طلال چودھری نے نے محترمہ فردوس عاش اعوان پر انتہائی گھٹیا تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ان کا منہ دھو لیا جائے تو اندر سے عاشق اعوان نکلے گا فردوس نہیں۔اس پر احسن اقبال بولے میں اس بیان کی مذمت کرتے ہوئے معافی مانگتا ہوں اچھی بات ہے احسن اقبال نون لیگ کا منہ مہاندرہ ہیں لین کرے کوئی بھرے کوئی وہ صاحب کدھر ہیں جو جوانی میں چست جین پہنے پرویز الہی کی گاڑی کے سامنے ٹھمکے لگایا کرتے تھے اتنی بھی کیا پردے داری ہے موصوف سامنے آئیں اور عورت کی تضحیک کرنے پر معافی مانگے۔محترمہ ہماری پارٹی کی ہیں ہمارے قائد کی معاونت کر رہی ہیں اور سچی بات ہے میں اب تک انہیں مبارک باد بھی نہیں دے سکا آج ان کے دفاع میں چند سطور صرف اس لئے لکھ رہا ہوں کہ بھائی بہنوں کی مدافعت نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔اور یہ کوئی مدح سرائی بھی نہیں مائیں بہنیں بیٹیاں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں اپناتو ماضی بتائے گا کہ ہم نے کبھ مریم بی بی کی تضحیک بھی نہیں ہونے دی۔کوئی دو سال پہلے کی بات ہے میڈیا سٹریٹجی کمیٹی کی میٹنگ میں خان صاحب نے تمام سپوکس پرسنز کو خواتین کا احترام کرنے کی ہدائت اور ان دنوں تحریک لبیک کے مولانا بم برسا رہے تھے خان صاحب نے ان کے بارے میں منع کیا کہ کوئی انہیں گالی نہ دے۔
ویسے طلال چودھری کے اس واقعے سے پہلے عمران خان صاحب نے ایک جلسے میں خطاب کرتے ہوئے جناب بلاول کے بارے میں صاحبہ کا لفظ استعمال کیا تو اک شور مچ گیا تھا ادھر ادھر سے تنقید کے نشتر چلائے گئے۔یا تو اسے سیاسی چٹکلے بازی کا حصہ سمجھ کر در گزر کر دیا جائے یا پھر معیار دونوں جانب برابر سمجھ کر در گزر کر دیا جائے۔
چلئے آپ کو ماضی کے دو قصے سناتے ہیں ایک بار جناب ذوالفقار علی بھٹو اسمبلی فلور پر خواتین اراکین کے جھرمٹ میں کھڑے تھے تو مولانا مفتی محمود آ گئے جس سے ساری کواتین منتشر ہو کر اپنی اپنی سیٹوں پر چلی گئیں بھٹو صاحب نے جملہ کسا کہ دیکھا مولانا خواتین آپ کو دیکھ کر چلی گئی ہیں وہاں مولنا نے تاریخی جملہ کہا جی بھٹو صاحب خواتین مردوں سے تو پردہ کرتی ہی ہیں۔تاریخ میں پہلی مرتبہ صاحبہ ذوالفقار علی بھٹو کو کہا گیا۔اچھا مرد کے لئے کہہ بھی دیا جائے تو از راہ مذاق اسے تسلیم کر لیا جاتا ہے لیکن کسی خاتون کو مرد کہنا کسی گالی سے کم نہیں۔
ایک صاحب ہماری صفوں میں بھی تھے وہ بھی پارٹی کے لئے آئے روز معافیاں مانگنا کا ریکارڈ قائم کئے رکھتے تھے ۔رقاصائقں کو حاجن بنانے پر معافی،ماروی میمن کو بسنتی کہنے پر معافی،کشمیریوں کی تضحیک پر معافی غرض معافیوں کا ایک سلسلہ متناہی تھا جو جاری و ساری رہتا اگر ایک اقلیت کو رگڑا لگاتے ہوئے ان سے معافی مانگ لی گئی با با آپ کب تک معافیاں مانگو گے ہمیں معاف کر دو۔ایک شادی کی توریب میں انہی معافیوں پر بات ہو رہی تھیں تو مجھے میراثی کا وہ واقعہ یاد آ گیا جو ایک شادی کی تقریب میں رونما ہوا ۔لڑکی کی شادی تھی ڈولی اٹھی تو ایک کہرام مچ گیا لڑکی کے لوحقین بھائی بہن کچھ اس ادا سے چیخے چلائے تو میراثی نے کہا یار اتنا نہ چلائو مجھے اس لڑکی کا علم ہے میں اسے جانتا ہوں یہ جلد ہی واپس آئے گی اور پھر وہی ہوا کچھ ہی عرصے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی وہ صاحب وزارت سے آئوٹ ہو گئے ۔آج کل تو نجی محفلوں سے بھی غائب ہیں۔
فردوس عاشق اعوان سے طلال چودھری کا اس انداز میں مخاطب ہونا ان کی ذہنی کم مائیگی تربیت کی کمی یا پھر کہنے دیجئے کہ فیصل آبادی جگت بازوں کی زبان درازی کہہ کر مطمئن ہوا جا سکتا ہےمحترمہ مریم بی بی کا بلاول افطار پر بہت کچھ لکھا اور کہا جا رہا ہے۔سوشل میدیا تو بے لگام ہے وہاں کی باتوں کا ذکر کیا کرنا لیکن تصویریں جو کچھ بول رہی ہیں وہ مجھے آپ اور سب کو علم ہے۔کہتے ہیں غصے میں انتقام میں الفاظ کا چنائو سوچ سمجھ کر کرو کہیں یہ نہ ہو واپس مل بیٹھنا ہو میرے نزدیک وہ لفظوں کا بوجھ تھا جو مریم پر حاوی تھا حمزہ پر حاوی تر تھا کہ کچھ بھی ہو یہ گھرانہ مذہبی ہے جدہ میں رہتے ہوئے مجھے سرور پیلیس متعدد بار جانے کا اتفاق ہوا خواتین کبھی سمانے نہیں ہوئیں حالنکہ ایک بار بیگم کلثوم نواز کی زیر طباعت کتاب کے چند اوراق مجھے کیپٹن صفدر نے پڑھ کے سنائے اور رائے مانگی۔
اسی لئے میں سمجھتا ہوں کہ بلاول کے ساتھ ٹھس کے بیٹھنے میں یہ سوچ ہو گی کہ چچا زاد کے ساتھ میں بیٹھوں ترتیب اگر درست ہوتی تو میری بات کی تصدیق بھی ہو جاتی۔
یہاں پھر بھی ایک تحریکیا ہونے کی صورت میں میں حسن ظن ہی رکھوں گا۔
خواتین کا جہاں ہمارے مذہب میں ہے اسی طرح دوسرے ادیان میں بھی ہے۔عیسائت اور ہندو مذہب میں عرصے سے ہے۔میں زیریں سندھ میں کچھ عرصے کے لئے رہا ہوں وہاں میر پور متھیلو کی ہندو خواتین کا پردہ اس قدر تھا کہ دیکھ کر رشک آیا۔
طلال چودھری بھلے سے پارٹی کی نیابت کریں انہیں یہ حق حاصل ہے کہ حکومت پر تیز و تند نشتر چلائیں لیکن انہیں خواتین کے بارے میں دئے گئے ریمارکس پر خود معذرت کرنا چاہئے۔
پتہ نہیں اس قسم کے وٹے فیصل آباد سے ہی کیوں مارے جا رہے ہیں اس سے قبل جب رانا ثناء اللہ پیپلز پارٹی میں تھے تو انہوں نے شریف خاندان کی محترم خواتین کے بارے میں بھی اسی طرح کے الفاظ استعمال کئے تھے بلکہ شدید قسم کی تنقید کی گئی جو لکھ نہیں جا سکتی میں نے پہلے عرض کیا تھا کہ غصے اور نفرت میں بولے گئے الفاظ ساری زندگی پیچھا کرتے ہیں۔
آپ دل پر ہاتھ رکھ کر کہئے کہ کیا ہم جب اس قسم کی صورت حال سے گزرتے ہیں اور اس شخص جس کے بارے میں ہماری زبانیں پھسلتی ہیں اس سے سامنا ہو جائے تو جتنا مرضی کہہ لیں کہ کوئی بات نہیں لیکن ہوتا یوں ہے کہ انسان زرمندگی محسوس کرتا ہے اور وہ پہلے جیسا تعلق اور دوستی نہیں رہتی۔اپنے دائیں بائیں نظر دوڑا لیں رشتے داری میں دوستیوں میں ۔ایک بال سا رہ جاتا ہے ۔کہتے ہیں ٹوٹنے کے بعد ہڈی اگر پہلے کی طرح جڑ جائے تو ٹوٹے ہی کیوں؟ محترمہ عاشق اعوان نے میڈیا کے معاملات کو بڑے اچھے انداز سے چلایا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ فواد چودھری اور فیاض چوہان نے پارٹی کا بھرپور دفاع کیا۔لیکن شائد اس وجہ سے مار کھا گئے کہ دوران جنگ کی حکمت عملی اور تھی اور فتح کے بعد اقتتدار کے ایوانوں میں معاملات کسی دوسرے انداز سے چلانے تھے۔فواد تو وزیر سائینس اور ٹیکنالوجی بن گئے فیاض چوہان کو بھی منسٹری ملنی چاہئے ان کے لئے وزارت ثقافت بہتر رہے گی۔سچ پوچھیں نارضگی اپنی جگہ لیکن پنڈی یتیم ہو گیا عامر کیانی کرپشن کی نظر ہو گئے باقی سب پی ٹی آئی والے ٹرخا دئے گئے۔بڑی وزارت راجہ بشارت کے پاس ہے لیکن اگر کوئی انہیں پی ٹی آئی کا سمجھے توغلط بات ہے۔
شہر کی قومی کی دو سیٹیں شیخ لے گئے اب آنے والے انتحابات میں کچھ شیخ لے جائیں گے کچھ وزیر بلدیات پی ٹی آئی کا حقیقی ورکر اللہ ہی اللہ پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں زبان کا ستعمال بڑے معنی رکھے گا۔ویسے تو سیاست کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کے سینے میں دل نہیں ہوتا اور اگر ہوتا بھی ہے تو پتھر کا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سیاست میں کل کے دوست آج کے دشمن اور آج کے کل دشمن ہوتے ہیں۔یہ کہہ مکرنیوں پر پردہ ڈالنے والی بات ہے۔بات ایسی کریں جس سے کل آپ کو شرمندگی نہ ہو۔میرے اپنے ساتھ ایسے معاملات ہو چکے ہیں جن کا احساس آج ہوتا ہے کہ غصے پر قابو پا لیا جاتا تو ٹھیک تھا۔آج کل تو شکیل اعوان سے ٹی وی ٹاکرا پہچان ہی بن گیا ہے واضح رہے کہ ایک چینیل پر سخت جملوں کا تبادلہ ہوا تھا لیکن اچھی بات میڈیا نے نہیں بتائی کہ ہم دونوں اسی چینیل پر معافی تلافی کر کے اٹھے تھے جہاں جنگ و جدل کا سماں پیدا ہو گیا تھا لیکن وہ ٹاک شو اب ایک عنواں بنا دیا گیا ہے۔
سیاسی درجہ ء حرارت کو کم کرنا بہت ضروری تھی وزارت اطلاعات میں سچ پوچھیں خواتین ہی اچھی لگتی ہیں پیپلز پارٹی نے خواتین کو انفارمیشن سیکرٹری کی پوزیشنز دے کر اچھا تجربہ کیا۔انفارمیشن منسٹر ایک خاتون کا ہونا اچھی بات ہے۔فردوس عاشق اعوان ایک سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں ۔مجھے پوری امید ہے وہ اس منصب کے ساتھ انصاف کریں گی کالم کے آخر میں بات پھر وہی دہرائوں گا کہ پارٹی میں مرد حضرات خواتین کو اگر دیوار کے ساتھ لگائیں گے تو خواتین کو حق دینے کا نعرہ کدھر جائے گا ویسے ہی گھریلو خواتین سیاست کے نام سے توبہ کرتی ہیں۔اگر معاملہ ایسے ہی چلایا گیا تو رہی سہی خواتین بھی واپس گھروں کو چلی جائیں گی۔طلا ل چودھری صاحب کی پارٹی لیڈر بھی ایک خاتون ہیں اگر وہ فردوس عاشق اعوان کو طعنہ دیں گے تو پی ٹی آئی کے سوشل ورکرز مریم صاحبہ پر وار کریں گے جو کسی طور پر مناسب عمل نہیں ہو گا۔طلال صاحب کو محترمہ سے خود معافی مانگنی چاہئے نا کہ احسن اقبال صاحب کو یہ زحمت دی جائے۔طلال صاحب یہ انداز گفتگو کیا ہے۔