دولت اسلامیہ (داعش) نے پہلی مرتبہ مبینہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نے بھارت میں ایک ‘صوبہ’ بنا لیا ہے، جس کا نام ولایت الہند رکھا گیا ہے۔ دہشت گردتنظیم کی طرف سے یہ اعلان ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب مقبوضہ کشمیر میں مسلح مزاحمت کاروںاور بھارتی سکیورٹی فورسز کے مابین ایک تازہ جھڑپ ہوئی ہے۔دولت اسلامیہ( داعش ) کی نیوز ایجنسی عماق نے اس نئے صوبے کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اس کے” جہادیوں” نے شوپیاں ڈسٹرکٹ کے علاقے امشپورہ میں ہوئی ایک جھڑپ میں بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ہے۔ دوسری طرف بھارتی پولیس نے بھی کہا ہے کہ شوپیاں میں جمعے کی شام ہوئی جھڑپ میں جنگجو اشفاق احمد صوفی ہلاک کر دیا گیا ہے، جو مشتبہ طور پر اس جہادی تنظیم کے ساتھ وابستگی رکھتا تھا۔مقبوضہ کشمیر میں حریت پسند وں کی جانب سے آزادی کی تحریک کو کسی نہ کسی طریقے سے دہشت گردی سے جوڑے جانے کی روایت پہلے بار سامنے نہیں آئی ہے۔ بلکہ بھارتی حکومت کا معتصبانہ اور انتہا پسند پالیسی کی بنا پر مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کے خلاف عالمی بنیادوں پر پروپیگنڈا کرکے تحریک آزادی کو بد نام کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے۔2017 میں مہر خبررساں ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق دہشت گرد تنظیم داعش نے پہلی بار ہندوستان کے زیر انتظام کشمیر کے شہر سرینگر میں حملے کی ذمہ د اری قبول کی ہے۔
مبینہ داعش کے اس حملے میں ایک پولیس اہلکار ہلاک جبکہ ایک زخمی ہواتھا۔ داعش نے ایک بیان میں حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مزید حملوں کی دھمکی دی تھی۔ مقبوضہ کشمیر میں داعش کی موجودگی کا دعویٰ اُس وقت بھی سامنے آیا جب28دسمبر2018 کو جمعہ کے روز مقبوضہ کشمیر میں ایک ایسا واقع رونما ہوا تھاجس سے کشمیریوں میں شدید غم و غصے پیدا ہوا وہیں ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی۔ سرینگر کی تاریخی جامع مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد کچھ نقاب پوش نوجوان داعش کا جھنڈا لہراتے ہوئے مسجد میں گھس آئے تھے جن میں سے ایک نے منبر پر چڑھ کر داعش کے حق میں نعرے بازی شروع کی اور ساتھیوں نے اسکی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وایرل کر دی۔ اس نازیبا حرکت کے خلاف تما م دینی سیاسی سماجی جماعتوں نے شدید مذمت کی تھی۔سید علی شاہ گیلانی نے کہا ”یہ صرف کشمیر کی مقامی جدو جہد کو عالمی دہشت گرد گروپوں کیساتھ جوڑنے کی ایک مذموم کوشش کی گئی۔میر واعظ عمر نے مسجد کے منبر کی توہین کے خلاف ایک احتجاجی مارچ کے دوران کہا نقاب پوش نوجوانوں کی طرف سے مسجد کی توہین کے پیچھے سرکاری ایجنسیوں کا ہاتھ ہے”۔
داعش کو شام و عراق میں شکست کے بعد سیکورٹی ماہرین کو خدشہ رہا ہے کہ داعش کے جنگجو دنیا کے مخلتف حصوں میں داعشی فتنے کے نظریئے کو پھیلانے کی کوشش کریں گے ۔ داعش کی جانب سے اپنی غیر اعلانی نیوز ویب سائٹ پر مقبوضہ کشمیر کو اپنا صوبہ قرار دینے کے بعد خطے میں ایک نئی سازش کی باقاعدہ بنیاد رکھ دی گئی ۔ داعش سے منسوب عماق نیوز ایجنسی عموما دولت اسلامیہ کی دہشت گردی کے واقعات کی ذمے داری قبول کرنے سے متعلق بیان جاری کرتی رہی ہے ۔ عالمی ذرائع ابلاغ میں عماق نیوز ایجنسی کو داعش کا ترجمان سمجھا جاتا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے جاری بیان کے بعد تحریک آزادی کی حریت پسند تنظیموں کی جدوجہد کو ایک جانب نقصان پہنچے گا تو دوسری جانب داعش کا طریقہ کار رہا ہے کہ وہ مسلم تنظیموں اور اہم شخصیات کو اغوا کرکے بھیانک قتل وغارت میں ملوث رہی ہے۔
سکیورٹی ماہرین پہلے سے ہی خبردار کرتے آئے ہیں کہ عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کو شکست کے بعد اس جہادی تنظیم سے وابستہ جنگجو دنیا کے دیگر علاقوں میں کارروائیاں کر سکتے ہیں۔ اسی انتہا پسند تنظیم نے ابھی حال ہی میں سری لنکا میں ہوئے حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی۔ ایسٹر سنڈے کے دن ہونے والے ان خونریز حملوں کے نتیجے میں 253 افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔سائٹ اینٹل گروپ کی ڈائریکٹر ریٹا کاٹز نے روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں دولت اسلامیہ کے ایک نئے صوبے کے قیام کے دعویٰ کو مکمل طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا شائد اس دعوے کو سنجیدگی سے نہ لے لیکن ”جہادیوں” کے لیے ایسے شورش زدہ علاقے کافی اہم ثابت ہو سکتے ہیں اور وہ اپنے دائرہ کار میں وسعت پیدا کر سکتے ہیں۔بھارتی وزارت داخلہ کے ترجمان نے عماق کے اس تازہ دعوے پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
جولائی 2014میںمیں پہلی بار داعش کے جھنڈے مقبوضہ کشمیر میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت لہرائے گئے تھے ۔ داعش کے جھنڈے مقبوضہ کشمیر میں دیکھے جانے کے بعد خطے میں ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی تاہم اس حوالے سے حقیقت سامنے آئی جب ایک درزی نے بتایا کہ داعش کے جھنڈوں کی سلائی و لکھائی اُس نیوز چینل نے ہی کروائی تھی جس نے مقبوضہ کشمیر میں داعش کی موجودگی کی خبر جاری کی تھی۔ 2015میں ایک بار پھر داعش کے جھنڈے لہرانے کے واقعہ سامنے آیا ۔ گرفتار نوجوانوں نے دوران تفتیش بتایا کہ وہ دراصل سیکورٹی فورسز کو پریشان کرنا چاہتے تھے ۔ اسد گیلانی نے نوجوانوں کو سختی منع کیا تھا کہ وہ اس قسم کے اقدامات نہ کریں۔جنوری2016میں انہوں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ یہ اسلام مخالف تنظیم ہے اور قاتلوں کا گروپ ہے۔داعش اسلام کے کسی بھی صورت رہنمائی نہیں کرتے۔حریت راہنماؤں کی اپیل کے باوجود داعش کے جھنڈے لہرانے کا سلسلہ مزید بڑھتا اور اور عسکریت پسندوں کی لاشو ں پرپہنچ گیا۔ سب سے پہلے 12 جولائی 2017 کو بڈگام جھڑپ میں جاں بحق ہوئے حزب گروپ کے سجاد گلکار کی لاش کو داعش کے جھنڈے سے لپیٹا گیا۔اور اسکے بعد نومبر میں ایک اور سرینگر سے تعلق رکھنے و الے مغیس احمد کی لاش پر بھی داعش کا ہی جھنڈا لپیٹا گیا۔
اب پہلی بار باقاعدہ داعش کی جانب سے ولایت الہند کے نام سے مقبوضہ کشمیر کو صوبہ بنائے جانے کے اعلان سے عالمی سازش کی بو آرہی ہے ۔ کیونکہ داعش کے قیام اور مضبوطی کے لئے عالمی ایجنڈے کے تحت عالمی قوتوں نے داعش کی بنیاد رکھی ۔ عراق میں اپنے مفادات کے لئے داعش کو پروان چڑھایا تو شام میں دہشت گرد تنظیم کو خصوصی سہولت فراہم کی ۔ آئی ایس آئی ایس (اسلامک اسٹیٹ عراق و شام) دنیاکاسب سے طاقتوراورامیر ترین دہشت گردگروپ 2003ء کو امریکہ کے عراق پر حملے کے بعد وجود میں آیاتھا۔ جب عراق میں القاعدہ نے اپنی شاخ قائم کی تو وہ صدام دور کے فوجی جنگی ماہر لیکن بے روزگاروں کے لئے مالی فوائد پر مبنی پلیٹ فارم میسر آگیا۔2004ہی میں” الزرقاوی ”کے گروپ نے بھی القاعدہ کی حمایت کردی اوراسکا نام”عراقی القاعدہ”رکھاگیا۔ جنہوں نے فرقہ وارنہ بنیادوں پر مساجد،مقبروں،عوامی مقامات پر حملے اور مشہور اشخاص کو چن چن کر قتل کرناشروع کیا۔جس کابنیادی مقصد شیعہ سنی فسادات کرواکر خانہ جنگی کو ہوادینا تھا یہی عمل آئی ایس آئی ایس نے شروع کیا اور ناقابل تلافی نقصانات پہنچائے۔کہا جاتا ہے کہ 1980میں جس طرح سوویت یونین کے خلاف القاعدہ کی تشکیل میں امریکا کا کلیدی کردار تھا۔ اسی طرح اسلامک اسٹیٹ آف عراق و شام کو عراق میں فعال کرایا گیا۔ اسلامی نظریات کے برخلاف فرقہ وارنہ بنیادوں پر ایک ایسے فتنے کو پروان چڑھایا گیا جس نے پہلے فرقہ واریت پر مسلمانوں کے درمیان تفرقہ پیدا کیا بعد ازاں اس کی زد میں ہر مسلک و مذہب سے تعلق رکھنے والا واجب القتل قرار پایا۔
عراق و شام میں غلبے کے بعد داعش نے اپنا نام مختصر لیکن مقاصد بڑے ظاہر کئے۔ آئی ایس آئی ایس سے اسلامک اسٹیٹ کے تحت نام نہاد خلیفہ ابو بکر نے خود ساختہ خلافت کا اعلان کردیا۔ خود ساختہ خلیفہ پر کئی حملے بھی ہوئے لیکن وہ ہر بار بچ جاتا۔ گذشتہ دنوں ایک نئی شاخ کے اعلان کے ساتھ ابوبکر کا بیان بھی سامنے آیا۔ تاہم اس وقت ابو بکر کہاں ہے اس کا علم فی الوقت کسی کو علم نہیں۔ اس وقت داعش کی دنیا بھر کی شاخیں مختلف ناموں سے کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے۔ داعش کا فتنہ ختم نہیں ہوا ہے اور فتنے کی زد میں مغربی اور مسلم ممالک ہیں۔ داعش کسی بھی ملک کے لئے اس کے کاروائیاں جداگانہ نظریہ رکھتی ہیں۔ ہر دوسرے ملک کے خلاف اس کا ایجنڈا مختلف نظر آتا ہے۔ اس کا اندازہ دنیا بھر میں موجود داعش کی باقاعدہ تنظیموں اور مغرب سمیت کئی مسلم ممالک میں ان کی ہمدردوں کی بہت بڑے تعداد سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس وقت داعش کی مختلف شاخیں کسی نہ کسی صورت دہشت گرد کاروائیوں میں مصروف ہیں ان نمایاں تنظیموں میں داعش بنگلہ دیش (ایف ٹی او، ایس ڈی جی ٹی)، داعش فلپائن (ایف ٹی او، ایس ڈی جی ٹی) اور ماؤت گروپ (ایس ڈی جی ٹی)، نائجیریا میں داعش وسطی افریقہ (ایف ٹی او، ایس ڈی جی ٹی)، داعش صومالیہ (ایس ڈی جی ٹی)، تیونس میں جند الخلیفہ تیونس (ایس ڈی جی ٹی)، داعش مصر (ایس ڈی جی ٹی)، داعش لیبیا (ایف ٹی او، ایس ڈی جی ٹی)، داعش سعودی عرب (ایس ڈی جی ٹی)، داعش یمن (ایس ڈی جی ٹی)، الجزائرمیں جند الخلیفہ الجزائر (ایس ڈی جی ٹی)، روس میں دولت اسلامیہ صوبہ قفقاز (ایس ڈی جی ٹی)، افغانستان، پاکستان میں داعش صوبہ خراسان (ایف ٹی او، ایس ڈی جی ٹی)، دولت اسلامیہ صوبہ سینائی (سابق انصار بیت المقدس) (ایف ٹی او، ایس ڈی جی ٹی)، داعش سے متعلقہ دیگر گروہوں میں جماعة انشورہ دولة (جے اے ڈی)، یرموک مارٹائر بریگیڈ (وائی ایم بی)،سنتوسو (ایم آئی ٹی)، مجاہدین انڈونیشین تیمور (ایم آئی ٹی) اور جیش رجل الطارق النقشبندی (جے آر ٹی این) شامل ہیں۔
شدت پسندی کی تربیت گاہ و گنجلک محل وقوع کے سبب افغانستان میں داعش کو آباد کرایا گیا۔پاکستان میں افغانستان خراساں شاخ سے دہشت گردی کے واقعات کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے تاہم پاکستان میں جڑیں مضبوط ہونے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ بلوچستا ن میں آئی ایس خراساں کے بڑے نیٹ ورک کاحساس اداروں کی مدد سے صفایا کیا گیا تھا۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ اس نیٹ ورک کی جڑیں پڑوسی ملک افغانستان میں موجود ہیں۔ جس سے پاکستان کو مسلسل خطرات لاحق رہتے ہیں۔ افغانستان میں داعش دہشت گردی کی کئی واقعات کی ذمے داری قبول کرچکاہے۔واضح رہے کہ افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی نے بھی امریکی حکومت پر الزام عائد کیا تھا کہ افغانستان میں داعش کو ہتھیار و جنگی ساز و سامان امریکا دے رہا ہے۔ بادی النظر نظر یہی آتا ہے کہ امریکا کا داعش کی سہولت کاری کا مقصدایران، چین، ترکمانستا ن اور روس کو دبائو میں لانا ہوسکتا ہے۔ امریکا خود تو افغانستان سے باہر نکلنا چاہتا ہے لیکن افغانستان میں کئی سنگین معاملات کو بے امنی کے لئے چھوڑ کے بھی جانا چاہتا ہے۔ آئی ایس کے نظریات و ان سے ہمدردی رکھنے والے اور مخالفت کے حوالے سے عالمگیر نظریئے کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ا مریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف فوٹیل کے مطابق”شام میں آخری محاذ پر شکست کے باوجود’داعش’ کا خطرہ ختم نہیں ہوا ہے۔ یہ گروپ منتشر ہونے کے باوجود انتہا پسندوں کی خطرناک نسل کی نمائندگی کرتا ہے اور مستقبل میں دہشت گردی کی ایک خطرناک نسل تشکیل دے سکتا ہے”۔جنرل جوزف نے امریکی سینٹ کی ایک کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ”داعش کے خطرے کے حقیقی انسداد کے لیے داعش کے نظریات سے درست طریقے سے نمٹنا ہوگا۔ اگر اس کے نظریات سے نہ نمٹا گیا تو مستقبل میں یہ گروپ تشدد پسند انتہا پسندی کے بیج بو سکتا ہے”۔
مقبوضہ کشمیر میں داعش کی جانب سے صوبہ بنائے جانے کے اعلان کے پیچھے یقینی طور اسی قسم کی سازش نظر آرہی ہے ۔ جو داعش عالمی قوتوں کو خطے میں اپنی موجودگی اور مفادات کے حصول کے لئے استعمال کرتی ہے۔سری لنکا کے واقعے کو داعش نے قبول کی ۔ لیکن اس دہشت گردی کے تانے بانے جنوبی بھارت میں ملے ۔ بھارت نے پاکستان کے خلاف بھرپور پروپیگنڈا کرنے کی مذموم کوشش کی لیکن اُسے ناکامی کا سامنا ہوا ، تاہم بھارت کے پروپیگنڈوں سے سری لنکا میں فسادات پھوٹ پڑے اور تیزی امن کی جانب گامزن سری لنکا دوبارہ بے امنی کا شکار ہوتا چلا گیا ۔ کچھ اسی قسم کا قیاس یقین کی حد تک سامنے آرہا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں داعش کی جانب سے اس قسم کا اعلان دراصل پاکستان اور افغانستان میں خراساں شاخ کی ناکامی کے بعد نئے ایجنڈے کے تحت دوبارہ مذموم سازشوں کے خدشات ابھار رہی ہے۔2016 سے 2019 کی ایک رپورٹ کے مطابق داعش نے نومبر 2018میں 132خودکش حملے کئے۔ جبکہ صرف عراق، شام اور لیبیا میں 2018میں 132خود کش حملوں کی ذمے داری قبول کی۔ بظاہر داعش کے خلاف75رکنی اتحاد مختلف ممالک میں کاروائیاں کرتا ہے۔ لیکن داعش نے تین برسوں میں اس اتحاد کو نقصانات کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ” 2016سے 2019میں عراقی سیکورٹی فورسز کے 31956، بشار الاسد سیکورٹی فورسز کے 11977، کرد جنگجو کے11418، مختلف جنگجو ملیشیا کے 3621، ترک سیکورٹی فورسز کے159، روس کے79،امریکی فوج کے70، لبنان کے59اہلکاروں کو ہلاک کیا گیا۔جبکہ جنگی نقصانات میں 38ہیلی کاپٹر،256ڈرونِ 26ائیر کرافٹ،،ملٹری ٹرانسپورٹ 1400سے زائد،جبکہ اینٹی ٹینک، طیارہ شکن میزائل سمیت ایک بڑی تعداد کوتباہ کرنے کا دعویٰ کیا۔ ایران و عراق نے عراقی سرزمین سے اور امریکا شام کی سرزمین سے داعش کے مکمل خاتمے کا اعلان کررہا ہے۔ داعش کی بڑی تعداد اس وقت مختلف ممالک میں رپورش ہے۔ صرف مشرقی شام سے آئے ایک پناہ گزین کیمپ میں کئی ہزار ایسے خاندان ہیں جنہوں نے داعش سے وابستگی ختم کی اور واپس اپنے وطن جانے کے لئے مہاجرین کیمپ میں موجود ہیں”۔
داعش کی جانب سے دہشت گردی کے عموماََ بڑے واقعات سامنے آتے ہیں جن میں خودکش دھماکوں میں نہتے اور بے گناہ انسانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔داعش کے خود ساختہ سربراہ ابوبکر کی نئی ویڈیو سامنے آنے کے بعد دوبارہ اس بات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ داعش کو ایک بار پھر مخصوص مفادات کے لئے منظم کیا جارہا ہے۔ داعش کے خو د ساختہ سربراہ کا اچانک کئی برسوں بعد مبینہ ویڈیو بیان سامنے آنا ، شام سے امریکی افواج کا انخلا رک جانا ، افغانستان سے امریکا کے انتقال اقتدار میں تاخیر سمیت داعش کی افغانستان اور پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کے بعد مقبوضہ کشمیر کو صوبہ قرار دیئے جانے مخصوص قوتوں کا عالمی مذموم منصوبہ بھی ہوسکتا ہے۔ اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ بھارت کی خوشنودی حاصل کرنے اور پاکستان پر مزید دبائو بڑھانے کے لئے داعش کو پروان چڑھانے والی قوتوں نے ایک نئی سازش کو جنم دیا ہو ۔ ان حالات میں امریکا اور ایران تنازع بڑھتا جارہا ہے اور سعودی عرب کو مشرق وسطیٰ کی جنگ میں دھکیلنے کے لئے آئل ٹینکرز پرحوثیباغیوںکی تخریب کاری کا بیک وقت ہونا اتفاقی قرار نہیں دیا جاسکتا ۔
مقبوضہ کشمیر کو داعش کا صوبہ بنائے جانے کے خلاف حریت پسند کشمیری رہنمائوں کا شدید ردعمل اس سے پہلے بھی آچکا ہے ۔ متحدہ جہاد کونسل کے ترجمان سید صداقت حسین نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ” مقبوضہ کشمیر میں داعش کا کوئی وجود نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ حریت پسند کشمیری عوام پہلے دن سے ہی اس حقیقت سے باخبر ہے کہ بھارتی ایجنسیوں کے ایجنٹ اس تنظیم کا نام استعمال کر کے، تحریک آزادی کشمیر کو بدنام اور منقسم کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ داعش کے سیاہ کارنامے امت مسلمہ عراق، شام، لیبیا اور افغانستان میں دیکھ چکے ہیں جہاں سامراجی طاقتوں کے اشاروں پر پانی کی طرح مسلمانوں کا لہو بہایا گیا”۔مقبوضہ کشمیر میں تحریک حریت جموں و کشمیر کے چیئرمین محمد اشرف سحرائی نے کہا ہے کہ” کشمیر کے عوام کا کوئی عالمی ایجنڈا نہیں ہے اور وہ صرف بھارت کے غیرقانونی تسلط سے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ حریت پسند کیمپ کا داعش جیسی تنظیموں اور ان کے نظریات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ان کا ایجنڈا بہت سادہ ہے اور وہ بھارتی تسلط سے آزادی چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ داعش بھارتی ایجنسیوں کی آلہ کار ہوسکتی ہے جو کشمیر کی تحریک کو بدنام اور اسے نقصان پہنچانا چاہتی ہے”۔
لشکر طیبہ کے رہنما محمودشاہ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ” ہمارے نوجوانوں کو سمجھنا چاہیے کہ داعش انڈیا،اسرائیل اور امریکہ کی پیداکردہ دہشتگردتنظیم ہے جس کا مقصد جہاداور عسکریت پسندوںکوبدنام کرنا ہے اورجو لوگ جان بوجھ کر دولت اسلامیہ کا نعرہ لگارہے ہیں انہیں اپنی اصلاح کرنا چاہیے۔انہوںنے کہا کہ کشمیر میں کہیں پر بھی داعش کا وجود نہیں ہے مگرچند بھولے بھالے نوجوانوں کو بھارت ورغلاء کر مذموم مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کررہاہے۔انہوں نے کہا کہ متحدہ مزاحمتی قیادت کی طرف سے واشگاف الفاظ میں پرزورمذمتی بیانات حقیقت پر مبنی ہیں۔”
حکومت پاکستان کو خطے میں تیزی تبدیل ہوتی صورتحال کے تناظر میں مقبوضہ کشمیر میں پنپنے والی نئی عالمی سازش سے مزید ہوشیار رہنا ہوگا ۔ بھارت ہندو انتہا پسند حکومت کی جانب سے پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کا مذموم سازش حریت پسندوں کی تحریک آزادی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ گزشتہ کئی برسو ں سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم دنیا کے سامنے منکشف ہوئے ہیں اور مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کی تحریک آزادی نے پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرلی ہے ۔ ان حالات میں جب کہ بھارت کا مقبوضہ کشمیر میں کنٹرول نہیں رہا ہے ۔ لوک سبھا کے انتخابات میں کشمیری مسلمانوں کا مکمل بائیکاٹ نے بھارتی سیکولر چہرے سے نقاب نوچ لی ہے تو ان حالات میں بھارتی ہندو انتہا پسندوں کی جانب سے نوجوانوں کو گمراہ اور تحریک آزادی کو بدنام کرنے کی یقینی سازش بھی کی جاسکتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے حریت پسند مسلمانوں کو عالمی قوتوں کی سازش سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ان کے کسی جذباتی عمل کی وجہ سے بھارت کو اپنے مذموم مقاصد میں کامیابی نہ مل جائے اور شہدا کشمیر کی قربانی ضائع نہ ہو سکے۔