مسلم ممالک سے جنگ امریکہ کی”مجبوری“ کیوں ہے؟۔ کئی سالوں سے یہ بحث جاری ہے کہ آخر دنیا میں امن کب قائم ہو گا۔ عراق، شام، فلسطین، کشمیر، افغانستان، یمن سمیت دیگر مسلم ممالک میں جاری جنگ میں امریکی اسلحہ ہی استعمال ہورہاہے۔جوہری ہتھیار تیار کرنے والے ممالک سے جنگ امریکہ کی مجبوری ہے کیونکہ امریکہ خوددنیا میں سب سے خطرناک جوہری ہتھیار تیار کرنے والوں ممالک میں سرفہرست ہے۔ امریکہ معیشت میں اہم کردار اسلحہ کی تجارت کا ہے جس پر امریکہ کبھی بھی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ مختصر جائز ہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ افغانستان سے امریکی واپسی کے ساتھ ہی اسلحہ تجارتی جنگ ختم ہو جائے گی۔اس رپورٹ سے امریکا کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔
اسلحہ کی تجارت کو برقراررکھنے کے لیے امریکہ ایران سے جنگ کرنے جارہاہے کیونکہ ایران کے شمال میں آرمینیا، آذربائیجان، ترکمانستان اور بحیرہ قزوین، مشرق میں افغانستان اور پاکستان، جنوب میں خلیج فارس اور خلیج اومان جبکہ مغرب میں عراق اور ترکی واقع ہیں۔جہاں سب سے زیاد ہ امریکہ اسلحہ فروخت ہوتا ہے۔ اسلحہ کی تجارتی جنگ میں ایران سمیت دیگر مسلم ممالک کو امریکہ کی جانب سے کئی اقتصادی پابندیوں کا سامنا ہے اب مغر بی میڈیاکی جانب سے دعویٰ سامنے آیا ہے کہ امریکا نے ایران کے خلاف جنگ شروع کرنے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔امریکا نے 1 لاکھ 20 ہزار فوجی مشرق وسطیٰ میں تعینات کرنے کیلئے روانہ کر دیے ہیں۔ دوسری جانب امریکی فوج نے ایران کے ساتھ کشیدگی اور ممکنہ محاذ آرائی کے خدشے کے پیش نظر بی52 جنگی طیاروں کے بعدایف 15 اور ایف 35 جہاز بھی خلیجی ملکوں کے اڈوں پر پہنچا دیئے ہیں۔امریکی فضائیہ نے بھی اس خبر کی تصدیق کی ہے کہ یہ طیارے قطر میں قائم امریکی فوجی اڈے پر پہنچائے گئے ہیں۔ قطر میں موجود امریکی فوجی اڈے پرB-52H طیاروں کی موجودگی کی تصاویر جاری کی گئی تھیں۔ یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی صدرڈنلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایرانی تیل کی برآمدات کو صفر تک لے جانے کے اعلان کے بعد ایران اور امریکا کے درمیان سخت کشیدگی پائی جا رہی ہے۔ ایران نے مشرق وسطیٰ میں امریکی مفادات پرحملوں کی دھمکی دی ہے جس کے بعد امریکا نے فوری کارروائی کی تیاری کرتے ہوئے اپنا ایک جنگی بیڑا مشرق وسطیٰ میں پہنچا دیا ہے۔امریکہ اس قسم کے جوہری ہتھیار تیار کرنے پر پاکستان سے احتجاج کرتا رہا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ پاکستان اس پروگرام کو ختم کر دے۔
اس حوالے سے نیو یارک ٹائمزمیں رواں سال شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ”ہوائی جہاز‘ ٹرین یا سڑک کنارے چلتے کسی دھماکے میں جان گنوانے کے خوف نے پہلے ہی لوگوں کی نیندیں اڑا رکھی تھیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث دنیا کی تباہی کا خوف کیا کم تھا کہ اب کرہ ارض کے جوہری جنگ سے فنا ہونے جانے کے ڈراؤنے خواب نے دنیا کو آن لیا ہے۔ 80ء کی دہائی کے وسط میں امریکہ اور سوویت یونین نے اپنے 63000جوہری ہتھیاروں کی حادثاتی تباہی سے دنیا کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنے اپنے جوہری ذخائر کی تلفی کی یقین دہانی کروائی تھی۔ اس کے بعد سات برس تک عالمی برادری کے احتجاج اور دونوں ممالک کے دفاعی اخراجات میں بے انتہا اضافے کی وجہ سے دونوں ممالک تباہی کے دہانے سے واپس لوٹنے پر آمادہ ہوئے اور تخفیف اسلحہ کی سفارت کاری کا آغاز ہوا۔ سوویت یونین کے انحطاط کے باعث یہ عمل مزید تیز ہوا اور عالمی سطح پر جوہری ہتھیاروں کے ذخائر میں 90فیصد کمی واقع ہوئی یہ عمل دھائیوں سے آج بھی جاری ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے روسی ہم منصب ولادی میر پوٹن جو عالمی جوہری ہتھیاروں کے ذخائر کے 90فیصد حصے پر کنٹرول رکھتے ہیں دونوں ہی 1987ء کے تخفیف اسلحہ کے معاہدے کو ترک کرنے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے 310میل سے 3100میل تک مار کرنے والے نصب شدہ کروز میزائل کو تلف کیا گیا تھا۔ ابھی تو دونوں رہنماؤں نے 2010ء کے نیو سٹارٹ معاہدے کے تحت بین البراعظمی بلاسٹک میزائل سٹریٹجک سسٹم اور ہتھیاروں کی کمی کے معاہدے کے حوالے سے بھی سنجیدہ مذاکرات کا آغاز بھی کرنا ہے۔
خاص طور پر امریکہ ان مذاکرات میں کسی قسم کی دلچسپی کا اظہار نہیں کر رہا۔ الٹا ماسکو اور واشنگٹن نہ صرف اپنے پرانے ہتھیاروں کو بہتر کر رہے ہیں بلکہ نئے جوہری ہتھیار بھی بنانے میں مصروف ہیں۔ صرف امریکہ ہی گزشتہ ایک دھائی میں 494بلین ڈالر سے زائد ہتھیارں کی تیاری پر صرف کر چکا ہے۔ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے دونوں ممالک کی باہمی کشمکش کے باعث بھارت، شمالی کوریا اور پاکستان بھی اپنے اسلحہ کے ذخائر میں اضافہ کر رہے ہیں۔ جوہری ہتھیاروں کے بلٹن کے ماہرین کے تجزیہ جو گزشتہ ماہ شائع ہوا ہے، کے مطابق اس وقت جوہری تصادم کے خطرات سرد جنگ کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ 1987ء کے تخفیف اسلحہ کا معاہدہ میں دیگر بے شمار اسلحہ کے علاوہ صرف درمیانے درجے تک مار کرنے والے 2ہزار 6سو 92نصب شدہ میزائلوں کو تلف کیا گیا تھا۔ جس کے بعد عالمی جوہری جنگ کا خدشہ کافی حد تک کم ہو گیا تھا۔ امریکی صدر ٹرمپ کا یہ کہنا درست سہی کہ روس نے صدر اوباما کے دور اقتدار میں کروز میزائل نصب کر کے آئی این ایف معاہدے کی خود خلاف ورزی کی ہے مگر ان کا سٹیٹ یونین سے خطاب میں یہ کہنا درست نہیں کہ ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں بچا کہ وہ اس معاہدے سے نکل جائیں۔
صدر ٹرمپ کے جواب میں پوٹن نے 2فروری کو کہا ہے کہ اگر امریکہ آئی این ایف معاہدے کی پاسداری کرتا ہے تو ہم بھی کریں گے اگر امریکہ نئے ہتھیار بناتا ہے تو پھر روس بھی ایسا ہی کرنے پر مجبور ہو گا۔ اس بات کا کوئی امکان نہیں کہ معاہدے کو بحال رکھنا ممکن ہو گا۔ معاہدہ ختم ہونے کے بعد روس امریکہ تعلقات بھی تباہی کی طرف گامزن ہوں گے۔ اگر یہ معاہدہ ختم ہوتا ہے اس بات کا خدشہ بڑھ جائے گا کہ روس اور امریکہ 2010ء کے معاہدے پر بھی قائم نہ رہیں گے۔ دونوں ممالک میں بین البراعظمی میزائلوں کی تنصیب کی دوڑ لگ جائے گی بلکہ 2021ء میں معاہدے کی روح سے دونوں ممالک پر جوہری ڈیٹا کی فراہمی اور ہتھیاروں میں مسلسل کمی کا معاہدہ بھی ختم ہو جائے گا۔ کسی نئے معاہدے کے نہ ہونے یا پرانے معاہدے کی توثیق نہ ہونے کی وجہ سے جوہری ہتھیاروں کی پیداوار کا نظام بے لگام ہو جائے گا۔ مطلب یہ کہ اب تک تو 1972ء میں دونوں ممالک کے درمیان جوہری ہتھیاروں کی تصدیق اور حدود کے معاہدہ پر عمل درآمد ہوتا چلا آرہا ہے ان حالات میں پوٹن تو پہلے یہ متنبہ کر چکے ہیں کہ روس ناقابل تسخیر ہائپر سونگ میزائل بنانے جا رہا ہے جو آواز کی رفتار سے بھی 5گناہ زیادہ تیز ہو گا۔ جبکہ امریکہ تو ابھی تک درمیانے درجے کے میزائل بنا رہا ہے جو کسی روز یورپ میں نصب ہونا ہیں۔ اس سال کے آخر تک توقع کی جا رہی ہے کہ امریکہ ایسے جوہری میزائل بنانے میں کامیاب ہو گا جن کو فائر کرنے کے لئے دیوہیکل گاڑیوں کی ضرورت نہ ہو گی۔
گزشتہ ماہ ہی ٹرمپ نے میزائل جوہری پروگرام کو بیچ منجدھار چھوڑ کر خلا میں میزائل نصب کرنے کا اعلان کر دیا ہے جو بظاہر سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن کی خلائی جنگ کے ادھورے خواب تکمیل کا عزم ہے۔ مگر ریگن کو تو جوہری تصادم کے نقصانات کا بھر پورادراک تھا اس لئے وہ تخفیف اسلحہ کے لیے مذاکرات کے زبردست حامی بھی تھے۔ نیو سٹارٹ سے تو اسلحہ کے ذخائر میں مزید کمی ہو سکتی ہے۔ مگر سات برس سے دونوں ممالک کے درمیان جوہری عدم پھیلاؤ کے حوالے سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ اگر یہ عمل رک جاتا ہے تو امریکہ یورپ یہاں تک کہ خودروس بھی پہلے سے کئی گنا غیر محفوظ ہو جائے گا۔ اب جبکہ ڈیمو کریٹس کے ایڈم سمتھ آرمڈ سروسز کمیٹی کے چیئرمین منتخب ہو چکے ہیں تو ان کو امریکہ کی اگلی دہائی کے لئے جوہری ڈاکٹرائن کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لینا چاہیں اگر ٹرمپ یونہی معاہدے سے نکلنے کے لئے دباؤ بڑھا تے ہیں تو کانگریس کو چاہیے کہ وہ اسلحہ کی ماڈرنائیزیشن کے بجٹ کو روک لے۔ کمیٹی اسلحہ کی تجدید کے لئے خرچ ہونے والے اربوں ڈالر کو معاہدے کی توثیق اور باراک اوباما کے نیو سٹارٹ معاہدے پر پیش رفت لئے سودے سازی کے استعمال کر سکتی ہے۔ روس سے بڑھ کر جوہری ہتھیاروں پر وسائل خرچ کرنے کی ڈھینگ جو ٹرمپ نے ماری ہے اس نے دھائیوں تک دنیا کو جوہری تصادم کی طرف دھکیل دیا ہے۔ ایسی جنگ جو سراسر حماقت ہے اور اسلحہ کی ایسی دوڑ جس کی فتح کا نظارہ کرنے کے لئے کوئی نہیں بچے گا۔