاصل گفتگو کی جاتی ہے۔ان کے حقوق کے متعلق آگاہی اور ادائیگی حقوق کے سلسلے میں کافی باتیں کی جاتی ہیں۔مزدوروں کے حقوق پر زور دیا جاتا ہے۔مزدوروں کے معاشی استحصال اورمحرومیوں کا رونا رویا جاتا ہے،ان کے حقوق ادا کرنے اور حق تلفی نہ ہو،کادرس دیا جاتا ہے۔ اور آئندہ کے لیے سہانے سپنے دکھانے اور سجانے کے بعد مزدوروں کے ساتھ یکجہتی کے لیے فوٹوسیشن بھی کیے جاتے ہیں۔ مقررین کی طرف سے مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے تیز و تندفقروں،اعلیٰ سوچ و وچار پرمبنی خیالات اور آسمان کی حدوں کو چھوتے بلندوبانگ دعوے اور اب ”ایسا نہیں چلے گا“جیسی باتیں،انتہائی دلفریب،دل کو موہ لینے والے انداز سے ایسے کی جاتی ہے،جیسے اب سب ٹھیک ہوجائے گا۔مزدور خوشحال ہو گا۔
بے روزگاری و مہنگائی کم ہوگی۔ہرطرف خوشحالی کا دوردورہ ہوگا،باالخصوص مزدور کو اس کے جملہ حقوق ملنے لگیں گے،ناانصافی نہیں ہوگی،حق تلفی کا تو ذرا سا بھی شائبہ نہ ہوگا،ترقی وخوشحالی کی نہریں بہنے لگے گی،مزدور کا استحصال اب نہیں ہوگا۔ مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتااور نہ ہی ایسی کسی سوچ کو پذیرائی اور تعبیرملتی۔نہ ہی مزدور کے دن بدلتے،نہ ہی مزدور کے آنگن میں خوشحالی آتی،نہ ہی مزدور کے حقوق کا خیال رکھا جاتا،نہ ہی مزدور خوشحالی دیکھتا۔وہی جگہ،وہی ماحول،تبدیلی اور بہتری ناپید۔بس ایک ڈرامہ،ڈھونگ ہے۔
مزدور ڈے کے نام پر،انٹرنیشنل لیول پربزنس مینوں،مقتدر حلقوں کامزدوروں کو طفل تسلیاں اور حالات اب سدھرے گیں،کے سہانے سپنے دکھائے،بچھایاہوا ایک تاش وشطرنج کا کھیل ہے،جس کے سارے پتے اور ساری گوٹیاں اب کے باربھی مزدور کے گھر پر ہی بجلیاں بن کر گرے گی اور فائدہ پہلے کی طرح اب بھی سرمایہ دار ہی اٹھائے گا۔مزدور کے حصے میں کڑکتی،چلچلاتی دھوپ میں دن رات پسینہ ایک کیے صرف چند ٹکے ہی ہاتھ آئیں گے۔جن کو ہر ماہ بطور مزدوری ادا کرتے وقت بھی اکثر مالکان کے ہاتھ کانپتے ہیں۔اکثر کو تو تنخواہ کی یہ ادائیگی بھی ”بارعظیم“اور جان جوکھوں والا کا م لگتا۔اس موقع پر بعض کا تو بس نہیں چلتا کہ دے کر چھین لیں۔ایسے لوگ باتیں کرتے ہیں تو آسمان میں قلابازیاں تک لگا جاتے ہیں۔جوتی کپڑا اچھا پہنا ہو یا امارت کے غرور میں مبتلا ہوتواپنے مخاطب کو طنزا ایسی باتیں کر جاتے ہیں کہ انسان کے رتبے اور شان کے بھی منافی ہوتی ہیں اور زبان چلاتے ہوئے پل بھر کے لیے بھی نہیں سوچتے کہ کیا کہے جارہے ہے اور کیوں کہے جا ہے ہیں۔
اللہ نے ایسے لوگوں کو پیسہ کیا دے رکھا ہے،بعض اس وجہ سے اوقات اور آپے سے باہر نظر آتے ہیں۔بعض فیکٹریوں /یونٹوں /دفاترزمیں تو تنخواہ بھی ایسے دیتے ہیں جیسے تنخواہ نہ سہی،خیرات دے رہے ہیں۔بس ان پیٹ بھرے خاص ٹولے کابس نہیں چلتا، ورنہ اس سے بھی محروم کردیں یا تنخواہ دینا جھوٹ ہوجائے۔ایسے لوگ جب بات کرنے پر آجائیں،خاص طور پر یوم مزدورپر تقریر کرنا ہوتو ایسی ایسی لچھے دار،دل کو لبھا دینے والی باتیں کرتے ہیں کہ،وہ مزدور جو ایسے بندوں کے ماضی حال مستقبل سے خوب واقف ہوتے،بھی ان کی شاندار تقریر سن کر شرما جاتے۔
مزدوروں کے حقوق پر ”کنڈلی مارے سانپ“ کی طرح بیٹھے ہوتے ہیں مگر باتیں بڑی دل لبھادینے والی کریں گے اوراگرسننے والے اپنی گھریلو مجبوریوں کے باعث ا نتہائی مجبور ہوتو پھر ایسے لوگوں کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔اس کے علاوہ تنخواہ بناتے ایک ایک منٹ کا حساب رکھتے،اکثر کم ہی بناتے اور مزدور نے اضافی ٹائم لگایا ہوتا ہے،اس بابت اوورٹائم دینے کی بات آجائے تو بیمار پڑجاتے۔(اس موقع پر اگر کسی وجہ سے ایسے لوگوں پر قہرالہیٰ نازل ہوجائے تو پھر خانہ کعبہ،مدینہ منورہ میں جا کر درستگی حالات کی دہائیاں،التجائیں،دعائیں کرتے نظر آتے،مگر حقوق مزدوراں ادا کرنے کی طرف نہیں آتے)اگر کوئی تنخواہ میں کٹوتی /کمی بیشی یا اوور ٹائم سے محرومی پر صدائے احتجاج بلند کرے یا کوئی بات /اختلاف کرے تو اسے گیٹ بند اور نو انٹری کا تحفہ دیکر وہاں سے چلتا کرتے ہیں۔ایسے لوگ بڑے سیاہ کار،مکار،دغاباز ہوتے ہیں،کسی ناگہانی/ آسمانی ا ٓفت کے نتیجے میں تباہ وبرباد ہوجاتے ہیں مگر بندوں کا حق جو ان کے ذمے ہے،ادا نہیں کرتے۔مزدور کے حقوق ادا نہ کرنے اور اس کے معاشی استحصال پر لمحہ بھر کے لیے بھی شرمندہ نہیں ہوتے۔انسانیت کے احساسات سے عاری لوگ،سمجھتے ہیں کہ شاید وہ اللہ کے حضور”غضب حقوق،بندگان خدا“پرجیسے جوابدہ ہی نہ ہو۔