بھاگ بھری

Laborr Day

Laborr Day

تحریر : وقار انساء

بان کی چارپائی پر بیٹھا عنائت رنگ برنگے کاغذوں سے پرندوں کے پر بنا رہا تھا اس کے سامنے رکھے بانس کے ٹوکرے میں مٹی کے کھلونے تھے کچھ پرندوں کے اصلی پر بھی تھے وہ کسی کو کاغذ کے پر لگا رہا تھا اور کسی کو اصلی تین پہیوں والا ریڑھا بہت بکتا تھا گتے کے بنے پہیوں والے ریڑھے کوجب بندھے دھاگے سے پکڑ کر بچے چلاتے تو آواز دیتا۔ عنائت مزدور تھا شہر میں ایک عمارت کا کام کرتے ہوئے گر کر پاں سے معذور ہو گیا تھا ان کا گھر گاں کے قریب ایک بستی میں تھا اس کی بیوی بھاگی اور دونوں بیٹاں مٹی کے کھلونے بناتیں اور انہیں رنگ کرتیں اور وہ ریڑھوں گاڑیوں میں دھاگے باندھتا پرندوں کے پر بناتا وہ اپنے کام میں مشغول تھا کہ کاکے کی چیخ وپکار سن کرادھر متوجہ ہو گیا۔

ناں ناں ناں۔کاکا اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا جب کہ اسکی ماں اسے قابو کرنے کی کوشش کر رہی تھی
یہ کیا کر رہی ہے بھاگ بھری؟ مت باندھ اسکو چارپائی کے ساتھ عنائت نے کہا دیکھ نہیں رہا تو اسکا زخم؟ بھاگ بھری نے زہر آلود نظروں سے خاوند کو دیکھا کل گاں بھاگ گیا تو بچوں نے اس کو پتھر مار کر زخمی کر دیا تو تو پڑا سو رہا تھا وہ تو میں گاں کی دکان سے تھوڑا آٹا اور چائے کی پتی لے کر نکلی تو اسے دیکھا بچے تو مجھے دیکھ کر بھاگ گئے اسکے ماتھے سے خون نکل رہاتھا وہ تو بھلا ہو اس نیک آدمی کا جو راستے میں ملا اور گاں کی ڈسپنسری سے اسکا زخم صاف کروا کر پٹی کروا دی۔

آج گھر سے نکلا تو پھر کہیں وہ بچے اسے نہ ماریں اس لئے باندھ رہی ہوں۔ تو تو اٹھ نہیں سکتا بالی اور لالی سے یہ کہاں قابو آتا ہے بھاگی نے اپنے دوپٹے کا پلو دوہرا تہرا کیا اور منہ سے بھاپ دے کر کاکے کے ماتھے کی ٹکور کرتے ہوئے کہا کاکا چلایا اس کے آنسو اسکی بہتی رالوں میں شامل ہو رہے تھے اس نے ماں کے ھاتھ پر کاٹ لیا۔بھاگ بھری نے درد سے بلبلا کر کاکے کو پرے دھکیلا اس کا سر چارپائی کے پائے سے جا ٹکرایا۔

مت کر بھاگ بھری یہ روتا رہے گا اسے کیا سمجھ ہے؟
بھاگ بھری وہ بڑبڑائی مت کہا کر مجھے بھاگ بھری معذورشوہر پاگل بیٹا اور دو بیٹیوں کا ساتھ بھاگ بھری ہی ہوں میں اسکے لہجے میں کڑواہٹ گھل گئی۔

گھر میں کھانے کو کچھ نہیں کیا کروں میں؟گاں تو زیادہ بکتے نہیں آج کھلونے بیچنے جاں گی شہر اسکا اشارہ گا ں سے تھوڑی دور چھوٹے سے قصبے کی طرف تھا۔اس نے رسی سے کاکے کا پاں باندھ کر چارپائی کے پائے سے باندھ دیا
ہوں ہوں۔ کاکے نے روتے ہوئے اپنی ماں کو دھکیلا ارے بالی چھابے میں دو روٹیاں رکھی ہیں چائے بنا کر اپنے ابے اور کاکے کو ایک دے دینا اور دوسری تم دونوں کھا لینا تھوڑا سا آٹا ہی تو کل لائی تھی آج شہر جانے کا کرایہ بھی تو چاہیے تھا مٹی کے کھلونے کم ہی اب بکتے ہیں اب تو لوگ دکانوں سے اچھے کھلونے لے لیتے ہیں۔اسکے لہجے میں مایوسی تھی۔

اماں چوٹ کی وجہ سے رات کاکے کو بخار بھی تھا اسکی دوا لیتی آنا
اماں شہر سے پکوڑے بھی تو ملتے ہیں میرے لئے تھوڑے سے لے آنا لالی نے حسرت بھرے لہجے میں کہا
روکھی سوکھی روٹی مل جائے تو بڑی بات ہے تجھے پکوڑے کھانے ہیں اس نے کھا جانے والی نظروں سے بیٹی کو دیکھا
کھلونے بک گئے ناں کچھ پیسے آٹا دال لے کر بچے تو لیتی آنگی
بالی کی مدد سے کھلونوں کا ٹوکرا اس نے سر پر رکھا پیچھے مڑ کر کاکے کو دیکھا وہ کیوں خاموش ہو گیا تھا؟
بخار اور درد سے ہلکان ہوکروہ زمین پر بے سدھ پڑا تھا اس پر غنودگی طاری تھی۔بھاگی نے اپنے آنسو چھپاتے ہوئے باہر کا رخ کیا۔

انکی بستی گاں سے کچھ ہی دور تھی گاں سے گزر کر وہ سڑک تک آگئی جہاں سے شہر یعنی چھوٹے سے قصبے کو جانے کے لئے بس ملتی تھی اور دو اڑھائی گھنٹے بعد ایک بس آتی تھی
کافی رش تھا اڈے پر وہ بھی ٹوکرا زمین پر رکھ کر انتظار کرنے لگی
اتنی دیر میں دور سے بس آتی دیکھ کر سب سواریاں سوار ہونے کے لئے مستعد ہو گئیں
بابو ذرا میری مدد کرنا یہ ٹوکرا سر پر رکھوا دینا بھاگ بھری نے کتنے لوگوں سے کہا مگر سب ان سنی کر کے پرے ہو گئے۔

ٹوکرا سر پر رکھ کر کیسے سوار ہو گی؟ دیکھ نہیں رہی ہو کتنا رش ہے ؟ایک آدمی بیزاری سے بولا
بس آکر رک چکی تھی اور سواریاں دھکا پیل کرتی سوار ہو رہی تھیں بھاگ بھری اپنا ٹوکرا اوپررکھنے کی کوشش میں اپنی پرانی چپل بھی توڑ بیٹھی۔ سب سوار ہو گئے تو خدا خدا کر کے اس نے بھی یہ معرکہ سر کیا اسکی سانس اتھل پتھل ہو رہی تھی پیاس کی شدت سے ہونٹ خشک ہو رہے تھے اس کے بال بکھر گئے تھے اس نے دھجی نما دوپٹے سے ان کو سمیٹا۔ ٹوٹی چپل کو ٹوکرے میں رکھا اور بمشکل تمام پائیدان پر کھڑی ہو گئی۔اسی اثنا میں کنڈ یکٹر کرایہ وصول کرتے سواریوں میں پھنسا اس تک آ پہنچا۔

او مائی اس کو تو ہٹا یہاں سے اسں نے پاں سے ٹوکرے کو ٹھوکر لگائی
کہاں رکھوں اسے؟؟ جگہ نہیں ہے دیکھ توڑ نہ دینا مٹی کے کھلونے ہیں اس میں بھاگی بولی
جگہ نہیں تھی تو سوار کیوں ہوئی ہو بس میں؟ کنڈیکٹر کا لہجہ تلخ تھا
چل کرایہ نکال
بھاگی نے دوپٹے کے کونے سے بیس کا مڑا تڑا نوٹ نکالا اور اس کے ھاتھ پر رکھ دیا
دس اور دے
اور تو نہیں میرے پاس پھر دے دوں گی بھاگی نے ملتجی نظروں سے اس کو دیکھا
نکال پیسے ورنہ یہیں اتار دوں گا سب سواریوں کو تنگ کیا ہواہے اوپر سے کرایہ بھی پورا نہیں دے رہی۔ چل اب جلدی کر ور نہ تیرا ٹوکرا اٹھا کر باہر پھینکوں گا کنڈیکٹر خود کوحاکم سمجھ رہا تھا
تجھے کتنی دفعہ کہا ہے مت بٹھایا کر بس میں ان لوگوں کو تجھے بھی سمجھ نہیں آتی ڈرائیور نے اپنے سامنے لگے شیشے میں دیکھتے ہوئے کنڈیکٹر پر رعب جھاڑا تیرا بھی بندوبست کرتا ہوں کل سے نہیں رکھوں گا اپنے ساتھ ڈرائیور نے گلے کے بٹن کھول کر کالر پیچھے جھٹکے
اب کنڈیکٹر بھاگی پر تپ گیا۔

پیسے نہیں تو آئی کیوں ہو تمھارے مامے کی گاڑی ہے کیا؟ چوری چکاری کے لئے سوار ہو جاتی ہے بس میں
میں محنت مزدوری کرتی ہوں چور نہیں ہوں میں بھاگی نے بھی تیز لہجے میں کہا
گاڑی روک استاد کنڈیکٹر نے کہا ڈرائیور نے کانوں کو پھاڑتی آواز میں بجنے والے ٹیپ ریکارڈرکی آواز کم کی اور گاڑی روک دی
اتار گاڑی سے اسے ڈرائیور دھاڑا
خدا کا خوف کر یہاں کیوں اتار رہا ہے ابھی تو شہر دور ہے اور گاں سے بھی کافی آگے بس نکل آئی ہے بھاگ بھری نے ھاتھ جوڑ دئیے سب مسافر بے حسی سے بیٹھے تماشا دیکھ رہے تھے
چل مائی ڈرامے نہ کر سواریاں تنگ ہو رہی ہیں یا کرایہ دے یا نیچے اتر
میں نے کہا ناں کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں ہوتے تو دے دیتی
کنڈیکٹر نے اس کا ٹوکرا اٹھایا اور زورسے سڑک پر پھینکا اور بھاگی کی بازو پکڑ کر نیچے دھکیل دیا
ابھی توشہر بہت دور ہے میں کیسے جاں گی اس نے منت کرتے اسکا دامن پکڑ لیا مگر اس نے اسے جھٹکے سے دور کر دیا اور بس چلنے لگی۔

میرے پیسے تو دو اس کی آواز بھرا گئی
بس میں ہی آئی ہو ناں یہاں تک کنڈیکٹر بولا مفت میں تو سفرنہیں کیا
۔گھر میں یہی تو پیسے تھے جو وہ لے آئی تھی تاکہ قصبے تک پہنچ سکے
ابھی آدھا سفر باقی تھا پیسے بھی نہیں تھے کیا کرے؟
یا خالی ھاتھ گھر لوٹ جائے یا پیدل قصبے پہنچ کر قسمت آزمائے ۔
اس نے کھلونوں سے دھاگہ توڑ کر ٹوٹی چپل کو جوڑا پھر وہ پیدل چل دی ۔پاں میں پہنی پرانی چپل پھر ٹوٹ گئی بالاخر وہ منزل تک پہنچ ہی گئی کچھ کھلونے ٹوٹ گئے تھے گلی کے موڑ پر لگے نلکے سے پانی پیا منہ پر پانی کے چھینٹے ڈالے اور ہمت کرکے گلیوں میں آواز لگاتے گھومنے لگی۔کافی دیر ننگے پاں چل چل کر لمبی دم والے گھوڑے کھٹ کھٹ چلتے دو تین ریڑھے بکے اور رنگ برنگے پر
چڑیا اب اس کے پاس کچھ پیسے ہو ئے تھے۔

کتنے دن لگا کر انہوں نے یہ کھلونے بنائے تھے اسکا شوہر چارپائی پر بیٹھا کاغذ سے پرندوں کے پر بناتا اور پھر ان کو رنگ کرتا ریڑھوں میں دھاگے باندھتا چھوٹی چھوٹی ھانڈیوں اور گھڑوں کو رنگوں سے سجاتا۔چلتے چلتے وہ تھک کر گلی کی نکڑ پر بیٹھ گئی
یہ کبوتر کی جوڑی کتنے کے ہے ایک عورت اپنے بچے کے ضد سے مجبور پوچھ رہی تھی
تیس کی ہے جی اس نے بتایا
اتنی مہنگی؟بیس کی دینی ہے تو دے دو
کتنی مشکل سے وہ کبوترکے اصلی پر جمع کرکے وہ کبوتر بناتے کہ حقیقت کا گمان ہوتا تھا
بھاگی نے کچھ سوچ کر اسے جوڑی پکڑا دی ننگے پاں گرم زمین سے جل رہے تھے واپسی پر آٹا بھی لے جانا تھا لالی کے لئے پکوڑے لے یا اپنی جوتی: پیٹ بھی بھوکاتھک بھی گئی تھی واپسی پرکرایہ بھی تو چاہیے۔کیا پتہ بس والا بٹھائے گا بھی یا نہیں؟

labor Day

labor Day

قریب کھڑے قلفی والے سے وہی عورت بیس بیس روپے کی دو قلفیاں لے رہی تھی ایک بیٹے کے لئے اور ایک اپنے لئےسامنے سے آتے ہٹے کٹے فقیر نے صدا لگائی اللہ کے نام پر کچھ دے دو وہ عورت کچھ سکے اس کے کاسے میں بھی ڈال گئی۔ بھاگی نے دیکھا اسکے کاسے میں اسکی سارے دن کی محنت سے زیادہ پیسے تھے اگر وہ عورت کبوتر تیس میں لے لیتی تو میں ان سے چپل لے لیتی یا لالی کے لئے پکوڑے۔ڈسپنری سے کاکے کے لئے کھانسی کا شربت بھی تو لے کر جانا تھا ساری رات وہ کھانس کھانس کر بے حال ہوتا رہا۔یہ لوگ آخر مزدور کو اس کی محنت کا حق بھی کیوں نہیں دیتے؟؟ اس نے اپنی بھیگی آنکھوں کو دوپٹے سے صاف کیا ٹوکرا سر پر رکھا اور خود سے بولی چل بھاگ بھری تیرے اور تیرے بچوں کے بھاگ میں رات کی روٹی تو ہو گی آج اسکی چھٹی نہیں ہو گی۔

تحریر : وقار انساء