ابھی کچھ ہی روز پہلے کی بات ہے کہ ہمارے ایک نوآموز صحافی نے ایک پروگرام کے اختتام پر ایک نامور سینئیر شاعر سے سوال کیا کہ سر کیا وجہ ہے کہ آج کل کے شعراء کے کلام میں وہ بات نہیں ہے جو آپ کے دور کے شعراء کے کلام میں تھی؟ ہم نے بڑی شدت سے یہ چاہا کہ کھڑے ہو کر اس صحافی نما کو یہ جواب دیتے بھائی حلفا بتاو آخری وہ کون سی کتاب ہے جو تم نے خریدی تھی یا کتنا عرصہ قبل آخری بار تم نے کوئی کتاب پڑھنے کی نیت سے کھولی تھی؟ لیکن بس آداب محفل آڑے آ گیا اور ہم خاموشی سے اس سوال جواب کو سنتے رہے ۔ ہمارے ہاں غیر ضروری طور پر فعال ہونے کو کوشش ہی اکثر ہمارے فیل ہونے کی وجہ ہوتی ہے۔
اسی طرح کچھ عرصہ پہلے ہمیں کسی نے پوچھا آپ کہاں لکھتی ہیں؟ میں نے تو آپ کو کبھی نہیں پڑھا نہ آپ کا نام سنا ہے ۔ ہم نے کہا یہ بتاو آج کل کے معروف کوئی سے تین لکھاریوں کا نام بتاو؟ جواب پتہ نہیں۔ اچھا آجکل کے کوئی سے تین شاعروں کا ہی نام بتا دو ؟ جواب پتہ نہیں میں شاعری میں دلچسپی نہیں رکھتا ۔ اچھا کوئی سے تین کالمنگاروں کے ہی نام بتا دیجیئے ؟ جواب ملا ، زہن میں نہیں آ رہے ہم نے کہا بھائی فوٹو باز کبھی کوئی پڑھنے والی سائیٹ کھولے گا، کوئی کتاب خریدے گا ، کوئی پروگرام دیکھے سنے گا تب ہی تو تمہیں معلوم ہو گا کہ کون کیا لکھ رہا ہے ، کیسا لکھ رہا ہے ، کتنا لکھ رہا ہے ۔ ۔۔یوں بونگیاں مار کر نہ تو کوئی بڑا صحافی بن جاتا ہے اور نہ ہے عالم کہلا سکتا ہے۔
اس سے بڑا کسی کا صحافت کا مذاق کیا ہو سکتا ہے کہ آپ کو اپنے ہی علاقے میں رہنے اور لکھنے والوں کا ہی علم نہ ہو ، اپنے ہاں سوشل ورکرز کا علم نہ ہو ، اپنے علاقے کے لوگوں کی آبادی، اور طرز معاشرت کا علم نہ ہو ۔ اور آپ چلیں یہ تبصرہ کرنے کہ آج کل وہ کام نہیں ہو رہا جو آپ کے زمانے میں ہوتا تھا ۔آگے سے اگر کوئی حاضر دماغ لکھاری ٹکرا جائے تو وہ بھی یہ جواب دیگا کہ برخوردار جب ہم جوان تھے تو ہمارے بڑوں سے بھی تم جیسے نقل مار کر پاس ہونے والے صحافی یہ ہی سوال کیا کرتے تھے کہ سر کیا بات ہے آج کل لکھنے والے ویسا نہیں لکھتے جیسا کہ آپ کے دور میں لکھا کرتے تھے ۔ ھھھھھھ۔ سو سوال جواب کرنے اور صحافی کہلانے کے لیئے ضروری ہوتا ہے کہ آپ حالات حاضرہ سے باخبر ہوں ، اچھے قاری ہوں جو ہر قسم کے مطالعے کا بھرپور شوق اور عادت رکھتے ہوں۔
جنہیں موجودہ دور کے مسائل اور آسانیوں کا مکمل شعور اور ادراک ہو ۔ اور اگر آپ ایسا نہیں کر سکتے تو کم از کم کیمرے سے تصویر ہی اچھی لے لیا کریں ۔ یقین مانیئے پاکستانی صحاصحافیوں کی اکثریت کے کیمرے کی وہ کوالٹی ہوتی ہے کہ اچھے بھلے حسین انسان کو بھی بھوت بنا کر پیش کرنے میں انہیں ملکہ حاصل ہے ۔ اور ان کی تصاویر کسی بھی خوبصورت سے خوبصورت انسان کو بھی باآسانی کسی کے بھی دل سے اتار سکتی ہیں ۔ ان ایمرجنسی صحافیوں کو ایک ہی شعبے میں کام سکھایا جائے تو یہ کچھ سیکھ بھی سکتے ہیں۔ اور جو لکھنے پڑھنے سے کورے ہیں انہیں اچھے کیمرے کی پہچان اور فوٹو بنانے کے طریقے اور اچھی تصویر کے اینگل سمجھنے ہی کی کچھ تربیت لے لینی چاہیئے ۔ تاکہ یہ جو خوبصورت لوگوں کو “کوجا” بنا کر پیش کرنے کا مقابلہ ہو رہا ہوتا ہے اسے تو کچھ لگام دی جا سکے۔