اصل کامیاب اساتذہ کرام

Woman

Woman

تحریر : شاہ بانو میر

میری زندگی کا مقصد تیرے دین کی سرفرازی
میں اسی لئے مسلماں میں اسی لئے نمازی

دنیا بھر میں آج عورت کی کامیابی کا تناسب ہمیں
صرف ایک ہی شعبے میں بڑہتا ہوا دکھائی دیتا ہے
جو لمحہ فکریہ ہے
غیر فطری غیر متوازن انداز معاشرے کا توازن بگاڑ کر
ایسی کھائیاں پیدا کر رہا ہے
جس میں ہمارا معاشرہ گرتا چلا جا رہا ہے
ہمارے اوصاف سب کے سب کہیں کھو گئے
رشتوں کا مقام تقدس احترام اور پائیداری بے وقعت کر دی گئی
اسلام نے جس جاہلیت کو 23 سال میں نابود کیا
آج 1400 سال بعد وہی جاہلیت جدید لباس میں پھر سے حملہ آور ہو چکی ہے
دیار غیر میں مقیم مسلمان سرد موسم میں بے جان معاشرے میں نسلیں گُم کر رہے تھے
نجانے
کس کی دعا اللہ نے سنی اور ہمارے پاس ٹیکنالوجی کے بہترین استعمال سے
اساتذہ کرام کے قرآن پاک کے لیکچرز پر مبنی آڈیو پہنچنے شروع ہوئے
نہ تصویر نہ تشہیر نہ ذکر
صرف کام صرف کام
تاثیر دلوں پر ہوئی
مقصد امت کو جگانا انہیں بچانا تھا
مقصد اتنا نیک ہو اور اللہ کی رضا شامل ہو تو
کیسے ممکن ہے
ان کا ذکر دنیا بھر میں یہاں سے وہاں نہ ہو؟
سبحان اللہ
نمود و نمائش سے عاری یہ پیارے اساتذہ کرام
امت کی بھلائی خیر کیلئے دن رقت وقف کئے ہوئے ہیں
ہمیں سوتے سے جگایا
دین گمشدہ میراث تھی
اللہ کی کتاب سے کھلوا کر ہمیں نئی پہچان دی
اعتماد حوصلہ وقار دیا
نہ کوئی میڈیا نہ کوئی ادارہ نہ ہی تشہیری ٹیم
مگر
کام ایسا کہ مائیں بچا کر نسلیں محفوظ کروا لیں
سبحان اللہ

آٰل عمرٰن 195
“”تو ان کے پروردگار نے ان کی دعا قبول کر لی
(اور فرمایا )
کہ
“”میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو مرد ہو یا عورت ضائع نہیں کرتا””
اسلام نے ہمیں کیا حیثیت دی ہے اساتذہ کرام کی وساطت سے پتہ چلا
اسلام نے عورت کی حیثیت کو قوانین وضع کر کے طاقت فراہم کی
کسی عورت کے شوہر کے انتقال کی صورت
کہ
وہ عورت صاحب اولاد بھی ہے تو
شوہر کی وفات کے بعد اس کے لئے ترکے کا آٹھواں حصہ مقرر کیا گیا

بہن ہے تو بھائی کی نسبت آدھے حصے کی حقدار ہے

واحد وارث ہونے کی صورت کل ترکے کا نصف ہے

دو یا دو سے زائد ہیں تو ایک ایک تہائی حصہ ہے

یہ انعامات اس سے پہلے عورتوں کو کسی اور دین نے نہیں دیے تھے

یہ معلومات کچھ عرصہ قبل محترم اساتذہ کرام کی زبانی معلوم ہوئیں
تو
اپنی قدر و قیمت کا احساس ہوا
سکون
اسلام کی تعلیمات کو سمجھ کر زندگی ان میں ڈھال کر گزارنے میں ہے
وہ گھر اس کا ماحول قابل رشک ہے
جہاں رشتوں کو والدین نے قدرت کے بیان کردہ نظام سے جوڑ کر برداشت
تحمل کی لڑی میں پِرو کر رکھا ہوا ہے
گھر میں بہترین لباس خوشبویات
تزئین و آرائش کے ساتھ دیدہ زیب ملبوسات زیورات کے ساتھ مکمل حسین زندگی بسر کرتی ہے
یوں نہ تو معاشرے میں برائی پھیلتی ہے
نہ ہی حریص نگاہیں اس کا تعاقب کرتی ہیں
مگر یہ شعور کب ملتا ہے جس سے متوازن معاشرہ تشکیل پاتا ہے
جب استاذہ کرام مل جائیں
وہ آپ کی زندگی کی سمت کو اسلام کی تاریخ اور قرآن کے جامع احکامات سنا کر
راستے کے ٹیڑھ پن کو سیدھا کرتے ہیں
دل میں آرزوؤں کو نمائش کی خواہش کو دین کی حدود اور قوانین کی مہمیز دیتے ہیں
اس کو استاذہ کرام شعور دیتے ہیں
اپنا ہر فعل اپنے رب کی رضا کے تابع کر لو
نفس بھی خوش رہے گا گھر کا ماحول بھی پاکیزہ ہو جائے گا
یہ استاذہ کرام جو خواتین ہیں
تعداد میں انتہائی قلیل مگر ارادے کوہ ہمالیہ سے بھی بلند
اللہ کی رضا شامل حال ہے جبھی تو براق کی سی رفتار سے دین کو پھیلا رہی ہیں
تعلیم ہی تعلیم میں کتنے گھروں کو اجڑنے سے بچا لیتی ہیں؟
استاذہ کرام اس دور ظلمت میں قسمت والوں کو نصیب ہوتے ہیں
ان کی سنجیدہ تعلیم اپنا احتساب کروا دیتی ہے
بے صبرا پن ذاتی تعریف نمائش اپنے منہ میاں مٹھو بننا
سب کا سب شرمندگی بن جاتا ہے
نام شہرت مقام قصوں سے شور شرابے سے نہیں
اس رب کی ایک”” کُن”” سے ملتے ہیں
اساتذہ کرام کیا نعمت ہیں
میرا بس چلے تو اپنی کھال اتار کر ان کے پیروں میں بچھا دوں
شعور آگہی ادراک معرفت یہ کیا احساسات ہیں
ہر کسی کو یہ شعور کہاں
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جب دیار غیر کو ہدایت و رشد سے نوازنا چاہا
یہاں نسلیں بچانے کا ذریعہ ان اساتذہ کرام کو بنایا
یوں ان کی بدولت بہت سے گھروں سے غیر اسلامی انداز ختم ہوتا گیا
جو کل تک گھر کے سکون کو تہس نہس کئے ہوئے تھا
کل کی زندگی پر ” استغفار”” شروع ہوا
اور
دین کی روشنی ملنے پر” الحمد”” پر سفر مکمل ہوا

اساتذہ کرام
اس دنیا کی نہ شہرت نہ نام نہ تصویر کچھ نہیں چاہیے
صرف اللہ کا دین پھیلے یہی چاہتی ہیں
ان کا اجر اللہ کے ہاں ہے
سبحان اللہ
یہ ہیں اصل کامیاب خواتین جو دن رات کام کر رہی ہیں
کل تک ہمارے بچے غیر اسلامی ماحول میں
احساس کمتری کا شکار تھے
اپنے مسلمان ہونے پر کبھی شرمسار تو کبھی مایوس
سبحان اللہ
ہم کیا ہیں ہمارے اسلاف کی کیا شان ہے
ہم کس قدر بھاری بھرکم ضخیم تاریخ کے وارث ہیں
اساتذہ کرام کے علم کی وجہ سے
قرآن پڑہتے پڑہتے بچوں نے احساس کمتری مار بھگایا
نئی شان سے امید سے بچوں نے شعور والا سفر شروع کیا
مایوسی کفر ہے پڑھا تو نئی زندگی ملی
اپنے ساتھ دوسروں کو سنبھالنا ہے
شاندار اسلام کا فخر اساتذہ کرام سے ملا
سب ہی زیر لب اللہ سے دعا کرتی ہیں
“”رب الرحمھما کما ربیّٰنٰی صغیرا “”
آمین
پاکستان اور دیگر ممالک میں عورت کو باہر لا کر خوب بڑہا چڑہا کر پیسہ کمایا جا رہا ہے
آلہ کار بنا دیا گیا
ایسے میں یہ اساتذہ کرام کی دن رات کی محنت شاقہ ہے
اس عورت کو واپس گھر میں شان سے رہنا سکھا رہی ہیں
یہ عورت کو اس کی تعظیم اس کا مقام اس کا وقار
اس کا گھر ہے
یہ شعور بانٹ کر عورتوں کو ان کے گھروں میں واپس بھیج کر
گھر کو جنت مثال بنوا رہی ہیں
کھویا ہوا سکون واپس آگیا گھروں کا آرام پھر سے لوٹ آیا ہے
ان کی یہ معاشرتی حیرت انگیز کامیابی ہے
ایسا فکری ذہنی انقلاب صرف انہی سے ممکن ہے
مجھے آج کی دنیا سے مختلف ایک اور دنیا میں
اس آزاد خیال عورت کو ہنسی خوشی واپس بھیجنا
ان کا اصل کمال ہے
یہی وجہ ہے مجھے کامیاب صرف اور صرف
اساتذہ کرام دکھائی دیتی ہیں

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر