مائہ صیام کی آمد کے ساتھ ہی منافع خور اپنے دوزخ میں ٹکٹ پکی کروانے کے لئے کوشاں ہو جاتے ہیں حالانکہ یہ مہینہ رحمتوں ،برکتوں اور مغفرت سے مزین ہوتا ہے مگر نہ جانے کیوں ان جہنم کے دلدادہ لوگوں کو اپنی بخشش سے بڑھ کر دولت کے انبار عزیز از جان ہوتے ہیں خدا جانے ان لوگوں کا ایمان اس قدر متزلزل ہو جاتا ہے کہ اس مائہ مبارک میں انکی اولین سوچ اسی جگہ پر اٹکی ہوئی ہے کہ سال میں اسی ایک مہینہ ہی میں تو انکو روزگار میسر آیا ہے لہٰذا دل کھول کر دونوں ہاتھوں سے امت مسلمہ کو لوٹ کر اپنی تجوریاں بھرنے کا شائد آخری موقع ہے اس کے بعد تو ہو سکتا ہے کہ پھر موقع نہ مل سکے اور اپنی اسی سوچ پر کاربند رہتے ہوئے وہ ہر چیز کی قیمت آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیتے ہیں ۔کل تک جو آلو دس روپے کلو میں فروخت ہورہا تھا رمضان کی آمد کے ساتھ ہی بیس سے پچیس روپے فی کلو تک راتوں رات پرواز کر گیا سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ انہی بوریوں کا آلو ہے جو کل دس روپے میں فروخت کر رہے تھے یہی نام نہاد مسلمان تاجر پھر کونسی ایسی طوفانی ہوا چلی کہ پہلے سے خریدے ہوئے وہی آلو آخر یہ دو سے تین گنا زیادہ قیمت میں فروخت کرنے لگے اوپر سے یہ کہتے ہیں کہ ریٹ بڑھ گیا ہے واہ کیا کہنے ان لوگوں کے ان سے کوئی تو یہ پوچھنے کی ہمت کرے کہ بھائی صاحب کب خرید کئے تھے آپ نے کیا رمضان کے شروع ہونے کے بعد یا دس پندرہ دن پہلے تو بڑے رکھائی سے جواب دیں گے کہ جایئے صاحب اپنی راہ لیں بیکار میں ہمارا دماغ نہ چاٹیں آپکو معلوم نہیں کہ پٹرول ایک سو آٹھ روپے لیٹر ہو گیا ہے اسی لئے آلو کی قیمت بڑھی ہے۔
عجیب منطق ہے ان منافع خوروں کی بھی آلو کی تو ایک مثال دی ہے میں نے باقی سبزیاں ،دالیں ،گوشت ،گھی ،آٹا غرض جس بھی چیز کی قیمت رمضان سے دو دن پہلے تک پچاس روپے تھی وہ اچانک سو سے سوا سو میں بکنے لگ گئی ارے اللہ کے بندو جو خالق تمہیں پہلے روزی دیتا ہے وہی اس ماہ میں بھی دے گا اور آئندہ بھی وہی رازق ہے مسلمان ہو کر تم اس مائہ مبارک میں اپنے خزینہ اعمال میں اضافہ کرنے کی بجائے جہنم بینک ان لمیٹڈ میں کیوں اپنی آفشور کمپنیاں بناتے چلے جا رہے ہو حالانکہ تم اچھی طرح یہ بات بھی جانتے ہو کہ کہ اس کا احتساب دنیا کی نیب نے نہیں کرنا جو پلی بارگین کر کے تمہیں رہا کر دے گی اس عمل کا احتساب اس محتسب ارض و سما کے ہاتھ میں ہے جہاں پلی بارگیننگ کی کوئی چھوٹ ملنے والی نہیں جہاں جزا وسزا کا نظام میرے خالق کے ہاتھ میں ہے جو عادل کون و مکاں ہے۔میں آج ایک خبر پڑھ رہا تھا کہ رمضان المبارک میں آسٹریلیا میں حلال چیزوں کی قیمتوں میں پچاس فیصد کمی کر دی جاتی ہے مجھے یہ خبر پڑھ کر بالکل بھی خوشی نہیں ہوئی بلکہ شرمندگی ہوئی اور میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ وہ غیر مسلم ہو کر حلا ل اشیائے خوردونوش کی قیمتیں نصف کر دیتے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ مسلمان ہو کر بھی اپنی حلال روزی کو ناجائز منافع خوری کے ذریعے حرام کر رہے ہیں افسوس صد افسوس ! اسی پر ہی اکتفا نہیں بلکہ اسی ناجائز منافع سے ہم لوگ نمائش کی خیرات وسخاوت کرتے ہوئے بھی بالکل نہیں ہچکچاتے بلکہ اپنی اس نمائشی سخاوت کے باقاعدہ فوٹو سیشن کر کے سوشل میڈیا کی زینت بنا کر فخر کرتے نہیں تھکتے یعنی انہی غرباء کا خون چوس کر پھر انہی میں چند بوندیں لوٹا کر ہم اپنی عاقبت سنوارنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں واہ کیا کہنے تیرے پاکستانی مسلمان غالب نے شائد اسی موقع محل کی مناسبت سے کہا تھا کہ
کعبہ کس منہ سے جائو گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
قارئین آیئے اب ذرا ہم اپنی موجودہ اور سابقہ حکومتوں کی کارفرمائیوں کا بھی اس مائہ مبارک میں جائزہ لیتے ہیں ۔۔۔پاکستان بھر کے چھوٹے بڑے شہروں میں سستے رمضان بازاروں کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے وہ ناصرف اپنی ناعاقبت اندیشی کا منہ بولتا ثبوت ہیں بلکہ بے جا اسراف کر کے قومی خزانے کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا باعث ہیں سستے رمضان بازار سجانے کے لئے جو انتظامات کئے جاتے ہیں پہلے تو انکو ایک نظر دیکھتے ہیں ٹینٹوں ،پیڈسٹل فین،جنریٹرزاور بہت ساری لائٹس کی خریداری پر ایک بھاری رقم کا ضیاع کیا جاتا ہے اور اسی طرح بہت سارے سرکاری ملازمین کی صرف ایک بازار میں ڈیوٹیاں لگا کر باقی سارے شہر کو اللہ کے بھروسے چھوڑ دیا جاتا ہے ان بازاروں میں ناخالص اشیاء کی فراوانی ہوتی ہے اول اقسام کا مال بتا کر چہارم درجے کی اشیاء عام فروخت ہو رہی ہوتی ہیں جن کو روکنے کے لئے کوئی سدباب نہیں کیا جاتا اس پر طرہ یہ کہ حکومت ان تاجروں کو سبسڈی بھی دے رہی ہوتی ہے ابھی گزشتہ سال کی بات ہے کہ ہمارے شہر شیخوپورہ میں جو آٹا سستے رمضان بازاروں کی زینت بنا ہوا تھا وہ آٹا کم اور چوکر زیادہ تھی اور پھر دس کلو والے تھیلے کا وزن بھی نو کلو یا سوا نو کلو تھا مشہور برانڈ کے آٹے والوں نے سبسڈی بھی لی اور کم تول کا آٹا دے کر غریب ماری بھی خوب کی یقین جانیں سستے رمضان بازار لگانے کی بجائے اگر اوپن مارکیٹ میں ہی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کو کنٹرول کر لیا جائے تو حکومت اضافی اخراجات سے بھی بچ جائے اور عوام کو بھی دھکم پیل سے نجات مل جائے۔
ہر کوئی اپنے گھر سے قریب ترین دوکان یا سٹور سے بغیر لائنوں میں لگ کر خوار ہونے کے بآسانی خرید کرسکے مگر ایسا کرے گا کون پرائس کنٹرول اتھارٹیز کیا کر رہی ہیں وہ پورے شہر میں چیک اینڈ بیلنس کے معیار کو کنٹرول کیوں نہیں کرتیں اوپن مارکیٹ کو بھی پابند کیا جا سکتا ہے کم نرخوں پر دستیابی پر اس طرح دنیا بھر میں ہمارا ایک شفاف چہرہ دکھائی دے گا کہ اپنے مقدس ایام میں پاکستان بھر میں ہر چیز سستی دستیاب ہوتی ہے نا کہ سستے رمضان بازار ہی میں مردوزن خجل ہوتے ہوئے دکھائی پڑیں جس قد دولت اور وقت کا زیاں ہمارے ہاں سبسڈی اور دیگر انتظامات پر ہوتا ہے اس سے بھی نجات مل جائے گی نا حکومت یہ بات سمجھتی ہے اور نہ ہی ہمارے منافع کے پجاری تاجر صاحبان ۔دنیاوی منافع سے کہیں بہتر ہے کہ یہ لوگ اخروی منافع پر دھیان دے کر نا صرف دنیا بلکہ اپنی عاقبت بھی سنوار سکتے ہیں۔
اللہ پاک نے مسلمانوں کو مائہ صیام اس لئے عطا فرمایا ہے کہ اپنی نیکیوں کے بیلنس میں اضافہ کر کے عازم بہشت ہونے کی راہ ہموار کر سکیں اور جہنم کے دہکتے ہوئے ایندھن کو اس مائہ مبارک میں اپنے نیک اعمال کے پانی سے سرد کر سکیں ۔وائے افسوس کہ ہم آتش جہنم کو اس ماہ میں ٹھنڈا کرنے کی بجائے مزید دہکانے پر لگے ہوئے ہیں میری تاجران دھرتی سے ایک ہی گزارش ہے کہ یہ مائہ مبار ک رحمتوں کے خزائن سے پر ہے ،برکتوں سے مزین ہے،اور مغفرت کے کروڑ ہا خزینے اپنے ساتھ لایا ہے ایک مسلمان کی حیثیت سے دوسرے مسلمان کے لئے آسانیاں پیدا کرو اللہ پاک آپکی آخرت کی راہ آسان فرما دے گا اور اگر اسی ماہ میں گراں فروشی کو تم نے اپنا نصب العین بنائے رکھا تو تیری روح بھی آتش جہنم کے کسی بڑے الائو کا ایندھن ضرور بنے گی طالب دنیا نہیں طالب بخشش بن کر اس بابرکت مہینے میں کاروبار بھی کرو اور عبادت بھی گراں فروشی کرو گے تو اپنی عاقبت کے دشمن بن کر جہنم میں ایون فیلڈ کے فلیٹس کے مالک بنو گے یا پھر دوزخ کے کسی ہزار سرے محل الائو کے بادشاہ لازمی بن جائو گے۔