شروع اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے اور تیار رکھو اپنی طاقت اور پوری قوت اور ذرائع جنگ کے ساتھ تاکہ ہیبت طاری ہو جائے، انکے دلوں پر جو دشمن ہیں اللہ کے اور تمہارے دشمن اور ان کے علاوہ کچھ اور جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے اور جو کچھ تم خرچ کرو گے اللہ کی راہ میں اسکا صلہ تمہیں پورا پورا دیا جائیگا اور تمہارے ساتھ ہر گز ناانصافی نہیں کی جائیگی”۔اسلام امن اور بھائی چارے کا درس دیتا ہے۔ افسوس ہم نے اللہ پاک کے پسندیدہ دین ” اسلام ” کو سمجھے اورعمل کئے بغیر دین فطرت کو ظالم اور اسکے پیروکاروںکو” دہشت گرد”کے طور پر متعارف کروادیاہے۔سنت رسول ( داڑھی)والا مجاہد تو ہو سکتا ہے دہشت گرد نہیں۔ جہاں تک منکرِ خدا اور رسول ۖ کے خلاف جہاد کرنے کا حکم ہے تو وہ الہامی کتابوں میں بھی ایک جیسا ہے ۔ مثلاً قرآن کریم نے فلسطین کی سرزمین پر لڑی جانے والی ایک مقدس جنگ کا سورة البقرة میں تذکرہ کیا ہے جو جالوت جیسے ظالم حکمران کے خلاف حضرت طالوت کی قیادت میں لڑی گئی اور اس میں حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں جالوت بادشاہ کا معجزانہ طور پر خاتمہ ہوا۔ اس جنگ کا تذکرہ بائبل میں بھی موجود ہے اور اس میں حضرت طالوت کو ”ساؤل بادشاہ” کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔
قرآن کریم نے بنی اسرائیل کے حوالے سے جہاد کے ایک حکم کا تذکرہ سورة المائدہ میں کیا ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے چنگل سے بنی اسرائیل کو نکال کر صحرائے سینا میں خیمہ زن ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بنی اسرائیل کو حکم ملا کہ وہ ”بیت المقدس” کو عمالقہ سے آزاد کرنے کے لیے جہاد کریں اور آگے بڑھ کر حملہ آور ہوں۔ مگرافسوس زندگی کو موت پر ترجیح دینے والی قوم کو اس کا حوصلہ نہ ہوا اور پھر اس کے چالیس سال بعد بنی اسرائیل کی نئی نسل نے حضرت یوشع بن نون علیہ السلام کی قیادت میں جنگ لڑ کر بیت المقدس کو آزاد کرایا۔ حق و باطل کا ٹکراؤ ازل سے قیامت تک رہے گا۔ اور جیسا کہ اللہ پاک کی ذات نے اسلام کو دین فطرت کے طور پر پسند کر لیا ہے ۔ وہ خالق مالک رازق اور اسکے پیارے محبوب حضرت محمد ۖ بہتر جانتے ہیں کہ انسانی بقا ء دنیا اور آخرت کی بھلائی کے لئے کیا بہتر ہے۔ اسلام نے جو بھی حکم دیا پیارے رسول ۖ نے عملی طور پر کر کے دیکھایا۔ اسلام نے ہمیں اپنا جنگی سازو سامان ہر وقت تیار رکھنے کا حکم دیا تاکہ دشمنان خدا دشمنان اسلام ” مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچا سکیں ۔ اس بات کا اندازہ لگانے کے لئے محسنِ انسانیت ، غفور و رحیم حضرت محمد ۖ کے زیر استعمال سامان یعنی تلواروں کے متعلق جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
پیارے آقا کریم ْۖ کے پاس نو تلواریں تھیں جن میں سے دو انہیں ( اول ماثور الفجر ، دوئم الرسّوب) وراثت میں ملیں اور تین ( اول سیف الانبیاء ( البتّار) ، دوئم الحتف: ، سوئم الذوالفقار ) مال غنیمت میں حاصل ہوئیں۔ عضب تلوار ( آپ ۖ کو تحفے میں ملی تھی)۔ ان نو میں آٹھ تلواریں ترکی کے شہر استنبول میں واقع توپ کاپی عجائب گھر میں محفوظ ہیں اورایک ( العضب تلوار)مصر کی ایک جامع مسجد میں موجود ہے۔سیف الانبیاء :۔یہ تلوار سرکارِ دو عالم نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یثرب کے یہودی قبیلے (بنو قینقاع) سے مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی۔یہ نبیوں کی تلوارکے نام سے منسوب ہے سیف الانبیاء کو ( البتّار) تلوار بھی کہا جاتا ہے۔ اس تلوار پر حضرت داؤود علیہ السلام’ سلیمان علیہ السلام’ ہارون علیہ السلام’ یسع علیہ السلام’ زکریا علیہ السلام’ یحییٰ علیہ السلام’ عیسی علیہ السلام اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اسماء مبارکہ کنندہ ہیں۔ یہ تلوار حضرت داؤود علیہ السلام کو اس وقت مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی جب ان کی عمر بیس سال سے بھی کم تھی۔ اس تلوار پر ایک تصویر بھی بنی ہوئی ہے جس میں حضرت داؤود علیہ السلام کو جالوت کا سر قلم کرتے دکھایا گیا ہے جو اس تلوار کا اصلی مالک تھا۔تلوار پر ایک ایسا نشان بھی بنا ہوا ہے جو”بترا” شہر کے قدیمی عرب باشندے (البادیون) اپنی ملکیتی اَشیاء پر بنایا کرتے تھے۔ یہی وہ تلوار ہے جس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس دنیا میں واپس آنے کے بعد ‘کانے دجال’ کا خاتمہ کریں گے اور دشمنانِ اسلام سے جہاد کریں گے۔ تلوار کی لمبائی 101 سینٹی میٹر ہے اور آجکل یہ تلوار ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر”توپ کاپی”استنبول میں محفوظ ہے۔
ماثور الفجر :یہ تلوار حضوراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے والد ماجد کی وراثت کے طور پر نبوت کے اعلان سے قبل ملی تھی۔ یہ تلوار ایک اور نام ”الماثور” سے بھی مشہور ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جب یثرب کی طرف ہجرت فرمائی تو یہی تلوار آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس تھی۔بعد میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ تلوار بمع دیگر چند آلاتِ حرب حضرت علی علیہ السلام کو عطا فرما دیئے تھے۔ اس تلوار کا دستہ سونے کا بنا ہوا ہے اور دونوں اطراف سے مڑا ہوا ہے۔ مزید خوبصورتی کیلئے اس پر زمرد اور فیروزے جڑے ہوئے ہیں۔ تلوار کی لمبائی 99 سینٹی میٹر ہے اور یہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر”توپ کاپی”استنبول میں محفوظ ہے۔ الحتف: یہ تلوار حضرت داؤود علیہ السلام کے مبارک ہاتھوں سے بنی ہوئی ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے لوہے کے سازوسامان خاص طور پر ڈھالیں’ تلواریں اور دیگر آلاتِ حرب بنانے میں خصوصی مہارت عطا فرمائی تھی۔ یہ تلوار بھی نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یثرب کے یہودی قبیلے بنو قینقاع سے مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی۔ حضرت داؤود علیہ السلام نے اس تلوار کو”البتّار” سے ملتا جلتا لیکن سائز میں اْس سے بڑا بنایا۔ لحتف تلوار کی لمبائی 112 سینٹی میٹر اور چوڑائی 8 سینٹی میٹر ہے۔ یہ تلوار یہودیوں کے قبیلے لاوی کے پاس اپنے آباء و اجداد بنو اسرائیل کی نشانیوں کے طور پر نسل در نسل محفوظ چلی آ رہی تھی حتیٰ کہ آخر میں یہ ہمارے پیارے نبی کے مبارک ہاتھوں میں مالِ غنیمت کے طور پر پہنچی۔ ایہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر ”توپ کاپی”استنبول میں محفوظ ہے۔
الذوالفقار:یہ تلوار ہمارے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو غزوہِ بدر میں مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے یہ تلوار حضرت علی علیہ السلام کو عطا فرما دی تھی۔غزوہِ اْحد میں حضرت علی علیہ السلام اسی تلوار کے ساتھ میدانِ جنگ میں اْترے اور مشرکینِ مکہ کے کئی بڑے بڑے سرداروں کو واصلِ جہنم کیا۔اکثر حوالے اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ تلوار خاندانِ حضرت علی علیہ السلام میں باقی رہی۔اس تلوار کی وجہِ شہرت یا تو دو دھاری ہونے کی وجہ سے ہے یا پھر اس پر بنے ہوئے ہوئے دو نوک نقش و نگار کی وجہ سے ہے اوریہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر”توپ کاپی”استنبول میں محفوظ ہے۔
الرسّوب:یہ تلوار ہمارے پیارے نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ملکیتی 9 تلواروں میں سے ایک تلوار ہے۔ خاندانِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں یہ تلوار نسل در نسل منتقل اور محفوظ ہوتی رہی۔ الرسّوب تلوار پر سنہری دائرے بنے ہوئے ہیں جن پر حضرت جعفر الصادق علیہ السلام کا اسم گرامی کنندہ ہے۔ تلوار کی لمبائی 140 سینٹی میٹر ہے اور یہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر ”توپ کاپی”استنبول میں محفوظ ہے۔
المِخذم:تلوار کی دو روایات ہیں۔اول یہ تلوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت علی علیہ السلام کو عطا فرمائی اور بعد میں اولادِ علی علیہ السلام میں وراثت کے طور پر نسل در نسل چلتی رہی۔ دوئم المِخذم تلوار سیدنا علی علیہ السلام کو اہلِ شام کے ساتھ ایک معرکے میں مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی۔ اس تلوار پر”زین الدین العابدین”کے الفاظ کنندہ ہیں۔ تلوار کی لمبائی 97 سینٹی میٹر ہے۔ اور یہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر ”توپ کاپی”استنبول میں محفوظ ہے۔
القضیب:یہ تلوار سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ دفاع یا رفیقِ سفر کے طور پر تو ضرور موجود رہی مگر اس تلوار سے کبھی کوئی جنگ نہیں لڑی گئی۔ تلوار پر چاندی کے ساتھ”لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ’ محمد بن عبداللہ بن عبد المطلب” صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے الفاظ کنندہ ہیں۔یہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِزمانہ عجائب گھر ”توپ کاپی”استنبول میں محفوظ ہے القضیب تلوار ہمیشہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھر میں موجود رہی لیکن فاطمیوں کے عہد خلافت میں اس تلوار کو استعمال کیا گیا۔ تلوار کی لمبائی 100 سینٹی میٹر ہے اور اس تلوار کی میان کسی جانور کی کھال کی بنی ہوئی ہے۔
العضب:یہ تلوار مصر کے شہر قاہرہ کی مشہور جامع مسجد الحسین بن علی علیہما السلام میں محفوظ ہے۔العضب تلوار جس کے معنی ہیں تیز دھار والی’ نبی کریم غفور و رحیم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو صحابی ِ رسول ۖ حضرت سعد بن عبادہ الانصاری نے غزوہ اْحد سے قبل تحفہ دی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اْحد والے دن یہی تلوار معروف صحابی حضرت ابو دجانہ الانصاری کو عطا فرما دی تاکہ وہ میدانِ جنگ میں اْتر کر اللہ اور اْس کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دشمنوں پر اسلام کی قوت و عظمت کا مظاہرہ کریں۔
القلعی: حضور پاک صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دادا حضرت عبد المطلب نے اس تلوار اور سونے کے بنے ہوئے دو ہرنوں کو زمزم کے کنویں سے نکلوایا تھا جو قبیلہ جرہم الحمیریہ (حضرت اسماعیل علیہ السلام کے سسرالی قبیلے) نے یہاں پر ایک زمانہ قبل دفن کئے تھے۔ بعد میں حضرت عبد المطلب علیہ السلام نے اس تلوار کو بمعہ دیگر قیمتی سامان بیت اللہ میں حفاظت سے رکھوا دیا۔تلوار پر دستے کے قریب یہ الفاظ کنندہ ہیں (ترجمہ:یہ تلوار محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے گھرانے کی عزت کی علامت ہے)۔ تلوار کی خوبصورت میان اسکو دوسری تلواروں میں ایک نمایاں مقام دیتی ہے ۔ ایک قسم کی دھات کا نام ہے جو دیگر دھاتی چیزوں کو چمکانے یا ان پر پالش چڑھانے کے کام آتی ہے ۔ ۔ تلوار کی لمبائی 100 سینٹی میٹر ہے ا اس تلوار کی وجہ تسمیہ ہو سکتی ہے۔ یہ تلوار ان تین تلواروں میں سے ایک ہے جو ہمارے پیارے نبی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو یثرب کے یہودی قبیلے بنو قینقاع سے جنگ میں مالِ غنیمت کے طور پر حاصل ہوئی تھیںور آجکل یہ تلوار بھی ترکی کے مشہورِ زمانہ عجائب گھر ”توپ کاپی”استنبول میں محفوظ ہے۔