مدارس میں دینی و عصری تعلیم۔ چند گذارشات

Madrassas

Madrassas

تحریر : قادر خان یوسف زئی

30 ہزار سے زائد رجسٹرڈ مدارس میں 25 لاکھ سے زیادہ طلباء کو مختلف فقہ کے مسالک کے تحت دینی تعلیم دی جارہی ہے (اصل تعداد اس سے کئی گنا زائد ہے)۔ اہم بات یہ کہ ان طلبہ و طالبات کے تعلیمی اخراجات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ 22 کروڑ کی آبادی میں لاکھوں طلباء کو حکومتی امداد کے بغیر دینی تعلیم سے آراستہ کرنا ایک بڑا کام ہے جب کہ ہزاروں مدارس میں لاکھوں طلباء کو بورڈنگ ہائوس طرز پر رہائش و کھانے پینے کی خدمات بھی قریباً مفت فراہم کی جاتی ہیں۔ گزشتہ دنوں ڈی جی آئی ایس پی آر نے پریس بریفنگ کے دوران عندیہ دیا کہ ان ہزاروں مدارس کو وزارت تعلیم کے ماتحت کیا جائے گا۔ پاک فوج کے ترجمان نے واضح کیا کہ مدارس کے دینی نصاب میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جائے گی، بلکہ اس کے ساتھ عصری تعلیم کا نصاب مروج کیا جائے گا۔ ان مضامین کو پڑھانے کے لیے چار پانچ اساتذہ کی ضرورت ہوگی۔ بقول ترجمان علماء کرام ان اصلاحات پر متفق ہیں، تاہم دوسری طرف مدارس میں تبدیلی? نصاب اور حکومتی کنٹرول میں لانے سے متعلق مدارس کے تحفظات تواتر کے ساتھ آرہے ہیں۔

40 برس میں بے پناہ مدارس ملک گیر سطح پر قائم ہوئے۔ اہم بات یہ کہ ان مدارس کا تعلق کسی ایک مکتبہ? فکر سے نہیں تھا بلکہ تمام مسالک نے مدارس قائم کیے۔ اس لیے مدارس کی تعداد کو کسی خصوصی مکتبہ? فکر سے جوڑا بھی نہیں جاسکتا۔ مدارس پر انتہا پسندی کا لیبل امریکا کے افغانستان پر حملے کے بعد جارحیت کو روکنے والے اُن مدارس کے طالبان سے جڑا جنہوں نے غیر ملکی افواج کو اپنی سرزمین سے نکالنے کے لیے مسلح مزاحمت کی۔ وگرنہ اس سے قبل مدارس کے یہی طلباء امریکا اور نیٹو افواج کے تمام ممالک کے لیے غیور قوم اور مجاہد تھے، جو کمیونزم کی یلغار روکنے کے لیے سرخ ریچھ کو روک کر دنیا کی عظیم خدمت سرانجام دے رہے تھے۔سوویت یونین کے افغانستان سے انخلا کے بعد امریکا کے مقاصد پورے ہوگئے، تاہم پڑوسی ملک ایران میں بادشاہت کا خاتمہ ہوچکا تھا اور خمینی انقلاب نے پورے اسلامی خطے کی صورت حال کو تبدیل کردیا تھا۔ جس کی وجہ سے مغرب میں خدشات ابھرے کہ اگر تمام اسلامی ممالک میں بھی اس قسم کے انقلاب برپا ہوئے تو ان کا اثررسوخ ختم ہوجائے گا۔ شاید ماضی کا خوف ان پر حاوی ہوگیا کہ خلافت راشدہ اور بعد میں مسلم مملکتوں نے ایران، افریقا اور یورپ کا رخ کیا، صلیبی جنگیں ہوئیں۔

یہاں تک کہ خلافت عثمانیہ کے آخری فرماںروا تک کو”جزیہ” دیا گیا۔ قریب ترین قیاس یہی کیا جاتا ہے کہ مغرب اس بات سے ہمیشہ خائف رہتا ہے کہ جس دین میں انسان کے نزدیک اپنی جان کی کوئی اہمیت نہیں اور اسے، اس کے خاندان، دوست احباب سمیت مسلم امہ کو ”شہادت” کے نام پر خوشی ملتی ہے۔ ایسے انسانوں کو بزور طاقت زیر کرنا بڑا مشکل اور ناممکن کام ہے۔ یہ جذبہ و عقیدہ ‘جہاد فی سبیل اللہ’ صرف اسلام میں ہے جب کہ مسلمان کے علاوہ سب موت سے خوف زدہ رہتے ہیں۔

اس خوف کے تناظر میں اسلامی دہشت گردی کی اصطلاح ایجاد کی گئی، مدارس کو دہشت گردی کی تربیت گاہ اور طلباء کو شدت پسند قرار دے دیا گیا۔ تخمینہ لگایا گیا کہ لاکھوں طلباء فارغ التحصیل ہورہے ہیں، اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو مغرب کی دانست میں ان کی تعداد چند برسوں میں کروڑوں تک پہنچ جائے گی۔ دوسری جانب مدارس نے طلباء کو دینی تعلیم سے آراستہ کیا، مغرب کو کھلی چھوٹ مل گئی کہ قدرت کے بیش بہا خزانوں و وسائل پر اسلام مخالف قوتیں غالب آجائیں۔ وگرنہ کون نہیں جانتا کہ جدید سائنس و ٹیکنالوجی کی تمام تر بنیاد مسلمانوں نے رکھی۔ مسلم علماء کے علوم کے تراجم کرکے اصل مسودوں کو جلادیا گیا یا دریا برد کردیا گیا۔ مسلم حکمرانوں کو انجینئرنگ کے شعبے میں کمال مہارت حاصل تھی۔ ان کے بنائے گئے عالمی شاہکار آج بھی عجوبے سمجھے جاتے ہیں۔

فلکیات، صرف و نحو اور معاشی علوم سمیت طب میں مسلمانوں کا سکہ جما ہوا تھا۔ جنگ میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے ساتھ آلات جنگ کی وجہ سے مسلم افواج کو شکست دینے کے بجائے مغرب ”جزیہ” دینا پسند کرتے تھے۔ سائنس میں کائنات کے علم میں مسلمانوں کی اعلیٰ قابلیت و غورو فکر مثالی تھا۔ لیکن یہ سب کچھ ایک وقت تک قائم رہا اور اجتہاد کا راستہ بند ہوکر جمود کا شکار ہوگیا۔ مغرب ایک جانب جاہلیت کا استعارہ تھا اور جادو ٹونے سمیت مختلف خرافات و توہمات میں مبتلا گناہوں کی معافی ریٹ مقرر کیا کرتا تھا اور مسلم علماء آئے روز نت نئی ایجادات کررہے تھے۔ مسلمان ایک ترقی یافتہ، مہذب اور اعلیٰ تعلیم یافتہ باشعور بااخلاق قوم شمار ہوتی تھی۔

برصغیر پاک و ہند ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں جدید عصری تعلیم کا راستہ مدارس میں آنے سے روکا گیا۔ بڑے بڑے مدارس سے جدید علوم غائب ہوگئے۔ مسلکی اختلافات کا فائدہ مغرب نے اٹھایا اور مسلمانوں کا علمی خزانہ چوری کرلیا۔ اب مسلمان طلباء اپنے ہی علمی خزانوں کا ترجمہ کررہے ہیں تو بھاری فیسوں کے ساتھ مہنگے غیر ملکی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں، سب نمائشی بناکہ فلاں نے فلاں مغربی سسٹم کے تحت اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم مکمل کی، لیکن موجودہ دور میں بھی ایسے مسلم سائنس دانوں نے سرکاری اسکولوں میں تعلیم حاصل کی، جہاں بیٹھنے کو دری نہیں تو دھوپ سے بچنے کے لیے چھت بھی میسر نہیں ہوتی تھی۔ ایسے نابغہ? روزگار طلباء کو مغربی ممالک نے اپنا شہری بنالیا اور ترقی پذیر ممالک اپنے ذہین ترین افراد سے محروم ہونے لگے۔ ترقی پذیر اور خانہ جنگی کے شکار ممالک میں جدید دنیا میں اپنا سکہ جمانے کے بجائے اپنوں کا خون بہانے کا سلسلہ طول پکڑتا چلاگیا اور اب امیر ترین مسلم ممالک بھی اپنے شہریوں کو فلکیات، سائنس، طب اور جدید ٹیکنالوجی کا علم دینے کے لیے مغرب کے محتاج ہیں اور مالی استعداد اور طاقت ہونے کے باوجود بیرون ممالک ہی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح سرمایہ بھی ہاتھ سے نکلا جاتا ہے اور ذہین طلباء بھی۔

پاکستان مسلم ممالک و دنیا کا جغرافیائی لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ملک ہے۔ بیرونی طاقتوں کے مفادات کے لیے ہماری بیشتر پالیسیاں مغرب و امریکا کے تابع رہیں۔ مدارس کو محکمہ? تعلیم کے ماتحت کرنے سے قبل سب سے پہلے تمام مدارس (جامعات) کا متفق ہونا ضروری ہے اور جو بھی لائحہ عمل ہو۔ اس پر اتفاق رائے کا تاثر یکطرفہ نہ ہو۔ مملکت میں دہرے نظام تعلیم کا خاتمہ کیا جائے۔ جس طرح مدارس میں دینی تعلیم ہے اور عصری تعلیم کے لیے اصلاحات کی جارہی ہیں، اسی طرح انگلش میڈیم تعلیمی اداروں کا نصاب یکساں اور مدارس کی طرح بنایا جائے۔ یکساں نصاب تعلیم وہاں بھی نافذ کرنے کا اعلان کیا جائے۔ قومی زبان کو ترجیح دیتے ہوئے دیگر غیر ملکی زبانوں کو صوابدیدی اختیار کے تحت کیا جائے۔ سرکاری و تمام اداروں میں میرٹ پر قومی زبان اردو نافذ کی جائے۔ تمام ریاستی و حکومتی اقدامات قومی زبان میں سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق کیے جائیں۔

Qadir Khan Yousafzai

Qadir Khan Yousafzai

تحریر : قادر خان یوسف زئی