سری لنکا: مسلم مخالف فسادات کے بعد کرفیو، سوشل میڈیا پر پابندی

Sri Lanka Curfew

Sri Lanka Curfew

کولمبو (جیوڈیسک) سری لنکا میں مسلم مخالف فسادات کے بعد سوشل میڈیا پر پابندی لگاتے ہوئے عام صارفین کی فیس بک اور واٹس ایپ تک رسائی معطل کر دی گئی ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک حالیہ پوسٹ کے بعد یہ فسادات کئی شہروں میں شروع ہو گئے تھے۔

سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو سے پیر تیرہ مئی کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق جنوبی ایشیا کی اس جزیرہ ریاست کے کئی شہروں اور قصبوں میں حال ہی ہونے والے مسلم مخالف فسادات اس سال مسیحی تہوار ایسٹر سنڈے کے موقع پر کیے جانے والے انتہائی ہلاکت خیز خود کش بم حملوں کے ضمنی نتائج کی تازہ ترین کڑی ہیں۔

پولیس نے بتایا کہ یہ فسادات اس وقت شروع ہوئے جب ایک مقامی دکاندار کی طرف سے فیس بک پر شائع کیے گئے ایک پیغام کے بعد ملک کے شمال مغربی قصبے چیلاو میں مقامی آبادی سے تعلق رکھنے والے مشتعل مسیحی باشندوں نے مسلمانوں کی دکانوں پر حملے شروع کر دیے۔

اس دوران ملکی سکیورٹی دستوں نے ان مشتعل مسیحی باشندوں کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ بھی کی لیکن اس کے باوجود یہ بدامنی پھیل کر قریبی قصبوں تک پہنچ گئی، جہاں کئی مقامی مسلمان شہریوں کی کاروباری املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ ان فسادات میں ممکنہ جانی نقصان کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔

سر لنکا میں 21 اپریل کو تین گرجا گھروں اور تین ہوٹلوں پر عسکریت پسند جہادیوں کی طرف سے کیے جانے والے سلسلہ وار خود کش بم حملوں میں 258 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس دہشت گردی کے بعد سے اب تک اس ملک میں حالات کشیدہ ہیں اور ماضی کے مقابلے میں بہت کچھ تبدیل ہو چکا ہے۔

پولیس نے بتایا کہ چیلاؤ اور اس کے نواحی قصبوں میں کل اتوار کو پیش آنے والے بدامنی کے واقعات کے بعد وہاں رات کا کرفیو لگا دیا گیا تھا، جس میں آج پیر کے روز پہلی بار کچھ نرمی کر دی گئی۔ اس کے علاوہ عام صارفین کی فیس بک اور واٹس ایپ جیسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی بھی معطل کر دی گئی ہے، تاکہ اس طرح بدامنی کو ہوا نہ ملے۔

اے ایف پی نے لکھا ہے کہ چیلاؤ کے جس مسلمان دکاندار کی ایک فیس بک پوسٹ ان فسادات کی وجہ بنی، اس میں لکھا گیا تھا، ’’بہت ہنسو مت، ایک روز تم روؤ گے۔‘‘ اس فیس بک پوسٹ کو چیلاو کے مقامی مسیحی باشندوں نے اپنے طور پر ایک ایسی دھمکی سمجھا تھا، جس کا مطلب، ان کے نزدیک، مسیحیوں پر کیا جانے والا کوئی نیا حملہ ہو سکتا تھا۔

اس پوسٹ کے شائع کیے جانے کے بعد مقامی مسیحی باشندوں نے نہ صرف اس مسلمان دکاندار کی دکان پر حملہ کر دیا تھا بلکہ ساتھ ہی انہوں نے ایک قریبی مسجد کو بھی نقصان پہنچایا تھا۔ اس پر سکیورٹی دستوں نے ہوائی فائرنگ کر کے ان بلوائیوں کو منتشر کر دیا اور ساتھ ہی علاقے میں اتوار کی سہ پہر سے پیر کی صبح تک کا کرفیو بھی لگا دیا گیا تھا۔

سری لنکا میں مسلمانوں کی ایک مرکزی تنظیم آل سیلون جمیعت العلماء (اے سی جے یو) نے کہا ہے کہ ایسٹر سنڈے کے دن مقامی مسلم عسکریت پسندوں کی طرف سے کیے جانے والے خود کش بم حملوں کے بعد سے ملک میں عام مسلمانوں کو شبے کی نظر سے دیکھنے کا رجحان بہت بڑھ گیا ہے۔

اس تنظیم نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، ’’ہم مقامی مسلم آبادی کے تمام ارکان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ محتاط رہتے ہوئے صبر کا مظاہرہ کریں اور سوشل میڈیا پر کسی بھی طرح کے غیر ضروری پیغامات پوسٹ کرنے سے احتراز کریں۔‘‘

اسی دوران سری لنکا میں انٹرنیٹ خدمات مہیا کرنے والے ٹیلیکوم اداروں نے بھی تصدیق کر دی ہے کہ حکام نے انہیں فیس بک، واٹس ایپ، انسٹاگرام اور ایسے دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک عام صارفین کی رسائی عبوری طور پر روک دینے کی ہدایت کی ہے۔

سری لنکا کی اکثریتی طور پر بدھ مت کی پیروکار اور کل 21 ملین کی قومی آبادی میں مسلم اقلیت کا تناسب تقریباﹰ 10 فیصد اور مسیحی اقلیت کا تناسب تقریباﹰ 7.6 فیصد بنتا ہے۔