لاہور (جیوڈیسک) پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں بدھ کی صبح ہونے والے ایک خودکش دھماکے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد دس تک پہنچ گئی ہے جبکہ بیس سے زائد زخمی افراد میں سے چار کی حالت نازک بیان کی جا رہی ہے۔
دہشت گردی کے اس واقعے کے بعد ملک بھر میں اور خصوصاﹰ لاہور شہر میں حفاظتی انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں۔ مساجد، سرکاری دفاتر اور رمضان بازاروں کی سیکیورٹی بھی بڑھا دی گئی ہے۔ بھاٹی گیٹ کے آس پاس کے علاقوں میں تمام سکول بند کروا دیے گئے ہیں جبکہ حساس مقامات پر اضافی نفری تعینات کی جا رہی ہے۔
ادھر مشہور صوفی سید علی ہجویری کے مزار کے باہر جائے واردات پر اس وقت سیکیورٹی اداروں کے اہلکار بڑی تعداد میں جمع ہیں۔ جائے واردات سے شواہد اکھٹے کیے جا چکے ہیں۔ نادرا حکام خودکش بمبار کی سی سی ٹی وی ویڈیو سے ملنے والی تصویر اور جائے واردات سے ملنے والے خودکش بمبار کے ہاتھ کی مدد سے اس کے بارے میں تفصیلات حاصل کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔
پولیس اہلکار اس وقت داتا دربار کے آس پاس کے علاقوں میں ایک سرچ آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں اور علاقے کے ہوٹلوں کی تلاشی لی جا رہی ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں ملنے والے شواہد سے پتہ چلا ہے کہ یہ ایک خود کش دھماکا تھا، جس میں سات کلو دھماکا خیز مواد اور بال بیرنگ استعمال کیے گئے۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں نے دہشت گردی کے اس واقعے کی شدید الفاط میں مذمت کی ہے۔ پاکستان کی قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا کہنا ہے کہ اس بات پر غور کیا جانا چاہیے کہ دہشت گردی کے واقعات پھر دوبارہ کیوں شروع ہو گئے ہیں جبکہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کی اس کارروائی میں ملوث عناصر کا جلد پتہ چلا لیا جائے گا۔
مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان میں ہونے والی دہشت گردی کے اس واقعے میں اگرچہ بظاہر ایک پولیس وین کو ٹارگٹ کیا گیا تھا لیکن تجزیہ نگار امتیاز عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ لاہور میں معروف صوفی بزرگ سید علی ہجویری کے مزار کے باہر ہونے والی دہشت گردی کی اس واردات میں فرقہ وارانہ پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہیے۔ ان کے بقول، ’’ہمیں ہر مرتبہ بیرونی عناصر کو مورد الزام ٹھہرا کر اپنے فرائض سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے۔ ملک میں فرقہ وارانہ تنظیموں کو جس طرح پرموٹ کیا گیا وہ اب ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر چکی ہیں، ان پر پابندی لگتی ہے تو وہ دوسرے نام سے سامنے آ جاتی ہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں امتیاز عالم کا کہنا تھا کہ اس خودکش دھماکے کے بعد ایک خوف کی ایسی فضا بنی ہے، جس میں اپوزیشن کی حکومت مخالف احتجاجی تحریک بھی متاثر ہو سکتی ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا، ’’لگتا یوں ہے کہ آٹھ ماہ میں چار آئی جی پنجاب بدلنے والی پنجاب حکومت سے امن و امان کے معاملات نہیں سنبھالے جا رہے۔ کچھ پتا نہیں کہ پی ٹی آئی کی وعدہ کردہ پولیس اصلاحات کدھر ہیں کس حال میں ہیں۔‘‘
سینیٹ کی وزارت داخلہ کی سٹینڈنگ کمیٹی کے اہم رکن اور سابق انسپکٹر جنرل پولیس سینیٹر رانا مقبول احمد نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ لاہور میں ہونے والے اس خودکش دھماکے نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور ہمیں سمجھنا ہوگا کہ دہشت گردی کو پراپیگنڈے سے نہیں بلکہ حقیقی عملی اقدامات سے ہی ختم کیا جا سکتا ہے، ’’میرے نزدیک دہشت گردی کے خاتمے کے لیے انٹیلی جنس نیٹ ورک کی مضبوطی، سیکیورٹی کے مقامی معاملات میں عوامی شمولیت، انصاف کا موثر اور بہتر نظام، اچھی حکمرانی اور بہتر معاشی حالات بھی ضروری ہیں۔‘‘
رانا مقبول کے مطابق اس وقت ملک میں معاشی ابتری کا دور دورہ ہے، عوام حکومت سے لاتعلق ہیں، دہشت گردی کی روک تھام کے اقدامات میں پہلے جیسی تیزی دکھائی نہیں دے رہی، ’’آخر کوئی تو ہمیں بتائے کہ قانون کے مطابق دہشت گردی کے واقعات کا سات دنوں میں فیصلہ ہونا ضروری ہے لیکن ایسا کیوں نہیں ہو رہا، آخر اس میں کیا رکاوٹ ہے؟‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ’’اگر دہشت گردی کے خاتمے کے لیے سیاسی جماعتوں کو کچھ عرصے کے لیے ملٹری کورٹس کو کچھ تبدیلیوں کے ساتھ قبول کرنا پڑے تو اسے بھی قبول کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
معروف صحافی اور کالم نگار روف طاہر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان کو اس وقت اپنے تین ہمسائیوں کے ساتھ بارڈر پر مسائل کا سامنا ہے، دہشت گردی کی مکمل روک تھام آسان نہیں ہے لیکن ملک میں ماضی کی نسبت اس حوالے سے صورتحال کافی بہتر ہے۔ روف کے مطابق کوشش کی جانی چاہیے کہ دہشت گردانہ واقعات کے رونما ہونے سے پہلے ہی انٹیلی جنس نیٹ ورک کے ذریعے ان کا پتہ چلایا جا سکے لیکن عوام کے عزم کو ٹھیس پہنچانے یا اپنی سیکیورٹی ایجنسیز کی صلاحیت پر شک کرنا مناسب نہیں ہے۔