مسلمانوں نے خطہ ارضی پر سالہا سال مثالی حکومت کی ہے جس کی بدولت دنیا امن و آشتی کا مرکز بنی رہی۔جب سے مسلمانوں کے ہاتھ سے دنیا کی زمام گئی تب سے مسلمان اس قدر ثقافتی و تمدنی پسپائی و تنزلی میں چلے گئے ہیں کہ دنیا مسلمانوں کا مذاق اڑاتی پھر رہی ہے اس کی بنیادی وجہ کوئی اور نہیں مسلمانوں کی اپنی غفلت و لاپرواہی کا ہاتھ ہے۔یہی وجہ ہے کہ بعض کم فہم و متعصب لوگ یہ تصور پیش کرتے ہیں کہ قرآن نے عورت کی تحقیر کی ہے کہ اس کے لیے حدود وراثت و زندگی کے مراحل میں مقید کر دیا ۔ایسا ظاہرکرتے ہیں کہ گویا اسلام نے عورت کو حقوق فراہم ہی نہیں کیے۔دوسری جانب شدت و تنگ نظری کا یہ عالم ہے کہ وہ قرآن کی نصوص کے غلط مفہوم و مطلب مراد لے لیتے ہیںکہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے عورت گھر میں بیٹھی رہے۔دنیا بھر کی خواتین پر یہ حکم لاگوکرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ افسوس کی بات ہے کہ مسلم سماج میں بہت زیادہ غلط افکار کو پروان چڑھایا جارہاہے جن کا شریعت سے کوئی تعلق ہی نہیںہے۔ یہ سوچ و فکر اور بری عادات نسل درنسل وراثت کے ذریعہ منتقل ہو رہی ہیں اور ان کی حیثیت گندگی کے بڑے ڈھیر سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔
اسی طرح بہت سے جامدو توہمات پر مبنی فکریں بھی دعوت کے میدان میں پیش کی جارہی ہیں۔کہا یہ جاتا ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت ”لااکراہ فی الدین”کہ دین کو اختیار کرنے میں جبرو اکراہ نہیں ہے۔یہ آیت آیت سیف سے منسوخ ہوگئی ہے۔تعجب کی بات ہے کہ قرآن کریم میں کوئی آیت ایسی نہیں جس میں سیف(تلوار )کا ذکر آیا ہو۔سوال پیدا ہوتاہے کہ قرآن میں نسخ کی گنجائش موجود ہے؟کیا کچھ منسوخ ہواہے ؟کون فیصلہ کرے گا کہ فلاں آیت منسوخ ہے اللہ کی کتاب میں؟کیا اس سے مطلب نہیں نکلتا کہ دین کے قبول کرنے میں سختی کی اجازت ہے؟مطلب یہ ہوا کہ تلوار دعوت کا ایک وسیلہ و ذریعہ ہے نہ کہ پیغام رسانی و ابلاغ!!!
متشدد و جاہل لوگ یہ بھی دعویٰ کرتے نظرآتے ہیں کہ خواتین عیدین کی نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں نہ جائیں باوجود اس کے کہ سیدہ ام عطیہ کی روایت موکود ہے کہ ہمیں حکم دیا گیا کہ ہم باوجود حیض میں ہونے کہ عیدین کے اجتماعات میں حاضر ہوکر نمازیوں کا مشاہدہ کریں اورمسلمانوں کی نیکی و دعوت کو براہ راست دیکھ سکیں۔حیض میں ہونے کی وجہ سے نماز کا حکم تو ساقط ہے ہی مگر عیدین پڑھنے والوں کا مشاہدہ کرنے اور خطبہ عید سننے کا حکم دیدیا گیا۔کم عمر بچیوں اور پاک عورتوں کو بھی عیدگاہ میںحاضر ہوکر نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا۔یہ حکم احادیث میں وارد ہے۔مسجد نبوی میں خواتین کے لیے جگہ مختص کی گئی کہ وہ وہاں سے داخل ہوکر نماز پڑھ سکیں۔واضح ہوتاہے کہ شدت پر مبنی سوچ و فکر نے عورت کو زندگی کے مراحل میں پیش قدمی کرنے سے روک دیا ہے ۔ایسے افکار دینی و دنیوی لحاظ سے نقصان دہ ہیں۔حدیث میں وارد ہے کہ خواتین کو مسجد میں نماز پڑھنے سے منع نہ کریں اگرچہ وہ عشاء و فجر کی نماز کیوں نہ پڑھنا چاہتے ہوں۔لیکن زمانہ جاہلیت میں تنگ نظر گروہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی عورتیں کچھ علم حاصل کریں اور نہ ہی وہ یہ برداشت کرتے تھے کہ وہ اللہ کی عبادت کریں جیسے عبادت کرنے کا حق ہے۔ہمیں نہیں معلوم کہ کس کواور کیا فائدہ حاصل ہوتاہے کہ عورت علم حاصل نہ کرے یا نماز مسجد میں جا کر نہ پڑھے تو اس کی دلیل قرآن سے یہ پیش کی جاتی ہے کہ ”عورت گھر میں بیٹھی رہے۔
مسلم معاشرے پر لازم ہے کہ وہ خود پر امانت و دیانت اور اچھی عادات و تقالید اور اعلیٰ اخلاق کو نافذ کریں ۔میں نے ایک دعوتی مدرسہ کا دورہ کیا ہے جہاں سے لوگوں کو لندن، بلجیکا، اٹلی اور یورپی ممالک میں بھیجا جاتاہے کہ وہاں جاکر وہ دین کی تعلیم کا انتظام کریں تاکہ مسلمان شریعت اسلامیہ کو فروگذاشت نہ کربیٹھیں۔لوگوں کے سوالات کے جوابات پیش کریں۔مغرب میں مقیم مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے یہ کافی نہیں ہے ۔بلکہ یہ جاننا ہوگا کہ مسلمانوں کو کن مسائل و مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہاہے وہاں پر۔ کچھ مسائل ایسے ہیں جو مغرب کے ظلم و جور کے رویے کی وجہ سے مسلمانوں کے ہاں پیدا ہوچکے ہیں اور کچھ خود مسلمانوں کے ہاتھوں کی کمائی سے پیدا ہوئے ہیں۔مغرب میں بعض لوگ اسلام کو اس انداز سے پیش کرتے ہیں کہ عورت پردہ کرلے اور گھر میں بیٹھی رہے اور مرد لمبے کرتے زیب تن کرلے اور داڑھی بڑھالے اور اس میں پھر کوئی تمیز نہیں رہتی کہ وہ ایک بالشت داڑھی رکھیں یا جس قدر داڑھی بڑھ جائے رکھ لی جائے۔
معلوم ہونا چاہیے کہ مسلمان صرف جدید آلات و ٹیکنالوجی اور کشتیوں اور بحری جہازوں اور ہوائی جہازوں کی تیاری میں پیچھے ہیں بلکہ مسلمانوں کی سوچ و فکر میں بھی پستی عیاں نظر آتی ہے کہ وہ علمی و فکری اور اخلاقی و نفسیاتی طورپر بھی کم ہمت معلوم پڑتے ہیں۔انسان کی شخصیت میں ایسی کمی رہ جاتی ہے جو اس کو قیادت و سیادت کے عظیم سے پس و پیش سے کام لیتاہے جب کہ اسلام نے تو یہ مسلمانوں کے لیے مختص کردیا ہے کہ وہ دنیا پر اللہ کا حکم نافذ کریں۔ہم دیکھتے ہیں ایشیاء و افریقہ کے مسلمان کسی ایک مرکز پر متحد نہیںہوپاتے کہ دنیا ان پر تعجب کرے بلکہ کیفیت ییہ ہے کہ مغرب مسلم ممالک کو کاہل و سست اور بھکاری اور تنگ نظر سمجھتا ہے۔ مسلمان شہوات نفسانی ،مال و دولت کے بیجا ضیاع،اور لوگوں کی جان مال اور عزت و آبروکے محافظ بننے میں کوتاہی برت رہے ہیں۔ مسلمان وہ بن چکے ہیں کہ جھوٹ ،ملاوٹ اور رشوت کو زندگی کے ہر مرحلے میں استعمال کررہے ہیں۔ کیا ایسی صورتوں میں ممکن ہے کہ اللہ کی مددونصرت مسلمانوں کو مل سکے؟اسلامی تعلیمات کو مسلمانوں نے اپنی عملی زندگی سے خارج کر دیا ہے۔
مال دار مسلمان یہاں سے یورپ میں جاکر شہوت و نفع مندی اور اسلامی ملک سے حاصل شدہ پیسہ کو جوئے خانوں،شراب کے مراکز اور اس طرح کی بری محافل میں خرچ کرتے ہیں۔مسلمانوں کی اس کشادہ دلی کو دیکھ کر یورپی لوگ یہ سوچنے اور سوال کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ انہوں نے یہ مال و دولت کہاں سے اور کیسے حاصل کی اور کس جگہ پر خرچ کررہے ہیں۔وہ اس امر کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے دل سخت ہوچکے ہیں کہ وہ اپنے بھائیوں کو فقروفاقوں میں مرتا چھوڑ کر یہاں ہواو ہوس میں اپنی زندگی اور اپنا مال برباد کررہے ہیں۔کھلی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری طرف متوجہ ہے اور مسلمانوں کا جائزہ لے رہاہے کہ ہم کیسے اعمال کررہے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کے ساتھ کیا کررہے ہیں اور آخرت میں اس سب سے متعلق سوالات کیے جائیں گے۔مسلمانوں کو اپنی گم شدہ میراث کو از سرنوحاصل کرنے کی جدوجہد کرنی ہوگی۔جبھی مسلم معاشرے کو امن و سکون کی دولت میسر آسکے گی۔