جان لیوا مسلط عذاب مہنگائی سے کوئی امیر ہے یا غریب سبھی پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ پھل، سبزیاں اور دیگر اشیائے خورونوش عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہیں۔ آمدنی اور تنخواہیں وہی جب کہ قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوچکا ہے۔ فصلوں کی تخمینے سے کم پیداوار اور شدید بارشوں کے باعث تباہی کی اس صورت حال میں گزران کی ڈوری کیونکر قائم رکھی جاسکتی ہے آئیے جائزہ لیتے ہیں۔ کیونکہ مہنگائی کوئی پہلی مرتبہ نہیں ہوئی بلکہ اشیائے ضروریہ کی قلت کا سامنا ہر دور میں رہا ہے۔ معلوم تاریخ کے مطابق سب سے بڑا قحط سیدنا یوسف dکے دور میں پیش آیا۔ حکمران وقت کو خواب میں رہنمائی ہوئی جس کی سیدنا یوسفdنے نہ صرف تعبیر کی بلکہ تدبیر بھی فرمائی۔وقت کے دستیاب وسائل بروئے کار لاتے ہوئے غلہ محفوظ کیا گیا جو قحط کے سات برسوں کے لیے نہ صرف اہل مصر کے لیے کفایت کرگیا بلکہ قرب جوار کی سلطنتوں نے بھی فائدہ اٹھایا۔ قرآن مجید میں بیان اس خوبصورت واقعے سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اختیارات اور ذمہ داریاں جب اہل لوگوں کو تفویض کی جائیں تو نتائج بہتر برآمد ہوا کرتے ہیں۔ نااہل اور سفارشی عناصر جب عہدوں پر مسلط کر دیئے جائیں تو مہنگائی کا بے قابو ہوجانا حیرت کی بات نہیں ہوتی۔
عہد رسالت مآب wمیں سب سے بڑی بحرانی کیفیت اس وقت پیش آئی جب مسلمان اپنے وطنمالوفمکہ مکرمہ کو اللہ کی رضا کے لیے چھوڑ کر مدینہ منورہ پہنچے۔ وہ نفوس قدسیہ جب اپنے وطن کو خیر باد کہہ رہے تھے تو ان کی جائیدادیں، مال ومتاع اور جمع پونجی پر کفار مکہ نے قبضہ جمالیا تھا۔حتیٰ کہ ایسے روح فرسا مناظر بھی پیش آئے کہ ہجرت کی غرض سے نکلنے والے مسلمانوں کے تن بدن کے کپڑے تک چھین لیے گئے۔لٹے پٹے مسلمان جب مدینہ پہنچے تو رحمت عالمwنے بحیثیت سربراہ مملکت ، ایک ایک مہاجر کو ایک ایک انصاری کا بھائی بنادیا جسے” مواخات مدینہ” سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ قانونی اور دینی رشتہ خون کے رشتوں کو بھی مات دے گیا اور شدید کسمپرسی کے عالم میں بھی حالات بے قابو نہ ہوئے۔ آپ w نے فرمایا:”اکیلے اکیلے نہ کھایا کرو بلکہ مل کر ایک برتن میں کھاؤ اس سے تمہارا ایک کا کھانا دو، دو کا چار اور چار کا آٹھ کے لیے کفایت کرجائے گا”۔(مسلم)
عہد صدیقی میں جب شدید قحط پڑا تو سیدنا صدیق اکبر hان دنوں نہایت پریشان دکھائی دیتے ۔ عین ان دنوں میں سیدنا عثمانhکا ایک ہزار اونٹوں کا لدا ہوا قافلہ مدینہ طیبہ پہنچا تو قرب وجوار کے تاجر آگے بڑھ بڑھ کر سیدنا عثمان hکو منافع کی پیش کش کرنے لگے۔ آپ hان کی شرح منافع پر فقط یہی کہتے کہ مجھے اس سے کہیں زیادہ مل رہا ہے۔ تاجروں نے حیرت سے جاننا چاہا کہ وہ کون تاجر ہے جو ہم سب سے بڑھ کر منافع دے رہا ہے؟ تو سیدنا عثمان hنے فرمایا مجھے ایک کے بدلے دس بلکہ سات سو سے بھی زیادہ مل رہا ہے اور ہزار اونٹوں پر لدا سازو سامان راہ خدا میں صدقہ کردیا ۔ عہد صحابہ کے اس واقعہ سے رہنمائی ملتی ہے کہ اگر کبھی بحرانی کیفیت کا سامنا ہو تو صاحب ثروت لوگوں کو سنت عثمانی پر عمل کرتے ہوئے غریبوں کا سہارا بن کراجر کمانا چاہیے ، اس سے ضرورت مندوں کے حالات بھی بدلیں گے ،دعائیں بھی ملیں گی اور اللہ تعالیٰ آپ کو بھی کئی گنا بڑھا کر لوٹا دیں گے۔
اسی طرح سیدنا فاروق اعظمhکے عہد سعید میں بھی قلت خوراک کا سامنا ہوا تو سیدنا فاروق اعظمh اقدامات کے ساتھ ساتھ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑا تے ہوئے دعا کرتے:”یا الٰہی اپنے محبوب پیغمبر wکی امت کو ہلاکت سے بچا”۔
اورخود اپنی حالت یہ تھی کہ اچھا کھانا پینا ترک کر رکھا تھا اور فرماتے تھے کہ میری رعایا کو جو آسائشیں میسر نہیں ہیں میں بھی استعمال نہ کروں گا۔جن حکمرانوں کے دلوں میں رعایا کی ہمدردی اور خیر خواہی ہوتی ہے وہ ایسے ہی اقدامات کیا کرتے ہیں۔اپنے تعیشات ترک کرکے سادگی اپنا کر دوسروں کے لیے نمونہ بن جایا کرتے ہیں۔
حکمران سے مراد صرف صدر یا وزیر اعظم ہی نہیں بلکہ حدیث پاک کی روشنی میں”تم میں سے ہر کوئی حکمران ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا”کے تحت تم میں سے ہر کوئی بچوں کے باپ اور بیوی کے شوہر کی حیثیت سے گھر کی سلطنت کا حکمرانہے لہٰذا گھروں کے سربراہوں کو چاہیے کہ اس مہنگائی اور بحرانی کیفیت میں اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں اور مناجات کریں۔اس تلخ حقیقت کا اعتراف بھی ضرور ی ہے کہ مہنگائی بڑھنے کے ذمہ دار ہم خود بھی ہیں۔ ہمارا طرز بودو باش غیر فطری بنتا جارہا ہے۔ ہم ھل من مزید کی دوڑ میں اخلاقی وانسانی اقدار کھو رہے ہیں۔ اپنے سے فروتر کی طرف نہیں بلکہ کم تر کی طرف دیکھنے کے ارشاد نبوی سے رخ پھیرے ہوئے ہیں، دوسرے کی آسائشیں دیکھ کر ہم ہر قیمت پر اسی رنگ میں رنگنا چاہتے ہیں۔ کھانے ، پینے اور پہننے کی چیزیں ہوں یا استعمال کی ہم دوسروں سے بڑھنے اور نت نئے کی تلاش میں سر گرداںہیں۔
جہاں ایک لباس سے کام چل جایا کرتا تھا وہاں کئی کئی سوٹ ہم نے لازم ٹھہرا لیے ہیں،دیکھا دیکھی مہندی،بارات اور ولیمہ کے الگ کلر کے لباس ،جوتے اور دیگر لوازمات کے ساتھ ساتھ کھانوں کی کئی کئی ڈشیں بھی یقینا باعث مہنگائی ہیں اوراس پر مستزاد ہوٹلنگ کا بڑھتا ہوا رجحان اور شادی ہالوںمیں کھانوں کا ضیاع دردمندوں کو رلارہا ہے۔بے برکتی اور بے سکونی کا ایک بڑا سبب زکوة ادا نہ کرنا بھی ہے۔ہمار ااکثر سرمایہ دار طبقہ مالی خسارہ برداشت کر لیتا ہے مگر زکوة کی برکت سے حاصل ہونے والی پاکیزگی اور بڑھوتری سے محروم ہے۔اسی طرح ہمارے کسان پیداوار کی کمی اوربارشوں سے ہونے والی فصلوں کی تباہی تو گوارہ کر لیتے ہیں مگر عشر ادا نہیں کرتے۔یقینا ناشکری اورناقدری کے یہی رویئے نعمتوں کے زوال اور بحرانوں کا باعث بن رہے ہیں۔دراصل یہ سب اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور غصے کی علامتیں ہیں ایسے مواقع پر اللہ تعالیٰ چھوٹے چھوٹے عذابوں میں مبتلا کرکے تنبیہ فرماتے ہیں کہ اے میرے بندو پلٹ آؤ میری طرف قبل اس کے کہ تم پر بڑا عذاب مسلط کردیا جائے۔
ہمارا ایک مزاج یہ بھی ہے کہ جب پتہ چلتا ہے کہ فلاں چیز کی کمی واقع ہو رہی ہے تو ہم زیادہ خریداری بھی اسی کی ہی کرتے ہیںجس سے اس کی قیمت اور بھی بڑھ جاتی ہے جبکہ کم دستیاب اورمہنگی چیز کا چند دن کے لیے استعمال اگر کم کردیا جائے تو وہ خود بخود سستی ہو جائے گی۔بہرحال قلت اموال،مہنگائی اور بحرانی کیفیتوں میں صبرکا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :” میں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوں”۔ اس کے ساتھ ساتھ میسر نعمتوں پر شکر بجالانا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر تم شکر کرو گے تو میں تمہیں مزید نوازوں گا۔ ہر لمحہ استغفار کرنا چاہیے،اس کی برکت سے اللہ تعالیٰ مہنگائی سے بھی نجات عطا فرمائے گا، بحران بھی ٹل جائیں گے اور قلت اموال کی پریشانی بھی ختم ہوجائے گی۔
آئیے مل کر ہاتھ اٹھائیں الٰہی ہمارے حکمرانوں کو ہمارا دکھ درد اور ہمدردی نصیب فرما۔ الٰہی اپنی کمی، کوتاہی اور گناہوں کے معترف بھی ہیں اور معافی کے طلب گار بھی ۔ الٰہی پریشانیوں کا باعث بننے والے گناہ معاف فرما۔پاک پروردگاررمضان المبارک کی ان بابرکت گھڑیوں میں آپ کی رحمت جوش میں ہے، اس عذاب مہنگائی سے ہمیں نجات عطافرما اور ہمارے گھروں میں خیر وبرکت نازل فرما۔آمین