پاکستان کی سب بڑی سیاسی پارٹی جو کئی سالوں سے برسراراقتداربھی رہی ہے مسلم لیگ نون عید کے بعد مہنگائی، بے روزگاری کے خلاف ملک گیر رابطہ مہم چلانے کے لیے کوشاں ہے۔جس کی تصدیق سابق وزیراعظم مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنماء شاہدخاقان عباسی سمیت دیگرپارٹی رہنما ؤں نے مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران کی۔انہوں نے کہا کہ ہمارا ہدف حکومت توڑنے اور اقتدار کا نہیں ہے، ہمارا ہدف عوام کے مسائل کا حل ہے، آل پارٹیز کانفرنس فیصلہ کرے گی کہ سڑکوں پر آنا ہے یا نہیں۔ عوام کے مسائل کا حل حکومت کو گرانے میں ہے تو فیصلہ اے پی سی کرے گی، مسئلے کا حل الیکشن میں ہے تو الیکشن کے مطالبے کا فیصلہ اے پی سی کرے گی۔
اس حوالے سے مریم نواز کا کہنا ہے کہ ببانگ دہل کہتی ہیں کہ بیانیہ ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ ووٹ کو عزت دو۔ نوازشریف کا بیانیہ پاکستان کے اچھے مستقبل کی ضمانت ہے اور اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو آئین کی روح سے متصادم ہو۔ شہباز شریف دل سے نوازشریف کو اپنا لیڈر مانتے ہیں۔ اگر پہلے یہ دو رائے بھی ہوگی کہ بیانیہ ایسا نہیں ایسا ہونا چاہئے تو بھی اب سب اسی بیانیے پر آگئے ہیں۔
لیکن افسوس پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت مسلم لیگ نون کا بیانیہ صرف اور صرف ووٹ کو عزت دوہے کے بجائے ”ووٹرکو زندگی دو“ کیونکہ دنیا میں تین مسائل ہیں۔ پہلا پانی دوسرا دنیاکو خوراک کی فراہمی اور تیسرا گلوبل وارمنگ، اس کے علاوہ جو مسائل ہیں، وہ ثانوی ہیں۔ جو انسان ان مسائل کو نہیں دیکھے گا دنیا کو محفوظ رکھنے میں اس کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔اس وقت پاکستان دنیا کے ان 17ملکوں میں شامل ہے جو پانی کی قلت کا شکار ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق قیام پاکستان کے وقت ہر شہری کے لیے 5600کیوبک میٹر پانی تھا جو اب کم ہو کر 1000 کیوبک میٹر رہ گیا ہے اور 2025 تک 800 کیوبک میٹر رہ جائے گا۔ دیکھا جائے تو صاف پانی کا مسئلہ دہشت گردی‘کرپشن اور توانائی کے بحران سے بھی زیادہ بڑا مسئلہ ہے۔
بزرگ کہتے ہیں کہ قدرت نے انتہائی فیاضی اور دریادلی کے ساتھ انسانوں کو صاف اور پینے کے لائق پانی فراہم کیا ہے۔ یہ الگ بات کہ انسانوں نے اس عظیم نعمت کو بھی مختلف صنعتی فضلہ جات اور کیمیائی اجزاء کی آمیزش سے آلودہ کر دیا ہے۔ پانی کی آلودگی ایک سنگین عالمگیر مسئلہ ہے، اس کی جانب فوری توجہ کی اشدضرورت ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ارباب حکومت شہریوں کو بنیادی ضروریات کی فراہمی یقینی بنانے کے بجائے ”دیگر سرگرمیوں“ میں مصروف رہتے ہیں۔کون نہیں جانتا کہ پانی انسان کی اہم ترین بنیادی ضرورت ہے۔ مہذب، ترقی یافتہ، فلاحی اور جمہوری معاشروں اور مملکتوں میں ارباب حکومت اپنے شہریوں کو بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ وہ ممکنہ ذرائع و وسائل کو بروئے کار لاتے ہیں تاکہ شہریوں کی زندگیوں میں آسودگی اور آسائش کے احساس کو قوی اور تواناتر کر سکیں۔ وہ معاشرے اور مملکتیں جہاں ارباب حکومت اپنے شہریوں کو پینے کے صاف پانی کی فراہمی کو بھی یقینی نہیں بنا سکتے، ان کی حکومتوں کی اعتباریت ہمیشہ موضوع بحث بنی رہتی ہے۔ جب کسی حکومت کی اعتباریت موضوع بحث بن جائے تو اس کے وجود کا معرض خطر میں پڑ جانا یقینی ہو جاتا ہے۔
بدقسمتی سے سیاسی عدم استحکام کے نتیجے میں پانی کی قلت اوراس حوالے کیے جانے والے فیصلے بہت دور نظرآتے ہیں۔ رواں سال پانی کی قلت میں مزید اضافہ ہوگا اور ہم سب اداروں سمیت ایک دوسرے کومورد الزام ٹہرا رہے ہوں گے۔پاکستان میں اگر حقیقی معنوں میں سیاسی استحکام ہوتا تواس کے کم ازکم دوشعبوں میں غیر معمولی فوائد حاصل کیے جاسکتے تھے۔ سب سے پہلا فائدہ معیشت کوہوتا۔ اس کی تیز رفتار ترقی سے روزگارپیدا ہوتا اور لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوتا۔
موسمیاتی تبدیلیاں کرہ ارض کے فطری نظاموں کے لیے خطرہ بنتی جا رہی ہیں اور صاف پانی کے سب سے بڑے ذخائر جو گلیشرز کی شکل میں موجود ہیں، اس کے براہ راست نشانے پر ہیں۔ پانی کے دیگر قدرتی ذخائر جن میں دریا، ندی نالے،آبشار، جھیلیں ہیں وہ تیزی سے آلودہ ہوتے جا رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ اقوام متحدہ سے لے کر دنیا کی حکومتیں اس حوالے سے شدید تشویش میں مبتلا ہونے کے ساتھ اپنے صاف پانی کے ذخیروں کومحفوظ کرنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔
کئی دہائیوں سے سنتے چلے آرہے تھے کہ آیندہ جنگیں پانی پر ہوں گی یہ جس نے بھی کہا تھا، وقت نے اس بات کو سچ ثابت کر دیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی نے لاکھوں سال سے موجود کرہ ارض کے فطری نظاموں کو تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے۔ سائنس دانوں اورماہرین ماحولیات کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ اس کے ذمے دار بھی کرہ ارض کے باسی ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے ووٹ کو عزت دوکے بجائے ”ووٹرکو زندگی دو“کی حکمت عملی پر مسلم لیگ ن سمیت حکومت اور اپوزیشن کو غور کرنا ہوگا کیوں کہ پانی کی سپلائی لائنز کو صاف رکھنے کا مستقل نظام قائم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ پنجاب کے صوبائی درالحکومت لاہورمیں صاف پانی شہریوں کو فراہم کرنا والا ادارہ ”واسا“ مالی بحران کا شکار ہے۔آئندہ دوماہ تک ”واسا“حکام مالی مشکلات کی بناء پر تقربیاً 3ہزارعارضی ملازمین کو فارغ کرنے والے ہیں۔
حکومت اور اپوزیشن کو فوری طوری پر اس مسلئے کو حل کرنا ہوگا۔”واسا“ کو فوری فنڈجاری کرنے کے ساتھ ساتھ آلودہ پانی کی صفائی کے طریقوں سے آ ٓگاہی کے ساتھ شہریوں کو سستے آلات اور مشینیں بھی فراہم کی جانی چاہیں،صاف پانی صرف پینے کے لیے استعمال کیا جائے جب کہ سمندر،دریا اور نہروغیرہ کے پانی کو کاریں دھونے،سڑکیں دھونے اور واش روم کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں۔اس سلسلے میں شعورو آگہی کے پروگرامزشروع کرنے کی بھی ضرورت ہے اور سوسائٹی کے تمام طبقات کو اس مہم کا حصہ بنانا چاہیے تاکہ پانی کے ضیاع کو روکا جائے۔