صرف تم سے عمران خان

Imran Khan

Imran Khan

تحریر : شاہ بانو میر

ہر نظریاتی پی ٹی آئی کارکن کو پارٹی اور چئیرمین سے
2 اعتراضات تھے
1 عدالتوں میں موجود سیاسی معاملات کو
عوامی جلسوں میں یا ٹاک شوز میں کیوں استعمال کیا جاتا ہے؟
مقابلہ ہم پلہ سے ہوتا ہے
جو سیاسی اسیر ہیں مسائل میں گھِِرے ہوئے کمزور حیثیت میں ہیں
ان پر مزید جارحانہ انداز بہادری نہیں بزدلی ہے
2 بد زبانی اور بد لحاظی کا غنڈہ مافیا نظام جماعت سے ختم ہونا چاہیے
الحمد للہ بد زبانی تو باجی فردوس کے آنے کے بعد مٹھاس میں تبدیل ہونے لگیں
سیاسی تناؤ کم ہوا
اور
سیاسی معاملات بیانات میں نہیں عدالتوں میں زیر غور ہونے لگے
اب کوئی عذر میرے پاس نہیں ہے
کہ
میں پی ٹی آئی پر نہ قلم اٹھاؤں
میں سلطانہ ڈاکو کی ماں نہیں بن سکتی تھی
کہ
پہلی غلطی پر جو انڈہ چوری کیا تھا اُسے سزا کی بجائے پکا کے کھلا دیا
آخر
میں سلطانہ ڈاکو کو جرائم پر سزائے موت ہوئی تو اسی ماں کا کان کاٹ کھایا
کہ
میری پہلی غلطی پر روکتی تو آج یہ نہ ہوتا
قرآن نے سکھا دیا
حق بات کہنی ہے
ہمیشہ کہی اور کہتی رہوں گی
آج جب معاملات بہتری کی طرف جا رہے ہیں تو سامنے موجود سیاسی شورش بڑہتی جا رہی ہے
اس وقت پارٹی کو قائد کو ایک ایک حرف کی اشد ضرورت ہے
بد نصیبی ہے اس قوم کی جب جب آزمائش کا مشکل دور ختم ہونے لگتا ہے
اور
پاکستان کی معیشت کنارے لگنے لگتی ہے
سیاسی مخالفین ایسا شور مچاتے ہیں کہ
نظام دھڑام سے گر جاتا ہے
ہمیشہ تو باریاں تھیں
ایک گرتا تھا دوسرا متوقع امیدوار پہلے سے ہی معاملات کو سنبھالنے کیلئے
ہائی الرٹ پر ہوتا تھا
اس بار عمران خان جیسے رہنما کے بعد معیار بہت بلند ہوگیا ہے
اس رہنما کے بعد کیا کوئی اور معیاری نام شخصیت ہے اس جیسی؟
ذرا موازنہ کیجئے
ایک قابل رشک پڑہا لکھا اچھی سوچ اور بے لاگ انداز سیاست کا حامل رہنما
اس ملک کو عرصہ دراز بعد نصیب ہوا ہے
جس نے 23 سال تک بہت کچھ ایسا سیاسی طور پے کہا
جو وہ کر نہیں سکا
یا جس کی قوت ابھی کمزور ملک سہار نہیں سکتا
مگر
ہر اٹھنے والے سوال کا حتمی جواب ایک ہے
اور
وہ یہ کہ
وہ اپنے ایک بیانیے سے پیچھے نہیں ہٹا
اور
وہ ہے
اس ملک کی تقدیر سنوارنے کا
اس قوم کو بہترین قوم بنانے کا
اس قوم میں چھینا ہوا شعور اور ان کا مقام بانٹنے کا
اس پر نہ تو اس نے یو ٹرن لیا
اور
نہ ہی کبھی منحرف ہوا
پارٹی پاکستان میں بنانا پھر اس کو روایتی سیاست میں رہ کر اجاگر کرنا
اور
اپنی سوچ پر نئی بنیاد نئے سرے سے ڈالنے کی کوشش
عام انسان کے بس کی بات نہیں تھی
اللہ پاک وہاں سے مدد دیتا ہے جہاں سے سوچا نہیں جا سکتا
عام طور پے الزام لگایا جاتا ہے
کہ
پی ٹی آئی کو کامیاب ایک دفاعی ادارے نے ببانگ دہل مدد سے کروایا
اگر ایسا بھی ہوا تو کیوں؟
ایسا اس لئے ہوا کہ ملک کا سیاسی نظام اور رہنما سیاسی مفادات کی خاطر
پاکستان کا دفاع کمزور کرتے جا رہے تھے
ملک اندر سے سلامتی رکھتا ہو
تو
خارجی عوامل اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے
بد نصیبی سے شکست و ریخت کا یہ سلسلہ طویل عرصے سے
مختلف عوامی طاقتور سیاسی جماعتوں کا وطیرہ رہا
اپنی ذات اور عہدے کی طاقت چاہنے والے ملک کونحیف و ناتواں کرتے گئے
ملک کا سیاسی طبقہ مراعات سے آسائشات تک کا سفر نسلوں تک تیار کرتا رہا
اور
ملک کی آزادی گروی ہوتی چلی گئی
اس سیاسی مراعات یافتہ طبقے کے سامنے دوسرا وہ طبقہ تھا
جس کی قیمتی جانیں یہ سوچ کر نظر انداز ہوتی گئیں
کہ
اس ادارے کا مقصد ہی ملک کا دفاع ہے
سرحد ہو یا اندرون ملک بڑہتی ہوئی دہشت گردی
سب کیلئے یا تو شہری جان دے رہے تھے
یا
پھر
وہ ادارہ
اللہ کے بعد جس کی پناہ میں بائیس کروڑ سکون کی نیند سوتے ہیں
روزانہ کبھی اندرون ملک تو کبھی چاروں جانب سے کیا دشمن ملک
اور ٌکیا برادر اسلامی ملک ہر کوئی ہمارے ملک کے اداروں سے سیاسی دینی روابط اور خلفشار
کا بدلہ ان کے خون سے لیتے رہے
ایسے میں ادارہ کیا کرتا؟
شھادتوں کے اس طویل سلسلے کو ختم کر کے مستحکم پاکستان طاقتور سیاسی رہنما سامنے نہ لائے؟
کہ
جس کے دم سے ملک میں دہشت گردوں کی بیخ کنی ایسے کی جائے
کہ
اس میں کہیں کوئی سیاسی مفاہمت اس عمل کو کمزور نہ کر سکے
کیا ہم اللہ کو حاضر ناظر جان کر یہ کہہ سکتے ہیں
کہ
ماضی کے حکمران کوئی دلی ہمدردی رکھتے تھے
ان سر بریدہ لاشوں سے؟
کیا عملی اقدامات کئے انہوں نے ؟
کہاں اپنے سیاسی مفادات کو قربان کر کے ملک کو مزید بیٹوں کی شھادتوں سے بچایا؟ ٌ
جواب
صرف نفی میں ہے
ایسے میں اگر کوئی ادارہ جانوں کو محفوظ کرتا ہے
ملک کی سفارتی سطح پے شاندار رہنمائی کرتے ہوئے ہمسایہ ممالک سے
جامد تعلقات کو سرد مہری کے خانے سے نکال کر متحرک کرتا ہے
تو ملک اس سے طاقت حاصل کرتا دکھائی دیتا ہے
عوام کی قربانیاں شھادتیں رک گئیں
سکون امن کا دور دورہ ہوگیا
یہ ہے اصل پاکستان
ابھی معاملات مشکل ہیں
لیکن انتقال اقتدار اسی کا نام ہے
آج
سر کٹے دھڑ فٹبال کھیلتے ظالم دکھائی نہیں دیتے
ادارے کو بقا کی جنگ لڑنے کیلئے عملی اقدامات اٹھانے تھے
اپنی حفاظت کرتے تو قوم کی حفاظت ممکن تھی
جو کچھ بھی کیا گیا
پاکستان کے تحفظ اور سلامتی کے لئے کیا گیا
اور
اب اس کے ثمرات انشاءاللہ کچھ عرصے کے بعد سامنے آئیں گے
بائیں طرف مسلسل بڑہتا ہوا روبہ زوال ملک
دائیں طرف چھوٹے چھوٹے قدموں سے بڑہنا شروع ہوگیا ہے
راستے ابھی پُرپیچ دشوار ٹیڑھے میڑھے ہیں
مگر
درست سمت سفر شروع ہو چکا
دیر سے سہی منزل شرط ہے
ملک میں صنعتی معاشی انقلاب داخل ہوا چاہ رہا تھا
چائنہ کاریڈور کی صورت
جو دشمن کے سینوں پر مونگ دل رہا تھا
حالات مشکل نہیں نا ممکن ہو رہے تھے
ایسے میں ضرورت تھی کسی واضح سوچ کی
کسی کرشماتی شخصیت کی کسی کی آواز گونج بن کر ملک کے طول و ارض میں چھا جائے
قرعہ فال آزمائے ہوؤں سے ہٹ کر نئے رہنما کے نام نکلا
دفاعی ادارے کی ذمہ داری تھی
کہ
اس خطے کی اب خاص اہمیت کے پیش نظر ملک میں سلامتی کو یقینی بنائے
سیاست اور دفاع نہ ملتا تو خطے میں اتنے بڑے گیم چینجر کی کہیں گنجائش نہیں نکل سکتی تھی
ایک پیج پر آنا تھا
سیاست کو اور دفاع کو
یکجا ہوئے
اور
آج پاکستان گو ماضی کی نسبت انتہائی مشکل حالات میں سفر کر رہا ہے
لیکن
ہر اٹھتا ہوا مشکل قدم انشاءاللہ
راستے کی رکاوٹ کو دور کر کے آسانی کی طرف بڑھ رہا ہے
قوم کو مایوس نہیں ہونا نا امید نہیں ہوا
بڑے حوصلے والے بڑی منزلوں کو حاصل کرتے ہیں
ذہنی طاقت اتنی چاہیے تھی
جو
اندر سے باہر سے ہر دباؤ کو گہرے سانس کے ساتھ تحلیل کر دے
ڈٹ جائے اور مقصد کو اس بار تو حاصل کر ہی لے
ایسا رہنما قرب و جوار میں نگاہیں دوڑائیں
کون دکھائی دیتا ہے
جو سچ مچ لیڈر ہو
جس کو دیکھ کر دل کہے اور زبان ساتھ دے
جب آئے گا عمران سب کی شان
بنے گا نیا پاکستان
انشاءاللہ بنے گا نیا پاکستان
پاکستان کے مخدوش اقتصادی معاملات اور ملک کی ڈوبی ہوئی معیشت کو
وقت ضرور لگے گا
مگر
جب ارادے نیک ہیں نیت اخلاص پر مبنی ہے تو
عوام ہر مشکل میں ہر سختی میں اپنے سچے رب کے بعد
اس سیاسی مسیحا پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیں
کیونکہ
نیا پاکستان
عمران خان
صرف تم سے ہے

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر