خوب صورت، حسن فطرت، پرسکون ماحول، صحت مندانہ ماحول،محبت کرنے والے لوگ 80 فیصد دیہاتوں میں آباد ہیں۔ حسن فطرت کی فراوانی ہوتی ہیں فطرت کو اپنے اصلی روپ میں دیکھنا ہوتو گاؤں سے بہتر اور کوئی جگہ نہیں انگریزی کا مقولہ ہے کہ ”دیہات خدا نے بنائے اور شہر انسان نے“خاص طور پر صبح وشام کے مناظر قابل دید ہیں صبح کا منظر دلفر یب ہوتا ہے مگر شام کا منظر بھی اپنے اندر کچھ کم کشش نہیں ہوتی یہ مناظراس قدر دلفر یب ہوتے ہیں کہ دل چاہتا ہے کہ دیکھتا ہی چلا جائے۔لہلہاتے ہوئے کھیت ہرے بھرے سایہ دار درخت،کھلی فضا اور تازہ ہوا گاؤں والوں کے لیے قدرت کا بہت بڑا عطیہ ہیں۔
ماحول بہت پر سکون ہوتا ہے۔ یہ خداداد چیز ہے شہر کے لوگ شہر کی ہنگامہ پرور زندگی سے اکتا کر قلب کی تلاش میں بالعموم دیہات کا رخ کرتے ہیں۔ ماحول صاف ستھرا ہوتا اور صحت مندانہ ہے دیہاتی لوگ کھلی فضا اور سادہ مکانات میں رہتے ہیں محنت مشقت کرتے ہیں تازہ ہوااورخالص غزا کھاتے ہیں یہی وجہ ہے کی وہ شہری لوگوں کی نسبت زیادہ توانا اورصحت مند ہوتے ہیں کسی کا بلڈ پریشر کی بیماری نہیں نہ کوئی شوگرکا مر یض ہے نہ دل کے والو بند ہونے کا۔ لوگ بہت سادہ اور مخلص ہوتے ہیں ان کی زندگی میں تکلف، بناوٹ، ریاکاری،مکروفریب،اور دکھاوا نہیں ہوتا وہ خلوص اور صاف دلی کا پیکر ہوتے ہیں وہ بالکل صاف نیت اور سیدھے سادے ہوتے ہیں اور ان کی زندگی میں کوئی ایچ پیچ نہیں ہوتا۔لوگ قناعت پسند ہوتے ہیں وہ طمع،لالچ،اور حرص اورحرص سے دور ہوتے ہیں وہ اپنی قسمت پر صابر شاکر رہتے ہیں اور اس لیے اطمینان کی زندگی بسر کرتے ہیں۔
گاؤں کے لوگ اخوت و محبت کے نمونے ہوتے ہیں وہ ایک دوسرے سے دلی محبت کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے دکھ درد میں برابر شریک ہو تے ہیں پورا گاؤں گویا ایک خاندان ہوتا ہے گاؤں کی زندگی میں ایک شخص کے غم اور ایک شخص کی خوشی کو سب کی خوشی سمجھتاہے۔گاؤں کے لوگ بہت ملنسار اور مہمان نواز ہوتے ہیں جب ان کے ہاں کوئی مہمان آتا ہیں تو بیحد خوشی کا اظہار کرتے ہیں اور اپنی بساط سے بڑھ کراس کی خاطر مدارت کرتے ہیں۔دیہاتی لوگ سستی اور کاہلی سے کوسوں دور ہوتے ہیں وہ سخت محنت اور مشقت کے عادی ہوتے ہیں چنانچہ کسان کی محنت ضرب المثل ہے وہ محنت اور مشقت سے اناج لگاتے ہیں اور وہی دنیا کی خوارک بنتا ہے۔
شہروں اور قصبوں میں یہ بحث زدعام ہے کہ ملک کے ہر شعبہ کی حالت دگر گوں ہے، تعلیم، صحت، روزگار، پینے کا صاف پانی، گورننس الغرض مجھے تو کوئی بھی ایسا شعبہ نظر نہیں آتا جو عوام کی بنیادی ضروریات سے وابستہ ذمہ داریوں کو احسن طریقے سے نبھا رہا ہو۔ جس طرف دیکھو بے حسی ہے، اداروں پر عوام کا اعتبار نہیں رہا، سرکاری اہلکار عام لوگوں کو بھیڑ بکریاں سمجھتے ہیں، اداروں اور لوگوں کی رابطہ کاری کا تصور ہی دم توڑ چکا ہے، اختیارات کا نا جائز استعمال ہر ادارے میں بڑی دیدہ دلیری اور چسکے کے طور پر ہو رہا ہے۔
لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے کیونکہ شہرکے بڑھے لکھے لوگ اپنے مرضی کی زندگی جینا چاہتے ہے اور دیہات کے لوگ خداکی نعمتوں کا شکر اداکرتے ہیں۔ ان کو کسی بھی بحث کی کوئی ضرورت پیش نہیں آتی۔دوسری جانب دیہاتی لوگوں کوجوبات پریشان کرتی ہے وہ یہ ہے کہ کسان سخت محنت اور مشقت سے فیصل کی حفاظت کرتے ہیں۔جب فائدہ کا موقع آتا ہے تو اپنی نااہلی چھپانے والے سرکاری اہلکار کسانوں سے فیصل چھین لیتے ہیں اور بد نام حکومت وقت کو کرتے ہیں۔اس حوالے پنجاب حکومت نے گندم خریدنے کے لیے جو ہدف مقررکیے اور اسلسلے میں جو اقدامات کئے وہ قابل تحسین ہیں۔وزیراعظم عمران خان،وزیراعلیٰ پنجاب سردارعثمان بزدارکی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔اس کے ساتھ افسوس کی خبر یہ بھی ہے چند کرپٹ اہلکار حکومت وقت کے احسن اقدامات کے برعکس کام کررہے ہیں۔
احکام کو اس کا نوٹس لینا چائے۔گزشتہ روزایک ایسا ہی واقعہ ضلع نارووال کے نواحی شہرقلعہ احمد آباد میں پیش آیا کہ گاؤں چند بویاں گندم کی ٹریکٹرٹرالی پر رکھے تین،چار کسانوں فروخت کرنے کے لئے قلعہ احمد آباد شہر آئے۔اس دوران محکمہ خوراک نارووال کے فوڈ انسپکٹر محمد شفیق کی نظر ٹریکٹرٹرالی پرپڑی تو اس نے روک لیا۔کسانوں کا بغیر موقف لیے فوڈ انسپکٹر محمد شفیق نے پولیس کی مددسے گندم کی ٹرالی اپنے قبضے میں لے لی۔اور کہا کہ یہ لوگ بہت بڑے گندم کے سمگلر ہیں۔ان کیخلاف قانونی کاروائی کرنا ہمارا حق ہے۔اس حوالے سے قومی اخبارات میں شائع ہونے والی خبر یں،اہل علاقہ اور کسانوں کا احتجاج محکمہ خوراک نارووال کے فوڈ انسپکٹر محمد شفیق کے موقف کی نفی کرتی ہیں۔ خبر کے مطابق کاروائی کے دوران فوڈ انسپکٹر محمد شفیق کا کہنا تھا کہ ہمیں وزیراعلیٰ، وزیرخوراک پنجاب نے زبانی حکم دیا کہ ضلع بندی کرکے پولیس کی مددسے کسانوں سے زبردستی گندم سرکاری گوداموں میں لے کر جائیں۔
پنجاب میں زبانی حکم نامے اور فوڈانسپکٹرمحمدشفیق کی کاروائی سے لگتا ہے کہ پنجاب کو چند کرپٹ لوگ سند ھ میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں کیونکہ سندھ کے دیہاتوں میں دو یا تین سردار خاندان عام طور پر دو سو مربعے سے لے کر 4 سو مربع تک زمین کے مالک ہوتے ہیں. دیہاتوں کی تقریباََ 75 فیصد آبادی سرداروں اور وڈیروں کی ان زمینوں پر بطور ہاری کام کرتی ہے۔ اور یہ ہاری اپنی عورتوں اور بچوں سمیت کھیتوں میں کام کاج میں مصروف رہتے ہیں.
کہنے کو تو یہ دیہات سرکاری قانون کے تحت ہیں لیکن حقیقت میں دیہاتوں کا سارا نظام وڈیروں کے ہاتھ میں ہے۔اور گاؤں میں رہنا ایک طرح سے وڈیرے کی رضا مندی کے ساتھ مشروط ہے. دیہاتی لوگ کچے مکانوں اور جھونپڑیوں میں رہتے ہیں. صفائی کی صورتِ حال انتہائی خراب ہے. گاؤں کے سکولوں میں کتے بھونکتے ہیں. دیہات کے آدھے سے زیادہ بچے کھیتوں میں کام کاج کے علاوہ آوارہ گردی کرتے ہیں جبکہ بقیہ آدھوں کو گاؤں کے مدرسے میں جانے کی توفیق ہے. سو میں سے 30 مرد اور سو میں سے 10 عورتیں اپنا نام وغیرہ لکھ سکتی ہیں.ملیریا، ہیپاٹائٹس، پیٹ اور سانس کی بیماریاں عام ہیں.
ضرورت اس امر کی ہے حکومت پنجاب جعلی حکم نامے پر کاروائی کرنے والے کرپٹ افسروں کے خلاف نوٹس لیں تاکہ سابق روایت ختم ہوں اور تحریک انصاف حکومت کے قابل تحسین اقدامات کو ثمر کسانوں کو مل سکے اورپنجاب میں کسان خوشحالی سے زندگی بسر کر سکیں۔