اسلام آباد (جیوڈیسک) آسیہ بی بی توہین مذہب کے مقدمے سے بریت کے بعد اب پاکستان سے رخصت ہو کر کینیڈا پہنچ چکی ہیں۔ آسیہ بی بی کی بریت کے خلاف احتجاج کرنے والے حلقے ان کی پاکستان سے روانگی پر بظاہر خاموش دکھائی دیے ہیں۔
پاکستان بھر میں آسیہ بی بی کی روانگی کا شور ذرائع ابلاغ پر دیکھا گیا اور دوسری جانب مذہبی حلقوں میں خاص طور پر خاموش ردعمل محسوس کیا گیا۔ وزارت خارجہ کے ترجمان کی جانب سے تصدیقی بیان جاری ہونے پر بھی کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا اور نہ ہی کسی مذہبی لیڈر کی کوئی دھمکی سنائی دی۔
اس خاموشی کو کسی حد تک عجیب و غریب قرار دیا گیا کیوں کہ کبھی آسیہ بی بی کی رہائی پر مخصوص مذہبی حلقے جلسے، جلوسوں اور توڑ پھوڑ کی سیاست کرتے تھے۔ ابھی گزشتہ برس اکتوبر میں آسیہ بی بی کی سپریم کورٹ سے رہائی پر بھی سخت عقیدے کے علما اور اُن کے حامیوں نے احتجاجی مظاہروں کا انتظام کیا گیا تھا۔
انتہا پسند علما نے جلسے اور جلوسوں میں پاکستانی عدالت عظمی کے ججوں، مسلح افواج اور حکومتی اہلکاروں کے خلاف سخت الفاظ کا استعمال بھی کیا تھا۔ یہ بیانات تب سامنے آئے تھے جب سپریم کورٹ نے آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے مبینہ مقدمے سے پوری طرح بری کر دیا تھا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے جنوبی ایشیائی ڈائریکٹر عمر وڑائچ کا کہنا ہے کہ آسیہ بی بی کی پاکستانی سے روانگی کے معاملے پر حکومت یقینی طور پر کسی قسم کے پرتشدد اجتماع کے ردعمل کو پسند کرنا نہیں چاہتی تھی۔ وڑائچ کے مطابق حکومتی حلقوں میں یہ تاثر تھا کہ پرتشدد اجتماعات میں حکومت پر الزامات عائد کیے جا سکتے تھے کہ یہ تمام کارروائی مغربی ممالک کے ایماء پر کی گئی ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آسیہ بی بی کی رہائی کے حوالے سے مظاہرے کرنے والے مذہبی علما کی ایک بڑی تعداد اس وقت جیلوں میں ہیں۔ ان میں سے چند ایک کی ضمانتوں کے معاملات عدالتوں میں التوا کا شکار ہیں۔ خاص طور پر تحریک لبیک یا رسول اللہ کی تقریباً تمام لیڈرشپ خاموش ہے یا پھر نظر بند ہے۔