اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کو آئی ایم ایف کی طرف سے آئندہ تین برسوں کے دوران چھ بلین ڈالر قرض ملے گا۔ تجزیہ کاروں کی رائے میں پاکستان کو آئندہ بھی آئی ایم ایف کی سخت شرائط کا سامنا کرنا پڑے گا۔
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے مطابق پاکستان پر غیر ملکی قرضوں کا بوجھ 90 بلین ڈالرز سے تجاوز کر چکا ہے اور گزشتہ پانچ برسوں کے دوران ملکی برآمدات میں مسلسل کمی واقع ہوئی۔ شیخ کا مزید کہنا تھا، ’’اس لیے پاکستان آئی ایم ایف سے چھ بلین ڈالرز حاصل کرے گا۔ اس کے علاوہ آئندہ تین برسوں کے دوران ورلڈ بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک سے بھی دو سے تین بلین ڈالرز حاصل کیے جائیں گے۔‘‘
اس حوالے سے امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز ميں شائع ہونے والی رپورٹ میں کہا گیا ہے، ’’ اس پیل آؤٹ پیکج کے ذریعے پاکستان کے روپے کی قدر کا دارومدار مارکیٹ طے کرے گی۔ لہذا روپے کی قدر میں مزید گراوٹ کا امکان ہے جبکہ شرح سود میں بھی اضافہ ہو گا۔‘‘
آئی ایم ایف کے اس قرضے پر پاکستان مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں بطور وزیر خزانہ کام کرنے والے مفتیٰ اسماعیل نے ٹوئٹر پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا،’’ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ہم 800 ارب روپے ٹیکس کی مد میں جمع کريں۔ اگلے سال ٹیکس کے ذریعے ایک ہزار ارب روپے اضافی چاہیے ہوں گے۔ لہذا بے روزگاری بڑھے گی اور مہنگائی بھی۔ معیشت کی سست روی غربت بڑھائے گی۔‘‘ مفتیٰ اسماعیل کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے معاہدے میں دہشت گردی کے لیے مالی مدد اور کالے دھن کو روکنے کی بھی بات کی ہے جس کا مطلب ہے کہ آئی ایم ایف فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے فیصلوں کو بھی مد نظر رکھے گا۔
اس پيش رفت پر صحافی طلعت حسین کا کہنا تھا،’’ آئی ایم ایف پاکستان اور پاکستان کے اسٹیٹ بینک کو بتا رہا ہے کہ کیا کرنا ہے، پیسہ کیسے خرچ کرنا ہے، کتنا پیسہ بچانا ہے، کون سی پالیسی کتنی دیر چلانی ہے اور پالیسی بنانی کیسے ہے، سب کچھ بک گیا ہے؟‘‘
صحافی ثنا بچہ نے لکھا،’’ آئی ایم ایف نے ہمیں اپنی شرائط پر یہ بیل آؤٹ پیکج دیا ہے۔ پیسے دینے والے نے شرائط رکھیں اور پیسے لینے والے نے قبول کر لیں۔ میں مر جاؤں گا قرضہ نہیں لوں گا کا نعرہ آپ کو ووٹ تو دلا سکتا ہے لیکن ووٹ کےبعد آپ کو دراصل نوٹ چاہیں۔ پیسہ بیانیہ نہیں آئی ایم ایف دیتا ہے۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کی رکن شیری رحمان نے اس حوالے سے ٹوئٹر پر لکھا،’’ تبدیلی سرکار سے غلامی سرکار تک کا سفر ختم ہو گیا۔ دوسری حکومتوں نے بھی آئی ایم سے قرضہ لیا لیکن کبھی معیشت پر اس طرح قبضہ نہیں کیا گیا تھا۔‘‘
آئی ایم ایف سے قرضہ لیے جانے سے متعلق پاکستانی مشیر خزانہ کا کہنا ہے، ’’تجارتی خسارہ 20 بلین ڈالرز تک پہنچ گیا ہے جبکہ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر میں بھی گزشتہ دو برسوں کے دوران 50 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ لہٰذا سالانہ ادائیگیوں کا عدم توازن 12 بلین ڈالرز تک پہنچ گیا ہے اور ہمارے پاس اسے پورا کرنے کے ذرائع موجود نہیں ہیں۔‘‘