اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستانی حکومت اور کئی سیاسی مبصرین نے اس بھارتی تاثر کو مسترد کر دیا ہے، جس کے تحت نئی دہلی حکومت کالعدم عسکریت پسند تنظیم جیش محمد کے امیر مسعود اظہر کے عالمی دہشت گرد قرار دیے جانے کو اپنی سفارتی فتح قرار دے رہی ہے۔
مسعود اظہر کو کل یکم مئی بدھ کے روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایک عالمی دہشت گرد قرار دے دیا تھا، جس کے بعد بھارتی حکومت اور میڈیا نے اسے بھارت کی فتح سے تعبیر کیا تھا۔ تاہم پاکستانی حکومت اور کئی ماہرین کے خیال میں اس فیصلے سے پاکستان پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
اسلام آباد میں پاکستانی دفتر خارجہ نے کل ہی میڈیا کو بتایا تھا کہ مسعود اظہر کا معاملہ عالمی سلامتی کونسل کی پابندیوں سے متعلق کمیٹی میں برسوں سے زیر التوا تھا اور ان کی تنظیم پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے قوانین کے تحت پہلے ہی کالعدم ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان ڈاکٹر محمد فیصل کا کہنا تھا کہ سلامتی کونسل کی پابندیاں لگانے والی کمیٹی کے واضح ضابطے ہیں اور ان ضابطوں کی بنیاد تکنیکی معاملات ہیں۔ ان کے مطابق اس کمیٹی کا طریقہ کار اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ارکان تکنیکی بنیادوں پر کسی بھی مسودے کو التوا میں ڈال دیں تاکہ ان معاملات پر مزید گفت وشنید ہو سکے، جو سلامتی کونسل میں زیر غور ہوں۔
دفاعی میزائل نظام کی خریداری کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد نریندری مودی اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئی دہلی اور ماسکو کے مابین تعلقات ’مضبوط سے مضبوط تر‘ ہوتے جا رہے ہیں۔ رواں برس دونوں رہنماؤں کے مابین یہ تیسری ملاقات تھی۔
ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ پہلے جو تجاویز آئی تھیں، ان کا مقصدپاکستان اور (بھارت کے زیر انتظام) کشمیر میں کشمیریوں کے حق خود ارادیت کی تحریک کو ’بدنام‘ کرنا تھا۔ ’’اسی لیے پاکستان نے انہیں مسترد کر دیا تھا لیکن موجودہ تجاویز کو اس لیے منظور کر لیا گیا کہ ان میں سے تما م سیاسی حوالے نکال دیے گئے تھے۔‘‘
معروف دفاعی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب بھی پاکستانی دفتر خارجہ کے اس موقف سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے اس بارے میں ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو میں کہا، ’’بھارت چاہتا تھا کہ پلوامہ کے حملے کو اس سے جوڑا جائے اور پاکستان پر الزام لگایا جائے کہ وہ بحیثیت ریاست دہشت گردی کی حمایت کرتا ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی تجویز کشمیریوں کو بھی بدنام کرنے کے مترادف تھی۔ مسعود اظہر کو اگر دہشت گرد قرار دیا گیا ہے، تو اس کی وجہ طیارہ ہائی جیکنگ اور القاعدہ سے تعلق ہے۔ اس میں بھارت کی تو کوئی کامیابی نہیں ہے۔ چین نے اس بارے میں اپنی وجہ سے تکنیکی التوا کو پاکستان کے ساتھ مشاورت کے بعد ختم کیا ہے۔‘‘
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب کا کہنا تھا کہ جن اقدامات کا سلامتی کونسل نے مطاکبہ کیا ہے، پاکستان وہ پہلے ہی کر چکا ہے، ’’مسعود اظہر کے بینک اکاؤنٹس، سفر اور ہتھیار رکھنے پر پہلے ہی سے پابندی عائد ہے۔ ان کی تنظیم بھی کالعدم قرار دی جا چکی ہے۔ اس لیے میری رائے میں سفارتی، سیاسی اور عالمی سطح پر پاکستان کو کسی بھی مسئلے کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔‘‘
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے مختلف علاقوں میں مشتعل مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر ظفر نواز جسپال بھی اس تاثر کی نفی کرتے ہیں کہ اس سے پاکستان کے لیے بہت سی نئی مشکلات پیدا ہوں گی۔ انہوں نے کہا، ’’اب ہمیں یہ ضرور کرنا پڑے گا کہ ہمیں رپورٹیں لکھ کر عالمی سلامتی کونسل کو بتانا پڑے گا کہ ہم نے کیا اقدامات کیے ہیں۔ بظاہر یہ بہت بڑی بات لگتی ہے کہ UNSC نے کسی ایسے فرد کو دہشت گرد قرار دے دیا ہے، جو پاکستان میں ہے۔ لیکن ایسا پہلے بھی کچھ افراد کے حوالے سے کیا گیا اور انہیں عالمی دہشت گرد قرار دیا گیا تاہم عملی طور پر میرے خیال میں اس سے پاکستان کے لیے کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہو گا۔‘‘
تاہم کچھ ماہرین کے خیال میں پاکستان کے لیے یہ کوئی اچھی خبر نہیں کیونکہ یہ ایک ایسے وقت پر آئی ہے جب ملک کو شدید مالی بحران کا سامنا ہے اور اس سے نکلنے کے لیے پاکستان کو عالمی مالیاتی اداروں کے پاس جانا پڑے گا، جہاں اس قرارداد کے حمایتی ممالک، یعنی امریکا، برطانیہ اور فرانس، بہت طاقتور ہیں اور وہ اس ماحول اور قرارداد کو پاکستان کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں۔
اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سےوابستہ ڈاکٹر بکر نجم الدین کے خیال میں بھارت اس قرارداد کو بین الاقوامی طور پر پاکستان کو تنہا کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اس پابندی سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا اور دیگر طاقت ور ممالک کی حکومتوں اور نئی دہلی کا آپس میں قریبی رشتہ بن گیا ہے۔ بھارت اب اس پابندی کو پاکستان پر مزید دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کرے گا اور پاکستان کو اپنی کشمیر پالیسی بھی تبدیل کرنا پڑ سکتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکا اور دیگر مغربی ممالک بھی ممکنہ طور پر آئی ایم ایف پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ پاکستان کے لیے کڑی شرائط رکھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس پابندی کا اثر فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے فیصلے پر بھی ہو سکتا ہے۔ اس لیے میرے خیال میں یہ پیش رفت پاکستان کے لیے ایک بڑا سفارتی دھچکا ہے۔‘‘