اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے جنوبی حصے کے ایک گاؤں میں ایچ آئی وی وائرس وبا کی طرح پھیل گیا ہے۔ اس گاؤں کے کئی افراد میں اس وائرس کی موجودگی کی تشخیص ہو چکی ہے۔
جنوبی پاکستانی صوبے سندھ کے شہر لاڑکانہ کے نواح میں واقع گاؤں وسایو میں ایچ آئی وی وائرس کے وبائی پھیلاؤ کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے حالانکہ یہ وائرس کسی باقاعدہ وبائی جرثومے کی طرح نہیں پھیلتا۔ اس کی وجہ ایک ڈاکٹر کی طرف سے کئی مریضوں کے لیے ایک ہی سرنج استعمال کرنا بتائی گئی ہے۔
اس وائرس کی تشخیص کے واقعات کے بعد وسایو کے باسیوں میں شدید خوف پیدا ہو چکا ہے۔ یہ مقامی باشندے اپنے اپنے اہل خانہ کے ساتھ ایک ایچ آئی وی اسکریننگ مرکز کے باہر اپنی باری کے منتظر دکھائی دیتے ہیں۔ سندھ کے صوبائی محکمہٴ صحت نے وسایو کے تمام افراد کی مکمل اسکریننگ کے لیے اس مرکز کے پانچ کمروں میں کلینیکل ٹیسٹس کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ اس دوران وہاں پولیس کی اضافی نفری بھی متعین کر دی گئی ہے تا کہ مشتعل جذبات کے حامل لوگ ہنگامی آرائی نہ کریں۔
صوبائی محکمہٴ صحت کے مطابق چار سو سے زائد افراد میں ایچ آئی وی وائرس کی تشخیص ہو چکی ہے۔ ان میں سے زیادہ تر بچے ہیں۔ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس گاؤں میں ایچ آئی وی وائرس کی اتنی زیادہ موجودگی کے انتہائی منفی اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔ طبی طور پر یہ متاثرین مخصوص حالات میں یہ وائرس دیگر انسانوں کو بھی منتقل کر سکتے ہیں۔
حکام نے ایچ آئی وی وائرس کے اس پھیلاؤ کے حوالے سے واضح کیا ہے کہ یہ المناک صورت حال ایک ڈاکٹر کی ممکنہ غفلت کے ساتھ ساتھ اُس کی دانستہ مجرمانہ ذہنیت کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے۔ عارضی اسکریننگ مرکز کے باہر کلینیکل ٹیسٹ کروانے والے بہت سے افراد آج جمعرات سولہ مئی کو بھی وہاں انتظار کرتے دیکھے گئے۔
ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ وسایو کے اس عارضی ایچ آئی وی اسکریننگ مرکز میں ضروری طبی آلات اور ماہرین کی اب تک فراہمی بھی تسلی بخش نہیں ہے۔ یہ صورت حال متاثرین اور ممکنہ متاثرین کے لیے مزید تشویش اور بے چینی کا سبب بن رہی ہے۔
اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق براعظم ایشیا میں ایچ آئی وی وائرس کے پھیلاؤ کی رفتار کے حوالے سے پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔ مزید پریشانی کی بات یہ بھی ہے کہ وہاں مقامی آبادی اگر پہلے ہی بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے تو ساتھ ہی عوام کو دستیاب اوسط طبی سہولیات بھی سرے سے ناکافی ہیں۔