اللہ تعالیٰ نے قرآن میں زکوٰة صاحبِ نصاب مسلمانوں پر ایک مقررہ حساب سے فرض کی ہے۔ ” نماز قائم کرو اور زکوة دو’ ‘ (البقرة۔ ١١٠) زکوٰة کے علاوہ بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لیے قرآن شریف کی سورت البقرة میں ارشاد ہوا”یہ قرآن اللہ کی کتاب ہے ،اس میں کوئی شک نہیں،یہ پرہیزگاروں کو دنیا میں زندگی کا سیدھا راستہ بتاتا ہے ،اور پرہیزگار وہ ہیں جو غیب پر ایمان لاتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور جو رزق ہم نے اُن کو دیا ہے اس میں سے خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں” (البقرہ۔١تا٣) زکوٰة ہر زمانے میں دین اسلام کے اہم ترین ارکان رہی ہے تمام انبیا کی طرح انبیائے بنی اسرائیل نے بھی اس کی سخت تاکید کی تھی مگر یہودی اس سے غافل ہو چکے تھے زکوٰة دینے کے بجائے یہ لوگ سُود کھانے لگے تھے۔ توحیو اور نماز کے بعدزکوٰةاسلام کا تیسرا ستون ہے جس پر اسلام کی عمارت کھڑی ہے ۔اس کی اہمیت کو آپ اس طرح سمجھیں کے نماز کے بعد زکوٰة کا ذکر قرآن شریف میں بار بار آتا ہے ۔زکوٰة کے معنی پاکی کے ہیں جب انسان اپنے مال سے زکوٰة نکالتا ہے تو اس سے اپنا مال پاک کر لیتا ہے اصل میں جو مال اللہ نے انسان کو دیا یہ اس کا اپنا نہیں ہے یہ مال اللہ کا ہے اور اللہ نے اس مال میں سے حاجتمندوں کا حصہ رکھااور اس حصے کو اپنے مال سے نکالنا مسلمان پر فرض کر دیا گیا ہے۔
ایک شخص زکوٰة نہیں نکالتا تو وہ فرض کی ادائیگی نہیں کر رہا، تو یہ گناہ ہے۔اور گناہ کا اللہ تعالیٰ کو آخرت میں حساب دینا پڑے گا۔ زکوٰة کے انکار پر جنگ حلیفہ اوّل نے لوگوں سے جنگ کی۔ دوسری عبادات کی کوئی قیمت نہیں رہتی اگر زکوٰة نہ نکالی جائے۔خلیفہ ِ رسول ۖ حضرت ابوبکر نے زکوٰة کا انکار کرنے والے شروع کے مسلمانوں کے خلاف جہاد کیا جیسے کافروں کے ساتھ کیا جاتا ہے اور فرمایا میں ان کے ساتھ اس وقت لڑتارہوں جب تک وہ اونٹ کی رسی جو رسول ۖ اللہ کے زمانے میں دیتے تھے نہ دیں۔ زکوٰة تمام انبیا کے دین میں فرض تھی۔قرآن کو اُٹھا کے دیکھیں تمام انبیاء کی امتوں کو اس کا حکم دیا گیا تھا۔حضرت عیسیٰ نے جب گہوارے میں سے اللہ کے حکم سے لوگوں سے بات کی تھی تو دوسری باتوں کے علاوہ یہ بات بھی کی تھی کہ مجھے اللہ نے نماز اور زکوٰة کا حکم دیا ہے۔ حضرت ابراھیم اور اور ان کی نسل کے انبیاء کواللہ تعالیٰ نے نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے کا حکم دیا تھا۔ زکوةاگرچہ تمام شریعتوں میں جز رہی ہے۔لیکن اس کے احکا م تمام شریعتوں میں الگ الگ رہے ہیں۔شکر نعمت کا فطری تقاضہ یہ ہے آدمی راہ خدا میں مال خرچ کرئے۔اللہ کی نعمت کے وہی لوگ مستحق ہیں جو زکوة دیں۔ زکوٰة اللہ ہی کو پہنچتی ہے۔
اللہ صدقہ دینے والوں کو جزا دیتا ہے۔زکوة ایک ذریعہ ہے تزکیہ نفس کا۔جیسے بتایا گیا ہے کہ زکوٰة کے معنی پاک کرنے کے ہیں ۔یعنی زکوٰة دے کر انسان اپنے نفس کو پاک کرتا ہے۔ زکوة کی اہمیت اسلام کے دستور میں قانونی ہے اسی لیے مانعین زکوة کے خلاف حضرت ابوبکر نے جنگ کی۔ وہ انقلاب عظیم جو اس کے ادا کرنے کا نتیجہ ہے آخر ت کی کامیابی کی صورت میں نکلتا ہے اور دنیا میں بھی اس کے ثمرات ملتے ہیں ۔اسی لیے رسول ۖ اللہ نے فرمایا تم میری لائی ہوئی شر یعت کو نافذ کر دو تم ہاتھوں میں دولت لیے لیے پھرو گے تمہیں کوئی حقدار نہیں ملے گا۔ مطلب لوگ مالدار ہو جائیں گے۔ زکوٰة کی تنظیم نے عربوں کی زندگی میں عظیم انقلاب برپا کیا۔ زکوٰة کی دین میں بہت ہی اہمیت ہے اسی لیے زکوٰة کا نماز کے بعدبار بار قرآن میں ذکر ہے۔اسلامی حکو مت کی ذمہ داری ہے کہ وہ زکوٰة کی وصولی کا انتظام قائم کرے ملک کے دولت مند مسلمانوں سے نصاب کے مطابق زکوة وصول کرے اور مندرجہ ذیل حاجتمندوں میںتقسیم کا انتظام قائم کرے ۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے خاندان یعنی بنی ہاشم پر زکوة لینا حرام ہے۔قرآن شریف میں زکوة کی آٹھ مدّات کا حکم ہے۔( ١)فُقراء :۔ زکوة فقیروں کے لیے جو تنگ دست ہوں۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی زندگی بڑی مشکل سے گزار رہے ہوں مگر کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلاتے ہوں۔(٢)مساکین :۔مساکین وہ ہیں جو اپنی ضروریات پوری نہیں کر سکتے۔
یہ بہت ہی تنگ دست لوگ ہیں جو اپنی ضروریات پوری نہیں کر سکتے کمانے کے قابل ہوں مگر روزگار نہ ملتاہو۔(٣) عا ملین علیہا :۔یعنی زکوة کا مصرف زکوة وصول کرنے پر جو مامورہوں۔ اسلامی حکومت ان کو جو کچھ تنخواہ کی مد میں دے ۔(٤)۔موئلفةالقلوب :۔ زکوٰة اُن کے لیے جن کی تالیف قلب مطلوب ہوںیعنی جو لوگ نئے نئے مسلمان ہوئے ہوں یا جنکی اسلام دشمنی کو کم کرنے میں مدد کی ضرورت ہو ۔(٥) فی الّرقاب :۔اس سے مراد جو شخص غلام ہواسکو آ زاد کرانے میں یعنی غلاموں کی آزادی کے لیے زکوة کا استعمال جائز ہے۔آجکل جیل کے اندر قیدحقدار قیدیوں کی رہائی کے لیے زکوٰة استعمال کیا جا سکتی ہے۔ (٦) الغارمین :۔اس سے مراد جو لوگ قرضدار ہو ں مگر اپنا قرض ادا نہ کر سکتے ہوں ان کا قرض ادا کرنے کے لیے زکوة استعمال کی جا سکتی ہے۔(٧)فی سبیل اللہ:۔اللہ کے دین کو قائم کرنے کے لیے یعنی جہاد کے لیے زکوة استعمال کی جا سکتی ہے کوئی شخص مال دار ہے مگر اللہ کے دین کو قائم کرنے میں لگا ہوا ہے اس کو بھی ز کو ة دی جا سکتی ہے۔(٨) ابنُ السّبیل:۔ اگر کوئی شخص مسافر ہے اور اسے پیسے کی ضرورت ہے اس کی زکوة میں سے مدد کی جاسکتی ہے چاہ وہ اپنے ملک میںما لدار ہی کیوں نہ ہو۔ زکوٰہ کاادا کرنا ایمان لانے والوں کی لازمی ذمہ داری ہے۔اس کا انتظام اسلامی حکومت کی لازمی ذمہ داری میں شامل ہے۔
زکوٰة سے غفلت نہ برتنے والے ہی ہدایات پاتے ہیں۔اس سے مال گٹھتا نہیں بڑھتا ہے۔اس کے ادا کرنے کا حکم ہے۔اس کے ادا کرنے کا نتیجہ آخر ت کی کامیابی ہے۔ زکوٰة کی دین میں بہت ہی اہمیت ہے ز کوٰة دینے کے بعد بھی آدمی کے مال میں اللہ کا حق رہتا ہے۔زکوٰة کی فرضیت کا حکم مدینہ میں نازل ہوا۔زکوة مال کو پاکیزہ کرتی ہے۔حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے نبی ۖ نے فرمایا جس کو اللہ نے مال دیا اور اُس نے اُس کی زکوٰة نہیں دی تو اس کا مال قیامت کے دن گنجے سانپ کی صورت میں جس کی آنکھوں پر دو سیا ہ نقطے ہوںگے پیش کیا جائے گا پھر وہ اس کی دونوں باچھیں پکڑ کر کہے گا میںتیرا مال ہوں ۔ میں تیرا خزانہ ہوں ۔ (بخاری)حضرت ابوذر سے روایت ہے کہ رسول ۖ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص کے پاس اونٹ، گائیں یا بکریاں ہوں اور وہ اِن کا حق (یعنی زکوٰة) ادا نہ کرے تو قیامت کے دن یہ چیزیں بہت بڑی فربہ شکل میں لائی جائیں گی اور اپنے پیروںسے کچلیں گی اور سینگوں سے ماریں گی ۔حضرت ابو ہریرہ فرماتے ہیں کہ بنی صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا ”جب تم نے اپنے مال کی زکوٰة (مفروضہ) ادا کی تو تم اللہ کے حق سے سبکدوش ہو گئے اور جس نے حرام مال جمع کیا اور اسے اللہ کی راہ میں دیا تو اس پر اسے کوئی اجر نہیں ملے گا بلکہ الٹا گناہ ہو گا” (ترغیب بحوالہ ابن خزیمہ،ابن حبان)۔
صاحبو!رسولۖ اللہ نے فرمایا کہ تم میری لائی ہوئی شہریت نافذ کر دو تو تم پیسے لیے ہوئے پھرو گے مگر کوئی حق دار تمھیں نہیں ملے گایعنی زکوٰة کے نظام رائج ہونے سے لوگ خوشحال ہو جائیں گے۔کیا مسلمانوں کی موجودہ بدحالی معیشت کاو خوشحالی میں بدلنے کا راز زکوٰہ نفاذ میں پنہاں نہیں؟مسلمان مملکتوں کو اپنی ہاں مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست قائم کریں جو میںزکوٰة کا نظام شامل ہے۔ پھر مسلمانوں میں خوشحالی آ جائے گی۔ آئی ایم ایف اور دیگر سودی ورضے دینے والوں سے جان چھوٹ جائے گی۔