اللہ تعالیٰ نے انسان کو فطرت سلیم پر پیدا کیا ہے ۔عقل اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ انسان زندگی کے ہر گوشہ میں قدم اٹھانے سے پہلے سوچ و بچار سے کام لے لے خاص طورپر اپنے بچوں کے رشتوں اور تعلیم و تربیت سے متعلق تو کسی صورت پہلوتہی درست نہیں۔عبرت کے طورپر واقعہ ذیل میں درج کیا جارہاہے۔ایک ذہین طالبہ کا واقعہ ہے کہ وہ تعلیم کے تمام مراحل کو امتیازی درجات سے طے کرتی رہی۔یہاں تک کے وہ اس قابل ہوگئی کہ وہ انجینئرنگ کے شعبہ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرسکے۔لیکن افسوس اس کے خاندان نے اس کو اس خواہش کی تکمیل سے منع کردیا۔اس کو بتایا گیا کہ انجینئرنگ کا شعبہ خواتین کے لیے نہیں ہے اس میں صرف لڑکوں کو تعلیم حاصل کرنی چاہیے نہ کہ خواتین کو بھی!!!دوسری بات یہ ہے کہ کسی طرح درست نہیں کے بلڈنگز و عمارتوں کی تعمیر کی نگرانی میں خاتون مردوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہو۔اسی طرح یہ بھی کہا گیا کہ عورت کا کام بچے پیدا کرنا اور گھر کا خیال رکھنا اور خاوند کی دیکھ بھال کرنا ہے اس کے علاوہ عورت کی ذمہ داری کچھ بھی نہیں۔لڑکی نے بہتیری کوشش کی کہ گھروالے کسی طرح رضامند ہوجائیں اور وہ اپنی تعلیم کا سفر جاری رکھ سکیے۔مگر آخر کارگھروالوں کی آرزو و تمنا کے مطابق طالبہ نے اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کی خواہش ترک کرتے ہوئے اپنے گائوں واپسی کا فیصلہ کیا اور وہاں چچازاد سے شادی کرلی۔کیونکہ اس کے والدین اور اس کے سسرال کی یہ آرزو تھی کہ گائوں کی زمین کی دیکھ بھال کا انتظام خود کیا جائے بجائے اس کے کہ کوئی غریب اس پر معمور کیا جائے۔
لڑکی نے چچا زاد سے شادی کرلی جو تعلیم یافتہ نہیں تھا بلکہ متوسط شدبد کا حامل تھا تعلیمی میدان میں۔اس کا خاوند کاروبار و تجارت کے پیشہ سے وابستہ تھا اور اس کے ہاں تین بچوں اور ایک بیٹی کی ولادت ہوئی ۔اس خاتون کی عادت تھی کے وہ اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارتی اور ان کو علوم و معارف کی تعلیم دیتی رہتی تھی۔بچوں نے مشاہدہ کیا کہ ان کی والدہ ان کی خوب آہ وبھگت کرتی ہے اور ان کی تربیت اور معلومات کی درستگی کا اہتمام بھی کرتی ہے۔والدین کے مابین گفت و شنید ہوتی تو بچے بخوبی احساس کرلیتے تھے کہ ان کی ماں کا طرز کلام شستہ اور مہذبانہ ہے اور ان کی ماں علمی اعتبار سے اپنے خاوند سے بڑھی ہوئی ہے اور وہ اس کے لیے کوشاں ہے کہ بچے مختلف علوم و فنون کی پہچان حاصل کرلیں۔جبکہ باپ کا طرز عمل سراسر ماں کے خلاف تھا کہ وہ علمی طورپر مستحکم و قابل قدر رائے و فکر کا حامل نہیں ہوتا۔
باپ کو اس بات کی درک حاصل ہوگئی تو بجائے اس کے کہ وہ اپنی اصلاح کرتا اس نے تکبرورعونت کو اختیار کرتے ہوئے اپنی جہالت میں مزید پختہ ہوگیا ۔اس کے ساتھ بچوں نے دیکھا کہ ان کا باپ گھر سے دنوں کے دن غائب ہورہاہے اور باپ نے اپنے کاروبار میں اپنے بڑے بیٹے کو شریک کرلیا تھا۔بیٹے نے باپ کی طرح مال و متاع سے محبت کرلی اور وہ پیسہ جمع کرنے میں مصروف ہوگیا اور تعلیم کو ترک کردیا۔ ایسے میں باپ نے اپنا سارا کاروبار جواں بیٹے کے حوالے کردیا اوراس نے جاکر دوسری شادی کرلی اور اس سے اس کی تین بیٹیاں اور یک بیٹا پیدا ہوا یوں اس کے کل آٹھ بچے ہوگئے۔بیٹے کو جب علم ہوا باپ کی شادی کا تو اس نے اپنی ماں کو بتایا اور بیٹے نے کاروبار سے حاصل شدہ مال کا آدھا وہ لے لیتا تھا اپنے لیے اور دوسرا دھا حصہ اپنے ذاتی کاروبار کے لیے جمع کرتارہا۔ایسے میں باپ مال و دولت سے ہاتھ دھوبیٹھا اور اس کے پاس اس قدر بھی پیسے نہ رہے کہ وہ بچوں کے نان نفقہ پر خرچ کرے۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بچوں نے تعلیم چھوڑ دی ۔پہلی بیوی جو اعلیٰ تعلیم یافتہ تھی وہ غم و الم کو سہہ کردل گرفتہ ہوگئی کہ اب وہ کس طرح بچوں کا پیٹ پالے لہذا اس نے پیرانہ سالی میں ایک سکول میں نگران کی ذمہ داری پر کام شروع کردیا۔
لڑکی کا باپ پریشان و غمگین ہوا کہ اس نے اپنی بیٹی کو کیوں تعلیم جاری رکھنے سے منع کیا تاکہ وہ شادی کرلے لیکن اب باپ کا غمگین ہونا کس فائدہ کا؟جہاں تک زمین کا مسئلہ ہے تو دوسری بیوی میراث میں شامل ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی دوسری بیوی نے مستقبل کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے خاوند سے اس کی زمین کا زیادہ حصہ اپنے نام کرالیاتاکہ اس کے بچے زمانے کے تھپیڑوں سے محفوظ ہوسکیں۔لڑکی کا باپ عاجز ہوگیا بوڑھاپے کی وجہ سے کہ وہ اپنے بھائی کے بیٹے سے بیٹی کے حق کی بات کرسکے کیونکہ وہ تو ہاتھ سے نکل چکا تھا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لڑکی اور لڑکے کے والد ین نے اپنی آنکھوں سے پوتوں کی لڑائی کو دیکھا کہ ہر ایک اس بات کا خواہشمند تھا کہ وہ اپنا حصہ لے لے اس طرح زمین اور اولاد دونوں سے باپ و داد ہاتھ دھو بیٹھے۔
معاشرے میں سب سے بڑی مشکلات و مصائب باپ و خاوند کے جرائم کی بدولت ظہور پذیر ہوتے ہیں۔وہ اس بات کا بالکل خیال نہیں رکھتے کہ بچوں کو مستقبل میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑسکتاہے اور اس سے نجات کیسے ممکن ہوگا۔ معاشرے کی اجتماعی غلطیوں کی وجہ سے اولاد کی زندگیوں میں طوفان برپا ہوجاتا ہے جس کے باعث وہ طریق ہدایت اور سمجھنے و اور سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتے ہیں۔اس وجہ سے نوجوانوں میں شد ت و غلظت اور نفرت کے جذبات پروان چڑھ جاتے ہیں کہ وہ خاندان کے افراد سے نفرت و کراہیت محسوس کرنے لگتے ہیں۔
حضورۖ کا ارشاد عالی شان ہے کہ جس کسی نے بری عادت کو رواج دیا اس کا گناہ اتناہی ہے جس قدر اس پر عمل کرنے والے کا ہوتاہے۔سوچیے اگر وہ طالبہ اپنی تعلیم مکمل کرلیتی اور انجینئر بن جاتی تو وہ کسی ایسے شخص سے شادی کرلیتی جو اس کا کفو ہونے کے ساتھ اس کا احترام کرتا۔لڑکی کے باپ نے خاوند کے کفو ہونے کا بھی احساس نہیں کیاجبکہ فقہ حنفی میاں بیوی کے درمیان کفاء ة کو لازمی قراردیتے ہیں کہ ان میں برابری ہونی چاہیے۔کفاء ة شادی میں، تعلیم و تہذیب میں بھی ضروری ہے جیسے کہ دین صحیح میں بھی یہ برابری کو بیان کیا گیا ہے۔
آپۖ نے فرمایا کہ اگر کسی نے اپنی بیٹی کو فاسق کے ساتھ بیاہ دیا تو اس نے قطع تعلقی کی۔اسلام تو انسانیت کی سعادت کے لیے آیا ہے۔ایسا نہیں کہ ہر شخص اپنے خاندان کا جنازہ نکالتارہے جانتے بوجھتے یا نادانی میں۔دین کی درست تفہیم کا نہ ہونا جاہلوں کو اسلام پر تنقید کا موقع فراہم کرتاہے۔شادی کے مسائل اور تربیت اولاد کی اہمیت معاشرے میں از سرنو نظرثانی کا متقاضی ہے تاکہ انسانی معاشرہ خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن ہوسکے۔انسان کو بخوبی معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو ہلاکت و پستی میں مبتلا نہیں کرتا یہاں تک کہ وہ خود اس کا اپنے ہاتھوں سے سامان نہ تیار کرچکے ہوں۔انسانی معاشرے کے مقدر طبقوں پر لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت اور رشتوں میں پرونے جیسے لمحات کو باریک بینی سے طے کریں تاکہ دین و دنیا کے خسارے سے بچا جا سکے۔