مراکش (جیوڈیسک) مراکش میں گزشتہ برس تقریبا پچیس ہزار کم عمر لڑکیوں کی شادیاں کی گئیں۔ اس ملک میں شادی کی کم سے کم عمر تو اٹھارہ برس ہے لیکن یہ قانون استثنیٰ بھی فراہم کرتا ہے، جس سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔
خدیجہ کی عمر تیرہ برس تھی، جب اس کے اہلخانہ نے پہلی مرتبہ یہ بات کی کہ وہ اس کی شادی اُس کے چالیس سالہ کزن سے کرنا چاہتے ہیں۔ خدیجہ نے اس وقت اپنے اہل خانہ کے اس فیصلے کی شدید مخالفت کی تھی۔ خدیجہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’’میں بہت ہی چھوٹی تھی، میں تو اسکول جانا چاہتی تھی۔ لیکن مجھ پر بہت دباؤ ڈالا گیا، یہاں تک کہ مارا پیٹا بھی گیا۔ میں نے شروع سے ہی انکار کر دیا تھا لیکن انہیں میرا انکار قبول نہیں تھا۔ وہ کہنے لگے کہ ابھی یہ چھوٹی ہے تو انکار کر رہی ہے، بعد میں خود ہی ہاں کر دے گی۔ اس طرح میرے والدین نے میری جگہ ہاں کر دی، اس کے باوجود کہ میں نے انکار کر دیا تھا۔‘‘
خدیجہ آج تک وہ دن بھی نہیں بھولیں، جس دن اسے ایک جج کے سامنے پیش کیا گیا تھا تاکہ اس کی شادی کی باقاعدہ تصدیق ہو سکے۔ وہ بتاتی ہیں، ’’انہوں نے سب تیاری کر رکھی تھی، جج کو پیسے دیے گئے تھے تاکہ وہ اس کی تصدیق کرے۔ میں اس وقت چودہ سال کی تھی اور تصدیق نہ ممکن تھی لیکن اس کے باوجود اس نے تصدیق کی کیوں کہ اسے رشوت دی گئی تھی۔‘‘
خدیجہ اس وقت کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اس کی ماں نے بھی دھکمی دے رکھی تھی کہ اگر خدیجہ نے شادی نہ کی تو وہ خودکشی کر لے گی۔ خدیجہ بتاتی ہیں کہ وہ اپنے سے ستائیس برس بڑے شوہر کے سامنے خود کو کس قدر بے بس اور لاچار محسوس کرتی تھیں، ’’جب وہ میرے قریب آتا تھا تو میرا خودکشی کر لینے کو دل کرتا تھا۔ میں اس سے نفرت کرتی تھی لیکن مجھے اسے قبول کرنا پڑا۔‘‘
آخر کار خدیجہ اپنی ایک خالہ اور سوتیلے بھائی کی مدد سے اس جبری شادی سے فرار حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اب اس کی عمر اٹھارہ برس ہے، طلاق شدہ ہے اور ایک ریستوران میں بطور پروفیشنل باورچی تربیت حاصل کر رہی ہے۔ خدیجہ کا واقعہ مراکش میں پیش آنے والا کوئی واحد یا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ مراکش میں سن دو ہزار چار کے فیملی لاء کے مطابق لڑکیوں کی شادی اٹھارہ برس سے پہلے نہیں ہو سکتی لیکن اسی قانون کی ایک شق ججوں کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ مخصوص حالات میں کم عمری کی شادی کی اجازت دے سکتے ہیں۔
مراکش میں قومی انسانی حقوق کونسل کی صدر آمنہ بو عیاش کا اس شق کے اثرات کے حوالے سے کہنا تھا، ’’ہم سن دو ہزار چودہ سے کہہ رہے ہیں کہ کم عمری کی شادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سے انسانی بدقسمتی بڑھتی جا رہی ہے۔ ایسی بچیوں سے زبردستی جنسی تعلق کے واقعات اور ان کی صحت کی خرابی جیسے مسائل میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ مراکش کی قومی انسانی حقوق کونسل اس خصوصی شق کا خاتمہ چاہتی ہے۔ مراکش جیسے معاشرے میں اس شق کی حمایت بھی موجود ہے اور اچھی خاصی مخالفت بھی کی جاتی ہے۔ اس شق کے حق میں مذہبی دلائل دیے جاتے ہیں اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایسی شادیاں غریب گھرانوں کی بچیوں کو ایک بہتر زندگی گزارنے اور شدید غربت کی دلدل سے نکلنے کے مواقع فراہم کرتی ہیں۔
آمنہ ضیاحول ان تمام دلائل سے واقف ہیں۔ انہوں نے خواتین کے حقوق کے لیے ایک تنظیم بھی قائم کر رکھی ہے اور ایسے والدین کے دلائل سے آگاہ ہیں، جو لڑکیوں کی شادیاں کم عمری میں ہی کر دینا چاہتے ہیں۔ آمنہ ضیاحول کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’خاندان اس قدر غریب ہیں کہ ان کے پاس بچوں کو کھلانے کے لیے ہی کچھ نہیں ہے اور نہ ہی وہ انہیں اسکول بھیج سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بچیوں کی شادیاں کر دیتے ہیں۔ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو وہ فروخت کر دیتے ہیں کیوں کہ وہ انہیں بوجھ سمجھتے ہیں۔‘‘
مراکش میں فیملی لاء میں تبدیلی اور کم عمری کی شادیاں روکنے کے لیے اب پارلیمان میں ایک قرارداد پیش کی جائے گی۔ اس قرارداد کی حمایت میں اکثریتی ووٹ ڈالے جائیں گے یا نہیں، یہ ابھی تک غیر واضح ہے۔