بھارت میں لوک سبھا کے انتخابات کا تیسرا اور چوتھا مرحلہ اختتام پزیر ہوچکا ہے۔ ان مراحل میں نامی گرامی سیاست دانوں کی قسمت کا فیصلہ بھی الیکٹرونک ووٹنگ مشین میں محفوظ ہوگیا ہے۔ تاہم جب بات الیکٹرونک ووٹنگ مشنیوں کے حوالے سے سامنے آتی ہے تو بھارتی انتخابات کی شفافیت پر بڑا اہم سوال کھڑا ہوگیا ہے۔اس کا اندازہ کانگریسی سنیئر رہنما کپل سبل کے اس بیان سے لگایا جاسکتا ہے کہ ” جہاں دلتوں اور مسلمانوں کے ووٹ زیادہ ہیں وہیں ووٹنگ مشینوں کے خراب ہونے کے معاملات سامنے آتے ہیں”۔ ان کا کہنا تھا کہ” جہاں ووٹنگ مشینیں خراب ہوتی ہیں وہاں ووٹ بی جے پی کو ہی کیوں جاتے ہیں ؟”۔ واضح رہے کہ اپوزیشن کے تحفظات کا سبب دوسرے مرحلے میں ایک ہی جگہ پر300مشینیں خراب ہونے اور عوامی احتجاج میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین جلانے کے واقعات بنے ہیں ۔اسی بنا پر اپوزیشن نے ای وی ایم کی شفافیت پر بھی سوال اٹھایا کہ جہاں دلت اور مسلم اقلیتوں کے ووٹ زیادہ ہیں وہاں ووٹنگ مشین زیادہ خراب ہوتی ہے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مسلم اقلیتوں نے بھارت میں ہندو انتہا پسندی کے خلاف ” ہمارا ووٹ ہماری طاقت ” کے نام سے ایک مہم شروع کی ہوئی ہے جس میں مسلمانوں کو باور کرایا جارہا ہے کہ وہ اپنا صد فیصدی ووٹ کاسٹ کرنے کو یقینی بنائیں ۔ تنظیم احیا سنت کے صدر اور معروف عالم دین مفتی سید محمد حذیفہ قاسمی نے بھارت کے 17ویں لوک سبھا کے انتخابات میں مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ” فرقہ پرست پارٹیوں کو ووٹ دے کر ان کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے ” ۔ مولانا یوسف رضا قادری کا بھی کہنا تھا کہ ” اب ہندوستا ن کے لوگوں کے لئے وقت آگیا ہے کہ وہ ووٹ کی طاقت کا استعمال کریں اور صحیح امیدوار کا انتخاب کریں ۔” جماعت اسلامی کے امیر مولانا اوصاف فلاحی کا کہنا ہے کہ ” امت مسلمہ ان دنوں بڑی مشکلات سے گذر رہے ہیں ، فرقہ پرست طاقتوں کے عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے اس وقت ووٹ ہی سب سے بڑی طاقت ہے ۔ اس کے ذریعے ہم فسطائی طاقتوں کو دھول چٹا سکتے ہیں”۔ مولانا کا مزید کہنا تھا کہ” پورے ملک میں امت مسلمہ کو جنگی پیمانے پر ووٹ کا فیصد بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہر مسلمان اسے اپنا فریضہ سمجھ کے اپنے دوست احباب ، رشتے داروں اور پڑوسیوں کو ووٹ دینے پر آمادہ کرے۔اگر وہ ووٹ ظالموں اور فرقہ پرستوں کے خلاف دیں گے تو یہ ان پر کاری ضرب ہوگا”۔ جمعیت اہل حدیث کے رہنما امیر عبدالحمید نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ” ووٹ اس ملک میں ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔
اس کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیجئے ۔ ووٹنگ والے دن مسلمان ووٹ دینے کو سب سے اہم کام سمجھتے ہوئے حق رائے دہی کا استعمال کریں”۔ رضا اکیڈمی کے جنرل سیکرٹری محمد شرجیل رضا قادری نے مسلمانوں کے کم ووٹ ڈالنے پر شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ” ووٹ کے تئیں ہمارے یہاں بڑی غفلت پائی جاتی ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ ووٹ کے دن گھروں میں بیٹھنے کے بجائے ہم ایسے نمایندوں کا انتخاب کریں جو نفرتوں کا بازارگرم کے بجائے امن و امان قائم کرنے والا ہو۔ انہوں نے خواتین سے بھی اپیل کی کہ شرعی حدود کے ساتھ ووٹ دینے کے لئے نکلیں ورنہ ہماری تھوڑی سی غفت اور سستی کی سزا ہمیں آئندہ پانچ برس تک بھگتنی ہوگی۔” جبکہ کل جماعتی حریت کانفرنس کے چیئرمین سید علی گیلانی نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی انتخابات کے تیسرے مرحلے کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”انتخابی ڈرامہ جمہوری عمل کے بجائے محض ایک فوجی مشق ہے، نام نہاد الیکشن کو بھارت جبری قبضے کے حق میں جواز کے طور پر پیش کرکے عالمی برادری کو گمراہ کررہا ہے، غیر جمہوری عمل حق خود ارادیت کا نعم البدل نہیں ہوسکتا، 10لاکھ بھارتی افواج اور نیم فوجی دستوں کی نگرانی میں انتخابی ڈرامے کی کوئی وقعت نہیں۔”
تفصیلات کے مطابق بھارتی انتخابات کے تیسرے مرحلے میں 15 ریاستوں کی 117 نشستوں پر ووٹنگ کا عمل مکمل ہوگیا ہے، ریاست گجرات میں وزیراعظم نریندر مودی کے حلقے اور ریاست کیرلا میں اپوزیشن رہنما راہول گاندھی کے حلقے میں بھی ووٹنگ ہوئی۔غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ان پندرہ ریاستوں میں 18 کروڑ 80 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز ہیں، پولنگ کے دوران عورتوں سمیت بوڑھوں نے بھی اپنے ووٹ کاسٹ کیے۔اس دوران سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان تصادم بھی ہوا، جس کے باعث متعدد افراد زخمی ہوئے، کئی علاقوں میں جلاؤ گھیراؤ بھی ہوا۔ جبکہ چوتھا مرحلہ 29اپریل کو شروع ہوا۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق” چوتھے مرحلے میں 9 ریاستوں کی 71 نشستوں پر رائے دہندگان اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے جن 71 نشستوں پر پولنگ ہوگی ان میں سے 45 نشستیں اس وقت بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس ہیں۔” جس کی وجہ سے بھارت کے سیاسی مبصرین توقع کررہے ہیں کہ مقابلہ سخت ہوگا۔ پولنگ اتر پردیش کی 13 نشستوں ،بہار کی پانچ نشستوں،جھاڑکھنڈ کی تین نشستوں پر،مقبوضہ کشمیر کی ایک نشست پر امیدواران مدمقابل ہوں گے جو اننت ناگ کی ہے۔ یہاں صرف پولنگ کلگام ضلع میں ہوگی۔مہاراشٹر کی 17 نشستوں ،مغربی بنگال کی آٹھ نشستوں،اڈیشہ کے چھ حلقوں،مدھیہ پردیش کی6 نشستوں اورراجستھان کی 13 نشستوں پر انتخابی امیدواران مدمقابل ہوں گے۔
واضح رہے کہ بھارتی لوک سبھا کے 100 حلقوں میں مسلمانوں کے ووٹ فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ انتہا پسند تنظیموں کے سر کردہ لیڈر انتخابات سے قبل تو آئے دن مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے رہتے تھے کبھی گائو رکھشا ، کبھی بیٹی بچائو ، کبھی لو جہاد اور گھر واپسی جیسی مہم چلا کر اور شدت پسندی کو فروغ دے کر فرقہ وارنہ انتہا پسندی میں اضافہ کیا لیکن جیسے ہی انتخابات آتے ہیں تو مسلمانوں پر سیاسی و سماجی دبائو بڑھ دیا جاتا ہے۔ مذہبی اقلیتوں کو محفوظ زندگی گذارنے روزگار دلانے کے لئے جھوٹے وعدے کئے جاتے ہیں تو دوسری جانب اگر فرقہ وارنہ کشیدگی عروج پر ہو تو مذہبی اقلیتوں کے گھروں کو جلانے سے گریز بھی نہیں کیا جاتا ۔بات صرف بھارتہ جنتا پارٹی کی شدت پسند پالیسیوں کی نہیں ہے بلکہ بی جے پی کے علاوہ کانگریس نے بھی مسلمانوں کے لئے اہم اقدامات نہیں کئے ۔ ہندو شدت پسندی نے مسلمانوں کو خوف زدہ ہی رکھا ہے۔ ورون گاندھی نے ہندوؤں کو مسلمانوں سے خائف کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ” اگر تم مسلمانوں کا گلا کاٹنا چاہتے ہو تو ورون گاندھی یعنی بھارتیہ جنتا پارٹی کو ووٹ دو”۔ مسلمانوں کے لئے بالخصوص پاکستان کے خلاف بھارت کی تقریباََ تمام سیاسی جماعتوں کا ایجنڈا نفرت انگیز سیاست پر مشتمل ہے۔
اس وقت اگر بی جے پی کے نریندر مودی ہندو شدت پسندی کو مزید ہوا دے رہے ہیں اور بھارت میں خاص طور پر مسلمانوں کو بھڑکا رہے ہیں تو ماضی میں کانگریس، پنڈت نہرو، اندرا گاندھی، لال بہادر شاستری اور نرسہماراؤ کی قیادت بھی پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف رہی اور انہوں نے پاکستان کو نقصان پہنچانے اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کرنے کیلئے کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔مسلمانوں کو بھی بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا ہوگا کہ ان کو صرف اپنی جیت کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ کسی جماعت کو ان سے کوئی ہمدردی نہیں۔چاہے کانگریس برسراقتدار آئے یا بی جے پی یا کوئی اور ہار ہمیشہ مسلمان کی ہی ہوگی۔بھارت میں24کروڑ مسلمان دنیا کی سب سے بڑی مسلم اور اقلیتی آبادی ہیں۔ لیکن انہیں مسالک اور فرقوں کے نام پر کچھ اس طرح تقسیم کردیا گیا ہے کہ سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمان ووٹرز اپنے حقوق کے لئے بھی غیر مسلم امیدوار کی حمایت پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ بھارتی مسلم آبادی اپنے ووٹ کے حوالے سے منقسم نظر آتی ہے اور اس کا فائدہ براہ راست اُن امیدوارون کو پہنچتا ہے جو بھارت میں شدت پسند سیاست کو فروغ دے رہے ہیں۔مسلم اکثریت کو بھی سیاسی فوائد کے تحت وقتی طور پر مذہبی کارڈ استعمال کیا جاتا ہے ۔سکیولر ازم کا نقاب تو نریندر مودی کب کا اتار چکے ہیں۔
بھارتی حکومت کی جانب سے اگر کوئی اسکیم متعارف بھی ہوتی ہے تو زیادہ تر فرقہ وارنہ سوچ کے تابع ہوتی ہے۔ موجودہ بھارت کا سیکولر چہرہ تو پہلے مسخ ہوچکا ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا اس بار انتخابات میں مسلمانوں نے ماضی کی غلیطوں سے کوئی سبق حاصل کرتے ہیں کہ نہیں ؟۔انتخابات سے قبل بھارتی عدلیہ نے تین طلاق ، بابری مسجدجیسے معاملے پر فیصلے کئے جس سے مسلمانوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی کہ شادی ور دیگر اسلامی شعائر میں حکومتی مداخلتوں کی وجہ سے انہیں اپنے مذہبی رسم رواج کی ادائیگی میں سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ اسی طرح ہندو دلتوں کے ساتھ ہندو انتہا پسندوں کا سخت رویہ ان کی زندگی کے بنیادی حقوق کو بھی متاثر کرتا ہے ۔ بھارت کی دیگر مذہبی اقلیتیں بھی خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہیں اور ان پر بھی اپنا مذہب بدلنے کا دبائو ڈالنے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔
جبکہ مسلمانوں کے ساتھ خصوصی نفرت و عناد ہندو انتہا پسندوں کے خون میں رچ بس گئی ہے۔ مخلوط تعلیم نظام اور معاشرے کی وجہ سے گھروں سے بھاگ کر والدین کی مرضی کے بغیر شادیوں نے ہندو انتہا پسندوں کو سخت برہم کیا ہوا ہے۔ حالانکہ اسلام کی رو سے اہل کتاب کے علاوہ کسی دوسرے مذہب سے مسلمان کا نکاح جائز نہیں ہے ، لیکن ہندو و مسلم مخلوط معاشرے اور فلموں سے متاثر نوجوانوں میں یہ وبا بڑی تیزی سے سرعت ہوئی اور اس کے منفی نتائج کا سامنا تمام مسلمانوں کو یکساں بھگتنا پڑرہا ہے۔ اب بھارت کے بڑی انڈسٹری جس کا تمام تر دارومدار گائے و بڑے جانوروں کی کھالوں پر تھا ۔ گائو رکھشا پر قانون سازی سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہندو سرمایہ کار بری طرح متاثر ہوا۔ اس لئے بھارتی انتخابات میں مذہبی اقلیتوں کو اپنے مستقبل کے تحفظ کے مد نظرصحیح امیدوار کے درست انتخاب کی ضرورت بڑھ جاتی ہے۔کیونکہ ووٹ ہی ان کی طاقت ہے۔