نئی دہلی (جیوڈیسک) بھارت میں پارلیمانی انتخابات کا طویل سلسلہ اپنے اختتام کے قریب پہنچ گیا ہے۔ تیئیس مئی کو یہ وناضح ہو جائے گا کہ بھارت میں اگلی حکومت بھارتیہ جنتا پارٹی کا اتحاد قائم کرتا ہے یا اُسے مزید اتحادی درکار ہوں گے۔
بھارت میں لوک سبھا کی انسٹھ نشستوں کے لیے ووٹنگ شروع ہو گئی ہے۔ بارہ مئی کی پولنگ میں 101 ملین سے زائد رجسٹرڈ ووٹرز اپنے ووٹ کا استعمال کر سکتے ہیں۔ اتوار بارہ مئی کی پولنگ کے بعد بھارتی پارلیمان کے ایوانِ زیریں کی مجموعی نشستوں 543 میں سے 483 پر ووٹنگ مکمل ہو جائے گی۔ بقیہ ساٹھ نشستوں کا الیکشن ساتوں مرحلے میں انیس مئی کو ہو گا۔
آج دارالحکومت نئی دہلی کے سات حلقوں میں بھی ووٹ ڈالے جا رہے ہیں۔ اتوار کو ہونے والی ووٹنگ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی ایک امیدوار پراگیا سنگھ ٹھاکر بھی شامل ہیں جنہیں سن 2008 کے بم حملے میں ملوث خیال کیا گیا ہے۔ خاتون امیدوار ٹھاکر ان دنوں ضمانت پر ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے نریندر مودی دوسری مدتِ وزیراعظم کے امیدوار بھی ہیں۔
بھارتی الیکشن کا ساتواں اور آخری مرحلہ انیس مئی کو مکمل ہو گا۔ گیارہ مئی سے شروع ہونے والے سات مرحلوں کا انتخابی عمل انتالیس ایام پر محیط ہے۔ ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی تیئیس مئی کو ہو گی۔
گزشتہ پانچ پولنگ مرحلوں میں ووٹ ڈالنے کی شرح سڑسٹھ فیصد رہی۔ یہ تقریباً سن 2014 کے پارلیمانی انتخابات میں ڈالے گئے ووٹوں کی شرح کے مساوی ہے۔ ابھی تک رائے عامہ جائزوں کے مطابق موجود انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی سب سے زیادہ نشستیں حاصل کرنے کی پوزیشن میں ہے۔
مختلف تجزیہ کاروں کے مطابق مختلف ریاستوں کی علاقائی سیاسی جماعتیں حکومت سازی میں کلیدی کردار کی حامل ہوں گی۔ حیدرآباد یونیورسٹی کے سیاسیات کے پروفیسر کے سی سوری نے اس موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ جاری انتخابات کے بعد کئی علاقائی سیاسی جماعتیں اپنی نئی حیثیت کے تناظر میں اہمیت حاصل کرتے ہوئے قومی دھارے میں شامل ہو کر اپنا کردار ادا کرسکیں گی۔
بھارتی پارلیمانی انتخابات جوں جوں مکمل ہو رہے ہیں توں توں نریندر مودی اور انڈین نیشنل کانگریس کے درمیان الزامات کی جنگ بھی شدت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ چھٹے مرحلے کی انتخابی مہم کے دوران مودی نے کانگریس کے لیڈر راہول گاندھی کے والد سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کو ’ کرپٹ نمبر ایک‘ قرار دیا۔ مودی کو پہلے ہی راہول گاندھی اپنے انتخابی جلسوں میں ’چور‘ کے لقب سے نواز چکے ہیں۔