اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ بندرگاہی شہر گوادر میں پرل کانٹینینٹل ہوٹل پر حملے میں ملوث تمام چار حملہ آور ہلاک کر دیے گئے، جب کہ اس واقعے میں کم از کم ایک تین محافظ اور ہوٹل کے دو ملازمین مارے گئے۔
حکام کے مطابق گیارہ مئی بروز ہفتہ چار مسلح حملہ آوروں نے گوادر کے پانچ ستارہ پرل کانٹینینٹل ہوٹل پر حملہ کیا اور وہاں ایک محافظ کو گولی مار کر ہوٹل میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ تاہم حکومتی بیان کے مطابق اس حملے کے بعد فوری کارروائی کرتے ہوئے ہوٹل میں موجود تمام مہمانوں کو بہ حفاظت نکال لیا گیا جب کہ حملہ آوروں کے ساتھ سکیورٹی فورسز کی جھڑپ میں تمام حملہ آور مارے گئے۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق اس دہشت گردانہ حملے میں تین سکیورٹی گارڈز کے علاوہ ہوٹل کے دو ملازمین مارے گئے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ ہوٹل میں داخل ہونے والے ان حملہ آوروں کے ساتھ مسلح جھڑپ کئی گھنٹوں تک جاری رہی۔
واقعے کے بعد جاری کردہ ایک فوجی بیان میں کہا گیا ہے کہ حملے کے فوری بعد سیکورٹی دستوں نے کارروائی کی اور تمام مہمانوں اور ملازمین کو بہ حفاظت ہوٹل سے نکال لیا گیا۔
ایک بلوچ علیحدگی پسند گروہ ’بلوچستان لبریشن آرمی‘ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے اور کہا ہے کہ اس کے چار جنگجو اس حملے میں شامل تھے۔ اس تنظیم نے اپنے بیان میں حملہ آوروں کی تصاویر بھی جاری کی ہیں۔ دوسری جانب حکام نے کہا ہے کہ یہ حملہ آور سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں مارے گئے۔
ایک سرکاری عہدیدار نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ واقعے کے بعد فوج نے پرل کانٹینینٹل ہوٹل اور گردونواح کے علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ سکیورٹی اہلکاروں نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر بتایا ہے کہ اس واقعے کے بعد علاقے میں تلاشی کا کام بھی جاری ہے۔
واضح رہے کہ یہ ہوٹل پاکستان اور چین کے اشتراک سے تعمیر ہونے والے گوادر بندرگاہ کے قریب واقعے ہے۔ گوادر بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے جنوب مغرب میں سات سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
بلوچستان کے علاقے دکی میں واقع چمالانگ ایشیاء میں کوئلے کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے، جو ساٹھ کلومیٹر طویل اور بیس کلومیٹر چوڑے علاقے میں پھیلا ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس علاقےمیں پانچ سو ملین ٹن کوئلہ موجود ہے، جس کی مالیت دو ہزار ارب روپے سے زائد ہے۔
رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں طویل عرصے سے پرتشدد واقعات رونما ہو رہے ہیں، جہاں ایک طرف مسلم عسکریت پسند گروہ فعال ہیں تو دوسری جانب متعدد علیحدگی پسند گروہ بھی سرگرم ہیں۔
یہ بات اہم ہے کہ اسی صوبے میں چند روز قبل عسکریت پسندوں نے ایک بس میں سوار 14 سکیورٹی اہلکاروں کو شناخت کے بعد قتل کر دیا تھا۔ پاکستان نے دعویٰ کیا تھا کہ حملہ آور ایران سے پاکستان میں داخل ہوئے اور یہ کارروائی کی۔