بھارت میں طویل ترین لوک سبھا کا انتخابی عمل 19 مئی کو اختتام پذیر ہوا اور 23 مئی سے انتخابی نتائج آنے شروع ہوگئے۔ 02 جون تک اقتدار کی منتقلی کا عمل مکمل ہوجائے گا۔ انتخابی عمل میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور کانگریس نے اپنی اتحادی جماعتوں کے ساتھ حصہ لیا۔ بھارت کی حکمرانی کا ہُما کس کے سر بیٹھے گا، اس کے اندازے لگائے جاچکے ہیں۔ بھارت میں انتخابات کے دوران تمام سیاسی جماعتوں نے ایک دوسرے پر سنگین الزامات بھی لگائے اور پُرتشدد ہنگاموں سمیت دھاندلی کے واقعات بھی عالمی ذرائع ابلاغ میں رپورٹ ہوتے رہے۔ پاکستان بھارتی انتخابی عمل مکمل ہونے کے بعد یقینی طور پر نومنتخب وزیراعظم سے خطے میں انتخابات سے قبل اور دوران بھارت کی جانب سے بڑھائی گئی کشیدگی اور جنگی جنونی کیفیت سے باہر آنے کی توقعات رکھتا ہے۔
پاکستان میں انتخابات کے بعد وزیراعظم عمران خان نے اپنے پہلے خطاب میں ہی بھارت کو امن کا پیغام بھیجا تھا۔ نریندر مودی نے بھی پاکستانی وزیراعظم کو مبارک باد دی تھی جس کے بعد توقع کی جارہی تھی کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان تصفیہ طلب معاملات کی جانب مثبت قدم اٹھیں گے، لیکن بدقسمتی سے بھارت میں انتخابی بخار میں مبتلا ہونے کے بعد ایسا ماحول بنادیا گیا کہ دونوں ممالک ایٹمی جنگ کے انتہائی قریب پہنچ گئے۔ پاکستان نے بھارتی جنگی جنون کا مناسب جواب دیا اور تمام تر بھارتی جارحیت کے باوجود گرفتار بھارتی پائلٹ کو انسانی ہمدردی اور امن کی خاطر رہا کرکے بھارتی عوام کے لیے حیران کُن سوالات چھوڑ دیے کہ دونوں ممالک کے درمیان ایٹمی جنگ کے فائدے اور نقصانات کیا ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ پاکستان کے خلاف پلوامہ واقعہ اور بالاکوٹ سمیت مودی کے الزامات پاکستان کی بروقت سنجیدہ سفارت کاری کے سبب جھوٹے ثابت ہوتے چلے گئے، یہاں تک کہ مودی کے انٹرویو میں دیے گئے جوابات نے پوری بھارتی قوم کو شرمندہ اور سبکی کا شکار کیا۔
پاکستان خطے میں اپنے پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتا ہے، کیونکہ وہ جانتا ہے کہ جو وسائل یک طرفہ جنگی جنون میں خرچ ہورہے ہیں، ان کو عوام کی فلاح و بہبود کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ افغانستان، ایران اور بھارت پاکستان کے پڑوسی ممالک ہیں۔ پاکستان کی کبھی خواہش نہیں رہی کہ وہ خطے میں بے امنی کو فروغ دے، یا کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرے۔ دہشت گردی کے واقعات سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ملک ہے۔ اس لیے دہشت گردی سے انسانی جانوں اور مالی نقصانات کا مکمل ادراک رکھتا ہے۔ ماضی میں اختیار کی جانے والی پالیسیوں کی خامیوں کو ختم کرنے کا اعلانیہ عندیہ پاک افواج کے سربراہ سمیت وزیراعظم پاکستان دے چکے ہیں۔ پاکستان اپنی سرحدوں کے ساتھ ملک و قوم کے دفاع کا مکمل حق رکھتا ہے۔ اس لیے اس نے ہمیشہ خطے میں اسلحے کی دوڑ میں پہل نہیں کی۔ پاکستان، بھارت کو متعدد بار بامقصد مذاکرات کی دعوت دے چکا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے بھارتی ہم منصب کو کھلا پیغام دیا کہ وہ ایک قدم بڑھائیں پاکستان دو قدم آگے بڑھائے گا، لیکن بھارت میں انتخابات پاکستان دشمنی کے ایجنڈے کے تحت لڑے جاتے ہیں۔ اس لیے طویل انتخابی عمل کے دوران سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے بھارتی میڈیا سمیت کسی بھی بھارتی سیاسی جماعت نے پاکستان اور بھارت کے درمیان بڑھتی حدت کو کم کرنے کی کوشش نہیں کی۔
بھارت میں انتخابات کے بعد اس کی امید پیدا ہوسکتی ہے کہ نومنتخب وزیراعظم، پاکستان کے خلاف محاذ آرائی کے لیے بے بنیاد پروپیگنڈوں کے بجائے غریب عوام کی فلاح کے لیے تصفیہ طلب معاملات پر بامعنی مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے کی ہمت پیدا کریں گے۔ مقبوضہ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات یہاں تک کہ پاکستان خود دعوت دے رہا ہے کہ خطے میں دہشت گردی کی بڑھتی کارروائیوں پر دونوں ممالک کا ایک صفحے پر آنا ضروری ہے۔ بھارت میں بھی انتخابی عمل کے مکمل ہونے کے بعد عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے حکومت کی جانب دیکھنے پر مجبور ہوں گے۔ اس لیے جن جن جماعتوں کے امیدواروں کو انتخابات میں کامیابی ملی ہے، اپنے حلقے کے مسائل حل کرنا اُن کی اولیّن ترجیح ہونی چاہیے۔ پاکستان ایک حقیقت ہے اور تمام تر نامساعد حالات، عالمی سازشوں کے باوجود قائم و دائم ہے۔ خطے میں ایک مرکزی حیثیت کے ساتھ امن کے قیام کے لیے سنجیدگی کے ساتھ عالمی طاقتوں سے مکمل تعاون کررہا ہے۔ دنیا بھر میں دہشت گردی کے بھیانک واقعات نے ثابت کیا ہے کہ انتہا پسندی کا کوئی مذہب اور سرحد نہیں ہوتی۔ امریکا، کینیڈا سمیت یورپی ممالک اور مشرق وسطیٰ میں انتہا پسندی و دہشت گردی کی لہر مخصوص مفادات کے تحت پھیلائی گئی اور ایشیائی ممالک ہی نہیں بلکہ مغربی ترقی یافتہ ممالک بھی شدّت پسندی کے واقعات سے محفوظ نہیں رہے۔ پوری دنیا کو اس وقت دہشت گردی کا سامنا ہے۔ اس لیے دہشت گردی و شدّت پسندی کو کسی مخصوص مذہب و ملک سے وابستہ کرنے کی لاجک ختم ہوچکی ہے۔ بھارتی حکمرانوں کو دنیا بھر میں تذویراتی تبدیلیوں کو دیکھتے ہوئے جنگی جنون اور پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات استوار کرنے کی خاطر امن کی جانب قدم بڑھانا ہوگا۔
پاکستانی عوام، بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کے لیے بامعنی مذاکرات کے خواہاں رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ فروعی مقاصد کے لیے خطے کو جنگی ماحول سے دوچار نہ کیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ بھارت اس دیرینہ مسئلے کے حل کے لیے اقوام متحدہ کی قرارداد کے مطابق عمل کرکے اس اہم ترین مسئلے کو ختم کرسکتا ہے۔ عالمی قوتوں نے ثالثی کی بھی پیش کش کی ہوئی ہے۔ بھارت اگر خطے میں امن کے لیے سنجیدہ ہے تو عالمی فورم میں مقبوضہ کشمیر کے عوام کی امنگوں کے مطابق بامعنی مذاکرات کی جانب بڑھے۔ پاکستان نے بھارت کے ساتھ کسی بھی مسئلے کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کو ہی آخری حل قرار دیا ہے۔ پاکستانی عوام کے نزدیک شدّت پسندی کی ہر لہر کی مذمت کی جاتی رہی ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہندو انتہا پسندوں کے رویے اور مظالم اور تیسرے درجے کا شہری بنائے جانے پر بھی تحمل کا مظاہرہ کیا گیا ہے۔ بھارت میں کامیاب ہونے والا کوئی بھی سیاسی اتحاد رہا ہو، پاکستان خطے میں امن کے لیے ہر مناسب فورم پر بھارت کو مذاکرات کی ہی دعوت دیتا رہا ہے اور آئندہ بھی دیتا رہے گا۔ پاکستان، بلوچستان اور خیبر پختونخوا سمیت سندھ میں بھارتی مداخلتوں اور بے امنی پیدا کرنے کی سازشوں کو کبھی برداشت نہیں کرے گا۔
پاکستان کی امن کی خواہش کمزوری ہرگز نہیں۔ پاکستان ہر معاملے اور تنازع پر بھارت سے خطے میں امن کے لیے بامقصد مذاکرات پر زور دیتا رہا ہے۔ پاکستان، کرکٹ ڈپلومیسی ہو یا پھر ثقافتی طائفے سمیت سماجی سرگرمیاں، اس سب کو سیاست سے الگ رکھنے کی ضرورت پر زور دیتا آیا ہے۔ اس لیے نئی بھارتی حکومت سے بھی یہی توقعات رکھتا ہے کہ جنگی ماحول کو سرد کرنے کی جانب ایک قدم بڑھائے، پاکستان بھارت کی جانب دو قدم بڑھائے گا۔ یقینی طور پر نئی بھارتی حکومت، پاکستان سے مذاکرات کے لیے فوراً تیار نہیں ہوگی، لیکن امن کی خاطر ماضی کے منفی پروپیگنڈوں کو ترک ضرور کرے گی، کیونکہ بھارت بھی جانتا ہے کہ پاکستان کے عالمی کردار کو کم یا ختم نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت عالمی قوتوں سے کھربوں ڈالرز کے جنگی سازوسامان کے حصول کے لیے پاکستان کو جواز نہ بنائے کیونکہ پاکستان کبھی جنگ کا خواہاں نہیں رہا بلکہ چاہتا ہے کہ دونوں ممالک کے عوام کو غریبی سے باہر نکال کر خوش حال بنایا جائے۔